تقسیم کے موضوع پر فلم ’گرم ہوا‘ جو بلراج ساہنی کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی

محمود الحسن

فلم ’گرم ہوا‘ کو تقسیم کے موضوع پر بہترین فلم کہا جا سکتا ہے۔ بلراج ساہنی اس میں اپنے فن کے اوج پر نظر آتے ہیں۔ عصمت چغتائی کی کہانی کو کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے فلم اسکرپٹ میں ڈھالا۔ اس کے ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو تھے۔

اس فلم کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہوئی کہ ریلیز ہونے سے پہلے بلراج ساہنی، جنہوں نے اس فلم کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا، دنیا سے سدھارے۔ اس لیے رواں برس ایک طرف جہاں ’گرم ہوا‘ کی تکمیل کو پچاس سال پورے ہوئے، وہیں ساہنی کی بزمِ جہاں سے رخصتی کو بھی اتنے ہی برس بیت گئے۔

آج ’گرم ہوا‘ کو بلراج ساہنی کے حوالے سے یاد کر کے دیکھتے ہیں کہ اس فلم نے کس طرح سے انہیں ہم سے چھینا۔

کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی نے فلم میں بلراج ساہنی کی بیوی کے رول میں عمدہ اداکاری کی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’یاد کی رہ گزر‘ میں لکھا ہے کہ ’گرم ہوا‘ میں کام کے لیے ساہنی کو راضی کرنے کے واسطے وہ اور کیفی ان سے ملنے گئے تو انہوں نے فلم کی کہانی سننے کے بعد سوال کیا کہ ’کیا آپ سب کو امید ہے کہ یہ مسلم کریکٹر میں کر سکوں گا؟‘

اس پر شوکت کیفی نے ان کی اداکاری کو سراہا اور کہا کہ ’جب آپ ’دو بیگھا زمین‘ میں ایک مجبور کسان کا اور ’کابلی والا‘ میں پٹھان کا رول اتنا اچھا کر سکتے ہیں تو یہ رول اس کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔‘

بلراج ساہنی نے تقسیم سے پہلے اور بعد میں مسلمانوں کے درمیان بہت وقت گزارا تھا۔ ان سے ان کی دوستیاں تھیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ پطرس بخاری کے شاگرد تھے جو جماعت میں انہیں اداس دیکھ کر کہتے کہ ’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو؟ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس ہو تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں: یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘

خیر، اسے جملہ معترضہ جانیے کہ ساہنی کی لاہور سے متعلق یادوں کی پٹاری کھل گئی تو پھر بات رکے گی نہیں اور ہم موضوع سے بھٹک جائیں گے۔

ساہنی نے مسلمانوں سے قریبی ربط ضبط پر تکیہ نہیں کیا بلکہ فلم میں سلیم مرزا کے کردار کے لیے نئے سرے سے خود کو تیار کیا۔ بھیونڈی میں ایک مسلم کامریڈ کے گھر میں رہے۔ اس کے والد کے طرز زندگی کا بغور جائزہ لیا، جس کے بعد بقول شوکت کیفی ’شوٹنگ شروع ہونے سے کئی دن پہلے وہ اپنے کریکٹر میں آ گئے تھے۔‘

انہوں نے کامریڈ کے گھر وقت گزارنے کے بعد، فلم میں جس پیشے سے متعلق تھے، اس کے بارے میں واقفیت کے لیے بھی دوڑ دھوپ کی۔ خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں کہ ”آگرہ میں گرم ہوا کی شوٹنگ کے دوران ملنے والے وقفے اور فرصت کو وہ جوتا بنانے والے مسلم کاریگروں کے درمیان گزارتے کہ ان سے کچھ سیکھ سکیں کیونکہ ’گرم ہوا‘ میں وہ یہی سماجی کردار نبھا رہے تھے۔“

’گرم ہوا‘ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے دوسروں نے بھی اپنی سی کوشش کی۔ فلم میں سلیم مرزا کی خاندانی حویلی ہندو سرمایہ دار اجمانی کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ اس کی والدہ حویلی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وقتِ رخصت وہ کوٹھری میں چھپ جاتی ہیں، جہاں سے انہیں زبردستی نکالا جاتا ہے۔ نئے گھر میں منتقل ہونے پر انہوں نے اوپری منزل پر اپنا ٹھکانہ ایسی جگہ بنایا، جہاں سے پرانی حویلی دکھتی تھی۔ آخری وقت تک حویلی کی یاد ان کے ذہن سے محو نہیں ہوتی۔ جانکنی کے عالم میں بہو کے کہنے پر انہیں حویلی لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ جان جان آفریں کے سپرد کرتی ہیں۔ اس قسم کا واقعہ شوکت کیفی کی والدہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، جس کو انہوں نے کبھی میاں کے گوش گزار کیا تھا۔ اسے کیفی نے ’گرم ہوا‘ میں تقریباً جوں کا توں ڈال دیا

حویلی کے مالک اجمانی کا فلم میں مثبت رول ہے۔ وہ کٹھن وقت میں سلیم مرزا کی دل جوئی کرتا ہے۔ یہ کردار اے کے ہنگل نے کیا ہے۔ ’شعلے‘ فلم کا رحیم چاچا، جس کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘، ’گرم ہوا‘ میں سب کراچی ہجرت کر رہے ہیں، لیکن اے کے ہنگل نے حقیقی زندگی میں کراچی سے ’بمبئی‘ ہجرت کی، جس سے پہلے انہیں کمیونسٹ نظریات کی وجہ سے جیل کاٹنی پڑی۔

شوکت کیفی کی زبانی آپ بلراج ساہنی کے فلم میں کام کرنے پر رضامندی کا قصہ تو اوپر پڑھ ہی چکے، اب آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں وہ ذاتی زندگی میں بڑے بحران سے گزر رہے تھے اور یہ فلم ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ اس بات کی مستند گواہی ان کے بیٹے پرکشت ساہنی کی کتاب ’دی نان کنفارمسٹ: میموریز آف مائی فادر بلراج ساہنی‘ سے ملتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے والد ان تین ڈِیز کا مثالی نمونہ تھے ’ ڈیڈیکیشن، ڈٹرمینیشن، ڈسپلن۔‘ آخر کار انہی نے ان کو مار ڈالا

پرکشت ساہنی نے لکھا کہ ان کے خیال میں ’گرم ہوا‘ بلراج ساہنی کی بہترین فلم تھی جس میں انہوں نے اس وقت کام کیا، جب ان کی بیٹی کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اس کی ناکام ازدواجی زندگی، خودکشی کی کوشش، غمگینی اور بعد ازاں بیماری کے روگ میں مر جانا۔ اس سب نے بلراج ساہنی کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس جانکاہ صدمے کے بعد وہ سنبھل نہ سکے۔

اس پس منظر میں انہیں ’گرم ہوا‘ میں کام کرنے کی آفر ہوئی۔ ساہنی کو تقسیم سے پہلے راولپنڈی، لاہور اور مری میں بیتا وقت اور اسکول کالج کے یار دوست یاد آتے۔ تقسیم کے گھاؤ جو اس وقت مندمل ہو گئے تھے، اس فلم نے ہرے کر دیے۔ فلم میں بیٹی کی مرگ نے حقیقی بیٹی کی جدائی کا غم تازہ کر دیا۔ ان دونوں واقعات نے فلم کو ایک طرح سے بلراج ساہنی کی آپ بیتی بنا دیا۔

پرکشت ساہنی کا کہنا ہے کہ شوٹنگ کے دوران وہ بڑے اپ سیٹ رہے، جس کی وجہ سیٹ پر فلم سے وابستہ افراد کا ڈسپلن پر کاربند نہ ہونا تھا۔ ایک خط میں بلراج نے بیٹے کو لکھا کہ ’یہ میرے زمانے کا اپٹا (انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن) نہیں ہے، میں زندگی میں دوبارہ کبھی اس گروپ کے ساتھ کام نہیں کروں گا۔‘

فلم کی شوٹنگ کے بعد وہ ’بمبئی‘ پہنچے تو ایک کٹے پھٹے آدمی تھے۔ یہ ان کے لیے تکلیف دہ تجربہ تھا اور وہ بہت پژمردہ تھے۔ بیٹی کی موت کا وہ کہیں نہ کہیں خود کو بھی ذمہ دار سمجھتے تھے۔ بھائی بھشیم ساہنی کے نام خط میں انہوں نے ناکام باپ اور ناکام شوہر ہونے کا اعتراف کیا۔

پرکشت نے کتاب میں بتایا ہے کہ بلراج ساہنی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فلم کے ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو نے اعتراف کیا کہ فلم کے اصل اسکرپٹ میں بیٹی کی موت اور اس کی قبر والے سین نہیں تھے یہ اس نے فلم میں ایفیکٹ بڑھانے کے لیے ڈالے کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ وہ اس سے بلراج ساہنی کی اداکاری کا نادر نمونہ گرفت میں لا سکے گا۔ ستھیو نے تسلیم کیا کہ یہ اس کا بڑا ظالمانہ فعل تھا، جس پر وہ کبھی خود کو معاف نہیں کر پائے گا۔

پرکشت ساہنی کا کہنا ہے کہ ’گرم ہوا‘ نے ان کے والد کو مار دیا۔ فلم کی ڈبنگ کے دوران وہ نڈھال ہو گئے۔ انہوں نے ایک دن ڈائریکٹر سے کہا کہ سارا کام آج ہی مکمل کرلے اور اسے مزید دراز نہ کرے۔ شاید یہ کوئی پیش آگاہی تھی، کیونکہ اگلے دن صبح انہوں نے دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

بلراج ساہنی کا گھرانہ تقسیم سے متاثر ہوا اور اسے راولپنڈی سے ہجرت کرنی پڑی، اس لیے تقسیم کے جلو میں آنے والی مصیبتوں سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ بھیشم ساہنی تقسیم کے بارے میں بہترین ناولوں میں سے ایک ’تمس‘ کے مصنف ہیں تو بلراج ساہنی تقسیم کے موضوع پر بننے والی یادگار فلم کے مرکزی کردار۔ ایک بھائی کو اپنی لکھت تو دوسرے کو اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

’گرم ہوا‘ تقسیم کے بعد آگرہ کے مسلمان گھرانے کا قصہ بیان کرتی ہے۔ یہ گاندھی جی کے قتل کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار سلیم مرزا ہے جس کا جوتوں کا کارخانہ ہے۔ کاروباری دنیا میں لوگ اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ قرض ہے تو وہ ملتا نہیں، مال کا آرڈر وقت پر پورا کرنے کے لیے مزدور نہیں کہ سب پاکستان دوڑے جا رہے ہیں۔ کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ تقسیم کے باعث غیروں کے نہیں اپنوں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔

فلم کے آغاز میں سلیم مرزا کہتا ہے کہ ’یہ دنگے فساد پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس طرح کوئی اپنا گھر بار چھوڑ کر نہیں بھاگتا تھا۔‘

اس بات کا جواب تانگے والا کچھ یوں دیتا ہے کہ’ارے تب بھاگ کر جاتے کہاں؟ اللہ میاں نے اب پاکستان جو بنا دیا ہے پھر کون حرام موت مرے ہے میاں!‘

سب سے پہلے سلیم مرزا کی بڑی بہن کا کنبہ پاکستان جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑا بھائی، جو بڑا چلتا پرزہ ہے، کراچی سدھارتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر بڑا بیٹا بھی لڑ جھگڑ کر ادھر کا رخ کرتا ہے۔ چھوٹی بہن کا خاندان بھی وہیں جا آباد ہوتا ہے۔ پاکستان میں ان سب کی زندگی میں لہر بہر کی خبریں ان تک پہنچتی ہیں اور ادھر انڈیا میں ان کے لیے عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔ چھوٹے بیٹے کو نوکری نہیں ملتی۔ بیٹی کی شادی جس کزن سے ہونی تھی وہ پاکستان چلا جاتا ہے، واپس آتا ہے لیکن شادی سے چند دن پہلے غیر قانونی طور پر انڈیا آنے کی وجہ سے اسے پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔

لڑکی اب دوسرے کزن کی طرف ملتفت ہوتی ہے۔ یہ کزن بھی پاکستان چلا جاتا ہے اور پلٹ کر خبر نہیں لیتا۔ پاکستان میں کسی اور سے اس کی نسبت طے ہونے کی خبر آمنہ پر بجلی بن کر گرتی ہے اور وہ خود کشی کر لیتی ہے۔ اس سے فلم کی سوگوار فضا اور بھی زیادہ سوگوار ہو جاتی ہے۔

فلم میں منگیتر کے پاکستان چلے جانے سے لڑکی کی زندگی میں جس مایوسی کا بیان ہے یا اس کی ماں کا اس پر کڑھنا ہے، اس سے میرے ذہن میں ممتاز ادیب انتظار حسین کی کہانی ’آخری موم بتی‘ کا خیال آیا جس میں شمیم کا منگیتر وحید کراچی جاکر بیاہ رچا لیتا ہے۔ شمیم اب پہلے سی شمیم نہیں رہتی۔ بجھ سی جاتی ہے۔ لڑکی کی ماں جس نے وحید کی تعلیم و تربیت بھی کی ہوتی ہے، وہ جل بھن کر کہتی ہے کہ ’ارے بھیا! اس نے تو کرانچی جاکے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ کوئی چلتی پھرتی مل گئی اس سے بیاہ کر لیا۔۔۔ ڈوبا ہمارا تو لہنا ہی ایسا ہے مٹے کو پڑھایا لکھایا، پالا پرورش کیا اور اس نے ہمارے ساتھ یہ دغا کی۔۔۔ یاں سے کہہ کے گیا کہ کرانچی جاتے ہی خط بھیجوں گا۔ لے بھیا اس نے تو واں جا کے ایسی کینچلی بدلی۔ دنیا بھر کے فیل کرنے لگا۔‘

اس حوالے سے پہلے بات چل رہی تھی فلم کی کہانی کی تو اس میں ایک مرحلے پر سلیم مرزا جاسوسی کے جھوٹے الزام میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ رہائی کے بعد اس پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ دنگے میں پتھر سر میں لگنے سے وہ زخمی ہوتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے فیکٹری جلا دی جاتی ہے۔ بیٹے کی بیروزگاری الگ۔ آخر کار سلیم مرزا حالات سے عاجز آکر پاکستان جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔

تانگے پر بیوی اور بیٹے کے ساتھ ٹرین پکڑنے کے لیے اسٹیشن جارہا ہوتا ہے تو رستے میں کیا دیکھتا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے جلوس نکال رہے ہیں، معاً اس کا ذہن پلٹا کھاتا ہے، وہ بیٹے سکندر کو، جو ہندوستان میں رہ کر اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے پر یقین رکھتا ہے، جلوس میں شامل ہونے کا اذن دیتا ہے اور بیوی کو گھر بھیج کر خود بھی جلوس کا حصہ بن جاتا ہے۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close