رحیم یار خان: نیم کے بیکار پھل سے تیل نکالنے والے پاکستانی نوجوان

ویب ڈیسک

نیم کے درخت سے ہمارا رومانس بچپن سے ہے۔ جا بجا لگے نیم کے درخت ایک عجب سی ٹھنڈک کا احساس دیتے ہیں۔ جب اس پر پھل، جسے نمولی کہتے ہیں، لگتا ہے تو اس کو توڑ کر ضرور کھاتے ہیں

اس پھل کا ذائقہ بھی مٹھاس اور کڑواہت کا ایک عجب امتزاج ہوتا ہے۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ نیم کے درخت سے دوری ہوتی گئی۔ اب شہروں میں تو نیم کا درخت بہت کم ہی ملتا ہے۔ جس شخص کو نیم کی پہچان نہ ہو تو وہ اس سے ملتے جلتے درخت بکائین کو بھی نیم سمجھ سکتا ہے

نیم کا درخت زیادہ تر برصغیر کے ممالک پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلادیش ، سری لنکا اور مالدیپ میں کثرت سے ملتا ہے۔ اس درخت کا گھنا سایہ ہوتا ہے۔ اور یہ بڑ کے درخت کی طرح چاروں طرف پھیلتا ہے۔ اس کا تنا بھی موٹا ہوتا ہے۔ اگر گرمی کی دوپہر کو کوئی اس کے نیچے آرام کرے تو کسی بھی ایرکنڈیشنر سے کم راحت نہیں ملتی۔ اس کے فوائد صرف سایے تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ اگر آپ کے گھر کے لان میں ایک نیم کا درخت موجود ہے تو بہت ساری بیماریوں کے علاج کے لئے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں

لیکن مختلف علاقوں میں جا بجا بکھرے نیم کے پھل جنہیں ’نمولیاں‘ کہتے ہیں، اکثر صفائی کے مسائل پیدا کرتے ہیں

رحیم یار خان کے تعلیم یافتہ نوجوان احسن فریدالدین نیم اور آم کے درختوں سے گر کر ضائع ہونے والے پھلوں کو پراسیس کر کے مختلف بائی پراڈکٹس بنا رہے ہیں، جس سے ماحولیاتی آلودگی اور صحت و صفائی کے پیدا ہونے والے مسائل کم ہو رہے ہیں

خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی سکالر احسن فریدالدین کہتے ہیں ”نیم شہروں میں عام پایا جانے والا درخت ہے مگر ہر سال اس سے پھل گرتا اور ضائع ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہ لوگوں کے لیے صفائی کا مسئلہ بھی بناتا ہے۔ میں نے اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس پھل سے بہت اچھا تیل حاصل کیا جا سکتا ہے جو کئی مقاصد کے لیے سود مند ہے“

احسن فریدالدین گذشتہ سال پچاس ٹن نیم کا یہ ضائع ہونے والا پھل قابل استعمال بنایا۔ وہ بتاتے ہیں ”میں نے ایک کامیاب بزنس ماڈل بنا دیا ہے، ملک بھر میں اس پر اگر کام کیا جائے تو یہ نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ اس کے سے بہت سے لوگوں کا روزگار چل سکتا ہے. اس کے علاوہ میں درختوں سے گر کر ضائع ہونے والے آموں سے آم چور بنانے کا بھی کامیاب بزنس ماڈل بنایا ہے“

احسن فریدالدین نے طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا پاؤڈر آم کی گھٹلیوں سے تیار کیا ہے، جبکہ دوسری کئی چیزیں بھی بنائی جاسکتی ہیں

وہ کہتے ہیں ”اس سب کے لیے درکار مشینری مہنگی ہونے کی وجہ سے میں یہ منصوبے شروع نہیں کر پا رہا“

رحیم یار خان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر میاں سعد حسن کا کہنا ہے کہ مقامی نوجوان احسن فریدالدین ایک اثاثہ ہے اور ان کا بزنس ماڈل بہت کامیاب ہے۔ ’ملک بھر میں عوام کی اکثریت اب دیسی اور قدرتی اشیا کے استمعال کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگر حکومت ایسے نوجوانوں کو سپورٹ کرے تو یہ مصنوعات ملکی زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنے گی۔‘

رحیم یار خان میں محکمہ زراعت پنجاب کے سابق ڈائریکٹر ایگری کلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ نیم کی کھلی میں 17 فیصد (این پی کے) قدرتی طور دیگر اجزا کے ساتھ موجود ہوتی ہے، جو ایک بہترین قدرتی کھاد ہے

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے معروف حکیم گلزار جو گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمت کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ نیم کا خالص تیل بواسیر کے علاج کے لیے استمعال ہوتا ہے، جبکہ ناخنوں کے فنگس سمیت سر کی خشکی اور جوؤں کے خاتمے کے لیے بھی مجرب نسخہ ہے

ماہر بیوٹیشنز کے مطابق نیم آئل بالوں کا قدرتی ٹانک ہے، جو انہیں لمبا اور گھنا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جلد کے لیے ایک بہترین اینٹی ایجنگ آئل کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے استعمال کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں

بہرحال دیگر درختوں کی طرح نیم آکسیجن پیدا کرتا ہے اور آکسیجن کی مقدار کو ماحول میں متوازن رکھتا ہے. اس کے ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔ سیلاب کے کنٹرول کے علاوہ مٹی میں موجود نمکیات کو کم کر دیتا ہے جس سے زمین ذیادہ دیر تک زرخیز رہتی ہے۔ نیم شہری جنگلات میں بھی انتہائی مفید ہے کیونکہ اس میں ہوا اور پانی کی آلودگی کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں کمی کرنا قابل ذکر صلاحیت ہے

نیم میں موجود قدرتی اجزا اسے کیڑے مار دواؤں کا قدرتی نعم البدل بھی بناتے ہیں، بھارت سمیت کئی ممالک میں اس کا استعمال فصلوں کو کیڑوں سے بچانے کے لئے بھی ہوتا ہے اس سے ناصرف فصلوں پر اچھا اثر پڑتا ہے بل کہ ان فصلوں سے حاصل ہونے والی خوراک کیمیائی اجزا سے پاک ہوتی ہے

ماحولیاتی مسائل سے دوچار پاکستان میں نیم کے درخت کی کاشت کو فروغ دے کر ملک میں بہت سارے ماحولیاتی اور صحت کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close