ریلیز ہوتے ہی فلاپ اور پھر کامیابی کے ریکارڈ بنانے والی فلم ’شعلے‘ کی داستان اور دلچسپ حقائق

ویب ڈیسک

1975 میں ریلیز ہونے والی رمیش سپی کی فلم شعلے نے ہندی سنیما کا رخ بدل دیا۔ اس نے اپنے اداکاروں کی زندگی بدل دی، اور تجارتی فلم کی کامیابی کا سنہری معیار بن گیا۔ یقیناً آپ بھی انہیں فلم بینوں میں سے ہونگے، جنہوں نے یہ فلم دیکھ رکھی ہوگی۔ ایک ایسی فلم، جس کے ڈائلاگ آج بھی زبان زدِ عام ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ ممبئی کے منروا سنیما میں مسلسل پانچ سال تک نمائش کے لیے پیش ہونے والی اس فلم کو جب 15 اگست 1975 کو ریلیز کیا گیا، تو بعض مبصرین نے اسے فلاپ فلم قرار دیا تھا، لیکن بعد ازاں یہ فلم بالی وڈ کی تاریخ کی ایک کامیاب فلم بنی

فلم کا مذاق اڑاتے ہوئے بعض اخباری تجزیوں میں طرح طرح کے نام دیے گئے، جیسا کہ ’چھولے‘ یا ’تین مراٹھی اور ایک چوہا‘ وغیرہ

دوسری طرف اس پر چربہ فلم ہونے کا الزام بھی لگایا گیا اور کچھ تجزیہ کاروں نے اسے تین سال قبل ریلیز ہونے والی فلم ’میرا گاؤں، میرا دیش‘ کی نقل قرار دیا تھا تو کسی نے اسے ہالی وڈ فلم سے متاثر کہا تھا۔ چند ناقدین نے یہ تک کہا تھا کہ فلم میں جتنی مار پیٹ دکھائی گئی ہے، خواتین اور فیملی کے ساتھ آنے والے لوگ اسے دوبارہ دیکھنے نہیں آئیں گے

لیکن ان سب باتوں کے درمیان ممبئی کے علاقے وولی میں واقع گینا سنیما کے مالک کی رائے مختلف تھی، انہوں نے فلم دیکھ کر ہدایت کار رمیش سپی کو بتا دیا تھا کہ ’شعلے‘ چلنے والی فلم ہے۔ رمیش سپی نے جب مالک سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جب جب سنیما میں آئس کریم اور کولڈ ڈرنک کم فروخت ہوتے ہیں، فلم چلتی ہے۔ سنیما مالک نے کہا ”وقفے کے دوران لوگ اتنے سکتے میں ہوتے ہیں کہ کوئی تھیٹر سے باہر آنے کا سوچتا بھی نہیں۔ یہی اس فلم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔“

اور پھر ابتدا میں فلاپ قرار دی گئی یہ فلم کچھ ایسی چلی کہ دو دہائیوں تک بھارت کی کامیاب ترین فلم بن گئی

ستر کی دہائی بھارتی فلمی صنعت کا وہ زمانہ تھا، جب کسی فلم پر ایک کروڑ کی لاگت بھی بہت زیادہ سمجھی جاتی تھی، ایسے وقت میں سن 1975 میں رمیش سپی نے تین کروڑ روپے کی لاگت سے ملک کی پہلی 70 ایم ایم فلم ’شعلے‘ بنائی

فلم کی کہانی آن اسکرین جتنی جان دار نظر آئی، اتنی ہی آف اسکرین بھی تھی۔

فلموں پر لکھنے والی صحافی انوپما چوپڑا اپنی کتاب ’شعلے دا میکنگ آف اے کلاسک‘ میں کئی ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے، جن کے بارے میں کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اس کتاب میں فلم کا وہ مرکزی خیال بھی بتایا گیا ہے، جسے سلمان خان کے والد سلیم خان اور شاعر جاوید اختر نے تحریر کیا تھا

اپنی کتاب میں انوپما چوپڑا لکھتی ہیں کہ اس فلم کے پہلے مرکزی کردار ایک سابق فوجی افسر کا ہوتا ہے، جس کے خاندان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ وہ دو کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے سابق فوجیوں کو ان کی بہادری کی وجہ سے اپنے ساتھ ملاتا ہے اور خاندان والوں کی موت کا بدلہ لیتا ہے، لیکن فلم کی شوٹنگ سے قبل ہی ہدایت کار لکھاریوں کو بتاتے ہیں کہ وہ فوجی افسر کی جگہ پولیس افسر کو کہانی کا مرکزی کردار بنائیں، کیوں کہ فوج سے اجازت لینے میں وقت لگ سکتا ہے

اسی طرح فلم کے کردار ’جے‘ اور ’ویرو‘ کو سابق فوجی کے بجائے چور دکھایا گیا، لیکن ان کی بہادری کو کردار کا حصہ رہنے دیا گیا

اداکاروں کے انتخاب کے معاملے میں رمیش سپی نے اپنی فلم ’سیتا اور گیتا‘ میں کام کرنے والے سنجیو کمار، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو سب سے پہلے شعلے میں ٹھاکر، ویرو اور بسنتی کے کردار میں کاسٹ کیا

جے دیو کے کردار کے لیے ڈسٹری بیوٹرز کا مشورہ تھا کہ اس وقت کے ناکام ہیرو امیتابھ بچن کی جگہ کامیاب ولن شتروگھن سنہا کو منتخب کیا جائے، لیکن اداکار دھرمیندر کی سفارش پر قرعہ امیتابھ بچن کے نام نکلا، جنہوں نے اس فلم کے بعد کامیابیوں کی کئی منزلیں طے کیں

اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلے پہل فلم کے مرکزی ولن یعنی گبر سنگھ کے لیے اداکار ڈینی ڈینزونگپا کو منتخب کیا گیا تھا، لیکن چونکہ انہیں اپنے دوست و ساتھی اداکار فیروز خان کی فلم ’دھرماتما‘ کی شوٹنگ کے لیے افغانستان جانا تھا، اس لیے انہوں نے ’شعلے‘ میں کام کرنے سے معذرت کر لی

ولن کا انتخاب شوٹنگ سے چند روز قبل اس وقت ہوا، جب اداکار جیانت کے بیٹے امجد خان نے سلیم خان کے کہنے پر رمیش سپی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ رمیش سپی نے انہیں دیکھتے ہی فلم کے لیے او کے کر دیا، اور یہیں سے امجد خان کا بطور کامیاب اداکار دور شروع ہوا

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی، فلم کے ولن گبر سنگھ کی بچوں میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ایک بسکٹ کمپنی نے امجد خان کو بطور گبر سنگھ اپنے اشتہار میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، نہ صرف اس فیصلے سے بسکٹ کی مانگ میں اضافہ ہوا بلکہ اس کے بعد مشہور فلمی کرداروں کو اشتہار میں استعمال کرنے کا سلسلہ بھی چل نکلا۔ ساتھ ہی یہ پہلا موقع تھا، جب فلم کے ولن نے اشتہار میں کام کیا ہو

گلوکوز بسکٹ سے لے کر گریپ واٹر تک، شعلے کو مارکیٹ میں بہت سی چیزوں کی فروخت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اسے کاپی رائٹرز کے ذریعہ Aiwa الیکٹرانک مصنوعات کے اشتہارات اور چینل V کے اشتہارات میں استعمال کیا گیا ہے

شعلے ایک ایسی فلم بھی ثابت ہوئی، جب پہلی بار کسی فلم کے مکالموں نے گانوں کو بھی مقبولیت میں پیچھے چھوڑ دیا

’شعلے‘ کو ریلیز کے ساتھ ہی فلاپ قرار دے دیا گیا تھا اور کسی بھی مبصر نے اس کے بارے میں اچھے الفاظ نہیں لکھے تھے، لیکن جب ایک اخبار میں دعویٰ کیا گیا کہ فلم بری طرح ناکام ہوگی تو فلم کے لکھاریوں سلیم خان اور جاوید اختر نے ایک اشتہار چھپوایا، جس میں لکھا تھا کہ فلم ہر سینٹر سے کم از کم ایک کروڑ روپے کا بزنس کرے گی۔۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی، انوپما چوپڑا کی کتاب کے مطابق فلم کے ریلیز ہوتے ہی اس کے ڈائیلاگ ہر شخص کی زبان پر چڑھ گئے تھے اور لوگوں نے عام بول چال میں بھی شعلے کے مکالموں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا

اس وقت نئی لانچ ہونے والی میوزک کمپنی پولی ڈور نے اس موقع پر فلم کے مکالموں کے متعدد ریکارڈز جاری کیے، جنہوں نے فلم کے ساؤنڈ ٹریک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

جان دار مکالموں اور شان دار اداکاری کے باوجود جب ناقدین کی رائے فلم کے حوالے سے نہیں بدلی تو ایک موقع پر فلم کے ہدایت کار رمیش سپی نے جے دیو کی موت کو فلم سے ہٹا کر انہیں زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ سمجھا جا رہا تھا کہ ناظرین ہیرو کو مرتے ہوئے دیکھنا ہضم نہیں کر سکیں گے

ان کا خیال تھا کہ ’زنجیر‘ اور ‘دیوار’ کی کامیابی کے بعد امیتابھ بچن کا فلم میں مرنا درست نہیں۔ لیکن سلیم جاوید کی جوڑی نے انہیں ایسا کرنے سے انہیں روک دیا اور آج اڑتالیس سال بعد بھی جے دیو کی موت پر لوگوں کی آنکھیں بھر آتی ہیں

لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ فلم کی ریلیز سے پچیس دن پہلے سینسر بورڈ کی فرمائش پر ’شعلے‘ کے کلائمکس کو تبدیل کیا گیا

فلم کے اصلی اختتامیے میں نوک والے جوتوں کی مدد سے ٹھاکر گبر کو مار دیتا ہے، لیکن سینسر کی مداخلت کے بعد گبر کو وہ پولیس آ کر پکڑ لیتی ہے، جو پوری فلم میں کہیں نظر نہیں آتی۔۔

یوں اختتام کو سنسر بورڈ کے کہنے پر تبدیل کیا گیا جس کا خیال تھا کہ یہ بہت پرتشدد ہے۔ ریلیز میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے تھے، سپی کو احساس تھا کہ اگر وہ بورڈ سے لڑے تو ان کی فلم کی ریلیز میں تاخیر ہو جائے گی، اس نے تسلیم کیا اور دوبارہ بنگلور میں نئے کلائمکس کی شوٹنگ کے لیے گئے، اور سنجیو کمار کو واپس بلا لیا جو روس میں تھے۔ یہ ایمرجنسی کے دوران تھا جو جولائی میں شروع ہوئی تھی

فلم کے پریمیئر سے قبل اس کا لندن سے درآمد کیا جانے والا پرنٹ بھی ایک سرکاری افسر کے کہنے پر کسٹم نے روک لیا تھا، جس کی وجہ سے پریمیئر پر 70 ایم ایم کے بجائے 35 ایم ایم کا پرنٹ دکھایا گیا

معروف ہدایت کار شیکھر کپور کے مطابق بھارتی فلم انڈسٹری کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ’شعلے‘ سے پہلے کا دور اور ’شعلے‘ کے بعد کا دور۔ ان کی اس بات میں اس لیے بھی وزن ہے کیوں کہ ’شعلے‘ ہی وہ پہلی فلم تھی، جس نے ہالی وڈ کی برابری کرنے کی کوشش کی

انوپما چوپڑا کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فلم کی کامیابی میں جہاں ہدایت کار کے وژن اور اداکاروں اور مکالمہ نگاروں کی محنت کا ہاتھ ہے، وہیں ہالی وڈ سے مدعو کئے گئے اسٹنٹ ڈائریکٹر جم ایلن کا بھی حصہ تھا

ان کی وجہ سے بھارتی فلموں میں پہلی بار مکوں اور گھونسوں کی وہ آوازیں استعمال کی گئیں، جو انٹرنیشنل فلموں میں ہوتی ہیں

جم ایلن اپنے ساتھ جو ٹیم لے کر آئے، اس میں ایک اور اسٹنٹ ڈائریکٹر جیری کریمپٹن، کوآرڈنیٹر رومو کمورو اور اسپیشل ایفیکٹس اسپیشلسٹ جون گینٹ شامل تھے۔ یہ انہی کو کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ’شعلے‘ میں جب جب گولی چلی تو سنیما میں اس کی آواز گونجی، کیوں کہ اس سے قبل فلموں میں نقلی گولیاں ہی استعمال کی جاتی تھیں۔

اس کتاب میں انوپما چوپڑا نے ایک ایسا واقعہ تحریر کیا ہے، جس میں امیتابھ بچن کی جان بھی جا سکتی تھی۔ ان کے بقول گانے ’جب تک ہے جاں‘ کے بعد دھرمیندر کو ایک صندوق کو لات مار کر کھولنا تھا اور مٹھی میں گولیاں بھر بندوق لوڈ کرنا تھی، لیکن چونکہ وہ اس دن ہوش میں نہیں تھے، اس لیے ان سے نہ تو صندوق کھل پا رہا تھا اور نہ بندوق لوڈ ہو رہی تھی

ایسے میں جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے جھنجھلا کر ایک فائر کیا۔ گولی نزدیک کھڑے امیتابھ بچن کے قریب سے گزر گئی۔ اس حادثے کے بعد دھرمیندر نے نہ صرف اگلے کچھ دن تک شراب کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ اسٹنٹ ٹیم سے معافی بھی مانگی

اس کتاب کے مطابق فلم کے آغاز میں دکھایا جانے والا ٹرین سین سب سے آخر میں شوٹ ہوا، جس وقت فلم بن رہی تھی، اس وقت قوانین کے مطابق ایک وقت میں ایک پٹری پر دو ٹرینیں نہیں چل سکتی تھیں

اس لیے مقامی ریلوے حکام اور گاؤں والوں سے معاہدے کے تحت پروڈیوسرز نے روزانہ کی بنیاد پر کھانے کا اہتمام کیا تاکہ ٹرین والا سین بغیر کسی تعطل کے شوٹ کیا جا سکے

شعلے فلم کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

◉ 1999 میں، بی بی سی-انڈیا اور مختلف سروے نے شعلے کو ’فلم آف دی ملینیم‘ قرار دیا

◉ ممبئی کے منروا تھیٹر میں، شعلے 1975 سے 1980 تک، پانچ سال تک بلاتعطل چلتا رہی

◉ فلم کے مصنف سلیم خان-جاوید اختر کو سائننگ اماؤنٹ کے طور پر دس ہزار روپے ملے، جو کہ 1970 کی دہائی میں بہت بڑی رقم تھی

◉ کہا جاتا ہے کہ سنجیو کمار ‘گبر’ کا کردار اتنا بُری طرح سے ادا کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے ہدایت کار رمیش سپی کو راضی کرنے کے لیے اپنے دانت کالے کرنے اور بال منڈوانے کی پیشکش کی۔ اس نے آخر کار ٹھاکر کا کردار ادا کیا۔

◉ دھرمیندر فائنل اسکرپٹ سننے کے بعد ٹھاکر کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ٹھاکر اور گبر کہانی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہدایت کار رمیش سپی نے چالاکی سے دھرمیندر کو ویرو کا کردار ادا کرنے پر راضی کر لیا کہ اگر کرداروں کو تبدیل کیا جائے تو آخر میں سنجیو کمار ہیما مالنی کو مل جائیں گے۔ دھرمیندر اور ہیما کا رومانس ابھی شروع ہوا تھا، اور سنجیو پہلے ہی ہیما کو ایک بار پرپوز کر چکے تھے

◉ دلیپ کمار کو ابتدائی طور پر ٹھاکر بلدیو سنگھ کے کردار کی پیشکش کی گئی تھی، جسے بالآخر سنجیو کمار نے ادا کیا۔ سلیم خان نے نوٹ کیا کہ بعد میں دلیپ کمار کو اس کردار کو مسترد کرنے پر برا لگا

◉ رادھا (جیا بچن) کے چراغ بجھانے کا ایک منٹ کا منظر جب کہ جئے (امیتابھ بچن) نے غروب آفتاب کے وقت ہارمونیکا بجایا، جسے سنیماٹوگرافر دوارکا دیویچا کو شوٹ کرنے میں بیس دن لگے۔ کیونکہ رمیش اور دیویچا نے فیصلہ کیا کہ ان خوبصورت مناظر کے لیے جادوئی گھڑی کی سنہری رنگت، غروب آفتاب اور رات کے درمیان کے چند منٹوں کی ضرورت ہے

◉ شعلے کا مرکز – قتل عام کا سلسلہ جس میں گبر نے ٹھاکر کے خاندان کو ختم کر دیا – کو تئیس دنوں میں تین شیڈولز میں شوٹ کیا گیا

◉ فلم کے صرف نو مناظر میں گبر سنگھ کو دکھایا گیا ہے

◉ سلیم خان کے والد، ایک پولیس اہلکار، نے انہیں گبر نامی بدنام زمانہ ڈاکو کی کہانیاں سنائی تھیں، جو کتے پالتا تھا اور پولیس والوں کی ناک کاٹتا تھا، اس طرح گبر سنگھ کا نام پڑا

◉ ٹھاکر بلدیو سنگھ دراصل سلیم خان کے سسر کا نام ہے۔ ابتدائی طور پر ایک ریٹائرڈ فوجی تھا، بعد میں اس کا کردار پولیس والے کا کر دیا گیا

◉ بنگلور میں شوٹنگ کے دوران، ہریالی اور پتھروں کے درمیان، سیٹ پر کچھ ناراضگی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ فلم کو راجستھان جیسے لینڈ اسکیپ میں شوٹ کرنے کی ضرورت ہے

◉ گبر کے ٹھکانے کے مناظر بنگلور کے قریب راماناگرا میں فلمائے گئے، جس کے ایک حصے کا نام ہدایت کار رمیش سپی کے اعزاز میں سپی نگر رکھا گیا

◉ کلائمکس میں کچھ مناظر کے لیے اصلی گولیاں استعمال کی گئیں۔ امیتابھ بچن ایک ایسی ہی گولی لگنے سے تقریباً ہلاک ہو گئے تھے، کیونکہ دھرمیندر کی گولی ان سے انچ سے چوک گئی

◉ گبر سنگھ کو ایک جدید ڈاکو کے طور پر دکھایا گیا ہے جو فوجی لباس پہنتا ہے۔ اس سے پہلے، ڈاکو زیادہ تر چمبل کی گھاٹیوں میں دھوتی-کرتے میں ملبوس ہوتے تھے۔ جیسا کہ جاوید اختر نے کہا، ان کا تعلق ’میکسیکو اور اتر پردیش کے درمیان کسی جگہ‘ سے تھا

◉ گبر سنگھ کی خاکی وردی، ممبئی کے چور بازار سے خریدی گئی

◉ ٹینکی کا منظر، جہاں دلشکستہ ویرو پانی کے ٹینک کے اوپر چڑھتا ہے اور خودکشی سے مرنے کی دھمکی دیتا ہے، اس پر بحث کی گئی تھی لیکن ابھی تک نہیں لکھا گیا۔ جاوید اختر نے اسے بنگلور ایئرپورٹ جاتے ہوئے گاڑی میں لکھا۔ اس نے اس کے لیے اپنے اسسٹنٹ کو چیک ان کیا، جب کہ اس نے اس منظر کو کاغذ پر، اپنی کار کے ہڈ پر کوڑے دان میں ڈال دیا

◉ گبر کا ٹھاکر کے خاندان کے قتل عام کا منظر ونس اپون اے ٹائم ان دی ویسٹ سے اخذ کیا گیا ہے۔ سلیم جاوید نے ہالی ووڈ ویسٹرن کو بنیادی ماخذ کے طور پر رکھا لیکن کرداروں میں رنگ بھرنے کے لیے ہندی سنیما کے حوالوں کا بھی استعمال کیا۔ مثال کے طور پر، راج کھوسلہ کی 1971 کی فلم میرا گاوں میرا دیش، میں ایک مسلح آدمی تھا، جو ٹھاکر کے لیے تحریک بن جائے گا۔ بمل رائے کی مدھومتی میں ایک سین ہے جس میں ایک گھمنڈ کرنے والا نوکر اپنے مالک کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے، جیسا کہ شعلے میں سورما بھوپالی کے ساتھ ہوتا ہے

◉ سورما بھوپالی کا کردار، جو آنجہانی جگدیپ نے ادا کیا تھا، اسے اصل اسکرپٹ کا حصہ نہیں کہا گیا۔ اسے بعد میں شامل کیا گیا کیونکہ سلیم جاوید نے رش دیکھنے کے بعد محسوس کیا کہ فلم کو ایک اور مزاحیہ پنچ کی ضرورت ہے۔ جگدیپ پر ایک قوالی بھی شوٹ کی گئی تھی لیکن اسے نکال دیا گیا کیونکہ یہ فلم کے رن ٹائم کو بڑھا رہی تھی

◉ اس گانے کے بول تھے ’چاند سا کوئی چہرا‘ اس گانے کے گلوکاروں میں سے ایک گیت نگار آنند بخشی تھے، جبکہ دوسرے تھے منا ڈے، کشور کمار اور بھوپیندر۔ چونکہ گانا ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن اس کو فلمایا نہیں گیا، اس لیے بخشی کو مایوسی ہوئی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ گلوکار کے طور پر ان کا کیریئر بنا سکتا تھا

◉ اداکار سچن پیلگونکر کو ان کی اداکاری کے معاوضے کے طور پر ایک ریفریجریٹر ملا

◉ دھرمیندر رومانوی مناظر کرتے وقت لائٹ بوائز کو گڑبڑ کرنے کے لیے پیسے دیتے تھے تاکہ وہ بار بار ہیما مالنی کو گلے لگا سکیں

◉ سلیم جاوید نے فلم کا نام ’انگارے‘ سوچا تھا، لیکن بعد میں ’شعلے‘ کا فیصلہ کیا۔ وہ عنوان سلیم خان کا خیال تھا

◉ آشا بھوسلے کو ایک اضافی بوڑھی خانہ بدوش خاتون کی آواز میں ’محبوبہ‘ گانے کے لیے راضی کرنے میں ناکام ہونے کے بعد، پنچم نے اسے خود گانے کا فیصلہ کیا

◉ یہ فلم ایک کروڑ کے منصوبہ بند بجٹ سے بنائی جانی تھی لیکن بالآخر تین کروڑ کے بل کے ساتھ تیار ہوئی

◉ فلم 100 سے زیادہ سنیما گھروں میں 25 ہفتوں تک چلی

◉ شعلے، جو سامعین کے لیے ایک بلاک بسٹر ثابت ہوئی، کو بہترین ایڈیٹنگ کے لیے صرف ایک فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close