’گیت خاموش ہو گئے اور موسیقی کا محل خالی ہو گیا‘ لتا منگیشکر اب اس دنیا میں نہیں رہیں

ویب ڈیسک

ممبئی – عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر آج اتوار کے روز بانوے سال کی عمر میں انتقال کر گئیں

لتا منگیشکر کو جنوری 2022 کے اوائل میں کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد ممبئی کے بریچ کینڈی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ وہ کئی ہفتے تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہیں اور وہیں انہوں نے اتوار کی صبح 92 سال کی عمر میں آخری سانس لی

بریچ کینڈی اسپتال میں لتا منگیشکر کا علاج کر رہے ڈاکٹر پرتیت سمدانی نے کہا، ’’لتا منگیشکر کا صبح 8.12 بجے انتقال ہو گیا۔ کورونا سے متاثرہ ہونے پر مسلسل 28 دنوں تک داخل اسپتال رہنے کے بعد وہ متعدد اعضا کے ناکام ہونے کے سبب فوت ہوئیں۔‘‘

لتا منگیشکر نے 5 سال کی عمر میں کام شروع کیا اور وہ اس عمر میں گھر کی ذمہ داری سنبھالتی تھیں جب بچے کھیلتے اور پڑھتے ہیں۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں کے بہتر مستقبل کے لیے کبھی شادی نہیں کی

لتا کے کے انتقال پر بھارت میں قومی تعزیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ دو دن قومی پرچم سرنگوں رہےگا۔ ان کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ آج شام شیواجی پارک میں ادا کی گئیں

لتا کے بارے میں یتیندر مشرا کی کتاب ’لتا سُر گاتھا‘

لتا منگیشکر نے گائیکی کی بلندیوں کو چھو لیا تھا، تاہم اس مقام پر پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت جدوجہد کی تھی۔ اس کا ذکر لتا نے خود کیا ہے کہ انہوں نے اپنے جدوجہد کے دوران کس طرح گزارا کیا۔ کام کی انہیں ایسی لگن تھی کہ اکثر کھانے پینے کا بھی خیال نہیں رہتا تھا۔ وہ صرف چائے پی کر اور بسکٹ کھاکر ہی اپنا پورا دن گزار لیتی تھیں۔ ان کے جدوجہد کے دنوں کا ذکر یتیندر مشرا کی کتاب ’لتا سُر گاتھا‘ میں ملتا ہے۔ اس کتاب کو قومی اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے

کتاب میں لتا منگیشکر کے حوالہ سے لکھا گیا ہے ’’میں ریکارڈنگ کرتے ہوئے اکثر تھک جاتی تھی اور مجھے بہت بھوک بھی لگ جاتی تھی۔ اس وقت ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں کینٹین ہوتی تھی لیکن مجھے کھانے کے لیے کچھ بہتر ملتا ہو، مجھے یاد نہیں۔ صرف چائے اور بسکٹ وغیرہ دستیاب ہوتے تھے اور پورا دن ایک دو کپ چائے یا دو چار بسکٹوں پر ہی گزر جاتا تھا۔ کئی بار تو دن صرف پانی پی کر گزر جاتا تھا اور خیال نہیں آتا تھا کہ کینٹین جا کر چائے بھی پی لینی چاہئے۔ ہمیشہ میرے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی تھی کہ کس طرح اپنے خاندان کی پرورش کروں۔‘‘

لتا منگیشکر نے کہا، ’’پھر چاہے وہ ریکارڈنگ کا وقت ہو یا گھر کا فارغ وقت۔ میں صرف یہی سوچتی رہتی کہ اپنے خاندان کے لیے کس طرح زیادہ سے زیادہ کما سکتی ہوں اور ان کی ضروریات پوری کر سکتی ہوں۔ سارا وقت اسی میں گزر گیا۔ مجھے ریکارڈنگ یا اس کی پریشانیوں کی اتنی پرواہ نہیں تھی۔ آنے والے کل میں جتنے گانے ریکارڈ کرنے ہیں، فلاں فلم کے ختم ہونے کے ساتھ مجھے نئے کنٹریکٹ کی دوسری فلم کے گانے کب ریکارڈ کرنے ہیں، میں بس یہی سب سوچتی رہتی تھی۔‘‘

لتا کے فنی سفر کی ابتدا

لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929 کو وسطی ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار تھے۔ وہ اپنے والد کے پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ بعد میں لتا کے چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی ان کی پیروی کی اور موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا

لتا منگیشکر کا فلمی میوزک کریئر نصف صدی سے زیادہ پر محیط تھا جس میں انھوں نے چھتیس ہندوستانی زبانوں میں لگ بھگ تیس ہزار سے زیادہ گانے گائے

یہ 1940ع کی دہائی کی بات ہے۔ تب فلموں میں گانے کی اتنی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ لتا منگیشکر نے خاندان کو چلانے کے لیے اداکاری شروع کر دی۔

یہ قصہ 1943-44 کا ہے، ریاست مہاراشٹر کے شہر کولہا پور میں ایک فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی اس زمانے کی مشہور گلوکارہ نور جہاں اپنے گانوں کی ریکارڈنگ کے لیے وہاں آئی تھیں، اسی فلم میں ایک چھوٹی بچی بھی ایک کردار نبھا رہی تھی

فلم کے ہدایت کار نے اس بچی کا تعارف نورجہاں سے کرواتے ہوئے کہا ”یہ لتا ہے اور یہ بھی گاتی ہے۔“ نور جہاں تپاک سے بولیں اچھا، کچھ گا کر سناؤ، لتا نے شاستریہ سنگیت سے سجا ایک گانا سنایا، اس وقت نور جہاں سنتی گئیں اور لتا گاتی رہیں. بچی کے گانے سے خوش ہو کر نور جہاں بولیں ’بہت اچھا گایا ریاض کرتی رہو بہت آگے جاؤگی‘۔

روزی روٹی کے لیے فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار کرنے والی یہ بچی آگے چل کر سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر بنیں

لتا کی شخصیت کے مختلف پہلو

گائیکی کے علاوہ لتا کی شخصیت کے کئی پہلو تھے جن کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ لتا منگیشکر کے آنند دھن نام کے موسیقار کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ آنند دھن نے ساٹھ کی دہائی میں چار مراٹھی فلموں کا میوزک دیا تھا، یہ کوئی اور نہیں بلکہ خود لتا منگیشکر تھیں، جنہوں نے نام تبدیل کر کے میوزک دیا تھا

1950 کی دہائی میں انہوں نے اپنے نام سے بھی ایک مراٹھی فلم کا میوزک دیا تھا

مراٹھی فلم سادھی مانس کو بہترین میوزک کا اعزاز دیا گیا تھا۔ اس تقریب میں لتا خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھی رہیں تب کسی نے کہا کہ سنگیت دھن کوئی اور نہیں لتا منگیشکر ہیں

یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ رشی کیش مکھرجی نے لتا منگیشکر کو فلم آنند کا میوزک دینے کی دعوت دی تھی لیکن لتا نے انکار کر دیا تھا

جب لتا کو زہر دیا گیا

مصنف نسرین منی کبیر نے لتا منگیشکر سے انٹرویو کے بعد ایک کتاب لکھی تھی

اسی کتاب میں ایک گانے کی ریکارڈنگ کا ذکر کرتے ہوئے لتا منگیشکر نے بتایا تھا کہ سنہ 1962 میں وہ ایک مہینے کے لیے بیمار ہو گئی تھیں۔ ’میرے پیٹ کا ایکسرے کیا گیا اس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ مجھے ہلکا زہر دیا گیا ہے۔ ہمارے گھر پر ایک ہی نوکر تھا جو کھانا بناتا تھا اس دن وہ نوکر ہمیں بتائے بغیر ہی کہیں چلا گیا اپنی تنخواہ تک نہیں لی’

‘تب ہمیں محسوس ہوا کہ کسی نے اسے ہمارے گھر پر رکھا تھا، ہمیں نہیں معلوم وہ کون تھا، تین ماہ تک میں بستر پر رہی تب مجروح سلطان صاحب نے میری مدد کی وہ روز شام کو گھر آتے اور میں جو کھانا کھاتی تھی وہ بھی وہی کھاتے تھے یہ سلسلہ تین مہینے تک جاری رہا’۔

موسیقی کی دنیا میں لتا منگیشکر کے اس سفر کا انجام بھلے ہی کامیابیوں کی بلندیوں کو چھونے پر ہوا ہو لیکن اس کا آغاز جدو جہد اور تکالیف سے ہوا تھا۔

لتا کا سفر اداکاری سے شروع ہوا

بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعد لتا کو فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا پڑ رہا تھا۔ لیکن انھیں میک اپ، ایکٹنگ یہ سب کچھ پسند نہیں تھا، انہیں تو بس گلوکارہ بننا تھا

اسی دوران ان کی زندگی میں موسیقار استاد غلام حیدر آئے۔ انہوں نے لتا کی آواز سنی تو انہیں لے کر ہدایت کاروں کے پاس گئے

اس وقت لتا کی عمر بمشکل اُنیس سال ہوگی، ان کی آواز ناپسند کر دی گئی لیکن غلام حیدر اپنی بات پر اڑے رہے اور فلم مجبور میں منور سلطانہ کے لیے لتا سے پلے بیک کروایا۔

لتا بتاتی ہیں کہ غلام حیدر نے ان سے کہا تھا کہ ایک دن تم بہت بڑی فنکارہ بنو گی اور جو لوگ تمھیں مسترد کر رہے ہیں وہی تمہارے پیچھے بھاگیں گے

یہ عجیب اتفاق ہے کہ غلام حیدر اور نور جہاں دونوں تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے گئے لیکن لتا کے لیے ان کی بات سچ ثابت ہوئی

کشور سے عجیب ملاقات

فلم ’مجبور‘ میں لتا منگیشکر کا گانا سننے کے بعد انھیں کمال امروہی کی فلم ‘محل’ ملی اور انھوں نے ‘آئے گا آنے والا’ گایا۔ اس کے بعد لتا کو کبھی فلموں کی کمی نہیں ہوئی

ابتدائی دنوں کا ایک مزے دار قصہ لتا نے کچھ سال پہلے بی بی سی ہندی کو یوں سنایا

‘چالیس کی دہائی میں جب میں نے فلموں میں گانا شروع ہی کیا تھا، تب میں اپنے گھر سے لوکل ٹرین سے ملاڈ جایا کرتی تھی اور وہاں سے اتر کر سٹوڈیو پیدل جایا کرتی تھی، راستے میں کشور کمار بھی ملتے تھے لیکن میں اُنھیں اور وہ مجھے پہچانتے نہیں تھے۔

کشور کمار میری جانب دیکھتے تھے تو کبھی ہنستے اور کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چِھڑی گھماتے۔ مجھے ان کی حرکتیں عجیب لگا کرتی تھیں۔ میں اس وقت کھیم چند پرکاش کی فلم کا گانا گا رہی تھی۔

ایک دن وہ بھی میرے پیچھے پیچھے سٹوڈیو پہنچ گئے۔ میں نے کھیم چند جی سے شکایت کر دی کہ یہ لڑکا میرا پیچھا کرتا رہتا ہے اور مجھے دیکھ کر ہنستا ہے، تب انھوں نے کہا کہ ارے یہ تو اپنے اشوک کمار کا چھوٹا بھائی کشور کمار ہے۔

پھر انہوں نے میری اور کشور کمار کی ملاقات کروائی اور ہم نے پہلی بار اس فلم میں ساتھ گانا گایا’

جب لتا محمد رفیع کے خلاف کھڑی ہو گئیں

بعد کے دنوں میں لتا نے تمام بڑے موسیقاروں اور کشور، رفیع، مکیش اور ہیمنت کمار جیسے گلوکاروں کے ساتھ گانے گائے۔ بہت کم عمر میں ہی لتا نے انڈسٹری میں اپنا ایک مقام حاصل کر لیا تھا

لتا نے بڑے بڑے موضوعات پر اسٹینڈ لینے سے گریز نہیں کیا، چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی بڑی شخصیات سے کیوں نہ ٹکرانا پڑا

مثال کے طو رپر رائلٹی کے حوالے سے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے گلوکار محمد رفیع، راج کپور اور ایچ ایم وی کمپنی تک سے ٹکرا گئی تھیں۔ دراصل ساٹھ کی دہائی میں لتا نے اپنی فلموں میں گانے گانے کے لیے رائلٹی لینا شروع کر دیا تھا لیکن وہ چاہتی تھیں کہ تمام گلوکاروں کو رائلٹی دی جانی چاہیے

لتا نے طلعت محمود اور مکیش کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی اور ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی اور پروڈیوسروں سے مطالبہ کیا کہ گلوکاروں کو گانے کے لیے رائلٹی ملنی چاہیے۔ لیکن ان کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا ایسے میں انھوں نے ایچ ایم وی کے لیے ریکارڈنگ ہی کرنا بند کر دیا

محمد رفیع رائلٹی کے خلاف تھے بات سلجھانے کے لیے ملے تو بات اور بگڑ گئی

لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ‘رفیع صاحب غصہ ہو گئے اور میری جانب دیکھتے ہوئے بولے کہ مجھے کیا سمجھا رہے ہو، یہ جو مہا رانی بیٹھی ہیں ان ہی سے بات کرو تو میں نے بھی غصے میں کہہ دیا کہ آپ نے صیحح سمجھا میں مہارانی ہی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھارے ساتھ گانے ہی نہیں گاؤں گا۔ میں نے پلٹ کر جواب دیا کہ آپ یہ تکلیف نہ کریں میں ہی آپ کے ساتھ نہیں گاؤں گی۔ تقریباً تین سال تک یہ جھگڑا چلتا رہا’

اس مسئلے پر لتا راج کپور سے بھی بِھڑ گئیں اور ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا

ستر کی دہائی میں راج کپور اپنی پسندیدہ گلوکارہ کے پاس واپس پہنچے اور بابی کے گانے ان سے ریکارڈ کروائے

فلم فیئر سے ٹکرائیں
وہ کس طرح کے گانے گانا چاہتی ہیں لتا نے اپنی مرضی سے گانوں کا انتخاب کیا۔ اس دور میں ایک خاتون گلوکارہ کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی

لتا نے اپنے کریئر میں بہت سے ایوارڈ حاصل کیے اور دلچسپ بات ہے کہ سنہ 1985 تک فلم فیئر میں بہترین گلوکاری کے لیے کوئی ایوارڈ ہی نہیں تھا۔

سنہ 1957 میں شنکر جے کشن کو ایوارڈ ملنے والا تھا تو وہ لتا کے پاس آئے کہ وہ تقریب میں گانا گائیں

اس کے بعد کیا ہوا اس بارے میں لتا نے نسرین منی کبیر کی لکھی کتاب میں بتایا کہ ‘میں نے جے کشن سے کہا کہ میں فلم فیئر میں نہیں گاؤں گی۔ ایوارڈ آپ کو مل رہا ہے مجھے نہیں۔ میں فلم فیئر کے لیے اس وقت تک نہیں گاؤں گی جب تک گلوکاروں کے لیے ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا جاتا

سنہ 1959 میں پہلی بار بہترین گلوکار یا گلوکارہ کا ایوارڈ شروع کیا گیا۔ سنہ 1967 تک مرد اور خواتین گلوکاروں کو ایک ہی زمرے میں رکھا گیا تھا

لتا کی خوبیاں

لتا منگیشکر کے گانوں کی خوبیوں پر بات کرنا مشکل ہے۔ وہ نغموں کے جذبات اور نزاکت کو اپنی آواز میں پرونے میں ماہر تھیں

مثال کے طور پر فلم ‘بندنی’ کا گانا ‘میرا گورا رنگ لئی لو مجھے شام رنگ دئی دو’

یا پھر رضیہ سلطانہ کا گانا ‘اے دلِ ناداں’ سنتے ہیں تو لتا کی آواز اور درمیان کی وہ خاموشی دل کے آر پار ہو جاتی ہے

فلم انوپما کا یہ گانا ‘کچھ دل نے کہا کچھ بھی نہیں ‘زندگی کے اکیلے پن سے لڑتی ایک لڑکی کی آواز کو لتا نے دل کو چھو لینے والی گہرائی والی آواز میں گایا

دوسری جانب فلم ‘انامیکا’ کا گانا ‘باہوں میں چلے آ ہم سے صنم کیا پردہ’ اپنے محبوب کو آغوش میں لیتی محبوبہ کے جذبات کا احساس دلاتا ہے

ساٹھ اور ستر کی عمر میں لتا نے مادھوری، کاجول اور پریتی زنٹا جیسی جوان ہیروئنز کے لیے گانے گائے

گیت کے بولوں کا انتخاب

یہ قصہ تو مشہور ہے کہ لتا کی آواز میں ‘اے میرے وطن کے لوگو’ سن کر جواہر لال نہرو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ گانے کے بعد ہدایتکار محبوب خان آئے اور لتا کو نہرو کے پاس لے گئے تب نہرو نے کہا تھا کہ تم نے تو مجھے رلا ہی دیا۔

اس کے بالکل برعکس تھا فلم ‘انتقام’ کا گانا ’آ جانے جاں ، میرا یہ حسن جواں’ جو ہیلن پر فلمایا گیا تھا

ویسے اس طرح کے گانوں سے لتا نے زیادہ تر پرہیز ہی کیا، شاید ان کی آواز میں اس طرح کا کیبرے گانا ان کے چند ہی گانوں میں سے ایک ہوگا

دوسری جانب ان کی بہن آشا بھوسلے نے غزل سے لے کر کیبرے، شاستریہ سنگیت سب طرح کے گانے گائے۔ کئی لوگ آشا کو لتا سے زیادہ ورسٹائل مانتے تھے اور یہ بحث آج بھی جاری ہے

لتا کے بارے میں مختلف رائے

مشہور مصور ایم ایف حسین کی اس بارے میں اپنی رائے تھی۔ کئی فلمیں بنانے والے مصور ایم ایف حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا لتا مشہور گلوکارہ ہیں لیکن عظیم نہیں

اس بارے میں کافی تنازع رہا ہے کہ لتا کا دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ دوسری کئی گلوکاراؤں کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں ملا لیکن لتا ہمیشہ اس سے انکار کرتی رہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ لتا کے دیوانے صرف انڈیا میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار دوسرے ممالک میں بھی ہیں

لتا کی نجی زندگی

نصرین منی کی کتاب ‘لتا منگیشکر اِن ہر وائس’ میں ان کی شادی کے بارے میں بھی سوال کیے گئے

اس سلسلے میں لتا کا کہنا تھا کہ ‘میرے والد نے میری جنم پتری پڑھی تھی اور کہا تھا کہ میں تصور سے بھی زیادہ مشہور ہو جاؤں گی، پورے کنبے کا خیال رکھوں گی اور شادی نہیں کروں گی۔ یہی زندگی ہے۔ زندگی، موت اور شادی پر کسی کا کوئی زور نہیں ہوتا۔ اگر میں نے شادی کی ہوتی تو میری زندگی کچھ اور ہوتی۔ میں کبھی تنہائی محسوس نہیں کرتی، میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہی ہوں’

لتا کا بچپن

اگر دیکھا جائِے تو منگیشکر خاندان کا تعلق ہمیشہ سے ہی موسیقی سے رہا ہے۔ ان کے والد دینا ناتھ منگیشکر خود بھی گاتے تھے اور ڈرامہ کمپنی چلاتے تھے اور ساتھ ہی موسیقی کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے

ایک انٹرویو میں لتا نے بتایا تھا کہ ‘ایک مرتبہ میرے والد اپنے ایک شاگرد کو موسیقی سکھا رہے تھے، انھیں کہیں جانا پڑ گیا تو انھوں نے کہا کہ تم ریاض کرو میں ابھی واپس آتا ہوں۔ میں بالکنی میں بیٹھی ان کے شاگرد کو سن رہی تھی

میں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ تم یہ بندش غلط لگا رہے ہو پھر میں نے اسے گا کر سنایا، اتنی دیر میں میرے والد آ گئے اور میں وہاں سے بھاگ گئی۔ اس وقت میں چار سے پانچ سال کی تھی اور میرے والد کو نہیں معلوم تھا کہ میں گاتی ہوں’۔

‘شام کو بابو جی نے میری ماں سے کہا کہ ہمارے گھر میں گلوکارہ ہے اور ہم باہر والوں کو سکھا رہے ہیں۔ اگلے ہی دن بابو جی نے مجھے صبح چھ بجے اٹھا کر تان پورہ میرے ہاتھ میں تھما دیا’۔

نو سال کی عمر میں انھوں نے پہلی مرتبہ اپنے والد کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کیا۔

فلمی سفر

حالاں کہ ان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ فلموں میں گانا گائیں لیکن سنہ 1942 میں اپنے ایک دوست کی گزارش پر وہ تیار ہو گئے اور لتا نے ایک مراٹھی فلم کے لیے گانا گایا۔

گانا ریکارڈ ہونے کے بعد لتا کے والد وفات پا گئے اور پورے گھر کی ذمہ داری لتا پر آ گئی۔ ایسے میں اداکارہ نندہ کے والد اور ہدایت کار ماسٹر ونائیک نے انھیں سہارا دیا۔ انھوں نے لتا کو فلموں میں کام دینے کے ساتھ ساتھ استاد امان علی کی شاگردی میں دیا، جن سے انھوں نے گانا سیکھا اور انھیں مراٹھی فلم میں گانے کا موقع ملا اور یہیں سے ان کا سفر شروع ہوا

موسیقی کے بارے میں ان کی لگن کی سب داد دیتے ہیں۔

جہاں تک فلموں کے حوالے سے ان کی خدمات کا تعلق ہے تو لتا منگیشکر کے ہی الفاظ یاد آتے ہیں۔ سنہ 2013 میں انڈین فلم انڈسٹری کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر لتا نے کہا تھا اگر فلمی صنعت کے سو سال ہیں تو ان میں سے 71 سال میرے بھی ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close