سرکاری ہسپتال کھپرو کے مردہ خانے کے سامنے لوگوں کا جمگھٹا، دھول مٹی میں لت پت بال، چوٹی اور مانگ بھی، دھول اور ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اندر خاکروب، ڈاکٹر، مکھیوں کی بھن بھن۔ سندھ جنی، کسی کی لاج سب کا ناموس، کئی اجنبیوں کے سامنے اس کی لاش ننگی پڑی تھی۔ ٹیڑھے ہاتھ، زخمی پاؤں، حیران آنکھیں، حسرت و ہیبت سے پھٹی آنکھیں، نیک سیرت، رحمدل، سلیقہ شعار، کؤنرو یا سوہنی۔ پیار کی راہ میں ایک اور قربانی۔۔ کٹنا قبول کیا، مانگ کا وعدہ نہ ٹالا۔ ہنستے ہنستے مانگ پر ہاتھ رکھ کر انجام دیا، قہقہ کلہاڑی کی گرج میں بدل گیا، انگلیاں کٹ چکیں، مانگ اجڑ گئی۔
وہیں ان کا بھائی بھی کھڑا تھا۔ ماں کے خون سے پیدا ہوا، اس کے دودھ پہ پلا بڑھا، جس کے لیے بچپن سے ہی کہتی ’اللہ دے گا بھیا کو۔۔۔‘ گاتی تھی۔ پھر اسی بھائی نے غیرت میں آ کر بہن کو قتل کر دیا، ہتھکڑیاں پہن کر بھی سر اونچا کیے کھڑا تھا، جیسے قلعہ فتح کیا ہو۔
ماں تھی، جس کی رازدار آج کلہاڑی سے، زخموں سے چھلنی ہو چکی تھی، جس نے بیٹی کی کچی پھیکی چھپائی تھیں، جس نے بار بار انہیں سمجھایا اور سمجھا تھا۔ ان کا بھدے پاؤں والا شوہر، جو پنجوں پر چلتے لڑکھڑا رہا تھا، ادھر ادھر دیکھتا چل پھر رہا تھا، بولتا تھا تو رال ٹپکنے لگتی، بار بار مردہ خانے کو گھورتا۔ چیختا رہا ، ”اللہ میری سوہنی پانچ ہزار کی تھی۔“ بیلوں کا جوڑا، دو جریب زمین اور عورت کی جان، وہ جان جس میں ناچتی، کودتی، تیرہ برس کی دوشیزہ، پیدائش سے موت تک گھٹتی رہی۔ کھیل کود، سہرے گاتی، سب کچھ اسی جال میں، سانس گھٹ گھٹ کر، نچوڑ سی گئی، آخر کار گم ہو گئی۔ ’اللہ دے گا بھین کو!۔۔۔‘ اور اللہ نے بھائی کو بیلوں کا جوڑا اور دو جریب زمین دے دی۔ بہن کی جان شوہر کا حق بن گئی، زرخرید حق۔
شادی کے جوڑے، ہاتھوں پہ مہندی، چاندی کی چوڑیاں، بار بار ماں کو لپٹ جاتی، بچپنا۔ شادی کو ایسے سمجھ رہی تھی جیسے گڑیا گڈے کا کھیل۔ جب رات کو ساتھ سوئی تو آدھی رات کے بعد لوگوں نے ان کی چیخیں سنیں، تھپیڑوں کی آوازیں۔ تھکی تھکی سی، زرد، زندگی ایسی جیسی موسم گرما میں بند ہوا۔ ہر صبح میں شام ایسی گھٹن تھی اور ہر شام صبح ایسی، تکالیف۔ رہٹ کی لوٹی کی طرح۔ گلے میں رسی بندھی ہوئی۔ کنویں میں ڈبکیاں اور رات بھر آواز رہٹ۔ دو ہزار کی کنیز۔ کھانا پکانا، جھاڑو پوچی، پانی بھرنا، گھڑے رکھنا، کپڑے دھونا، گھاس کاٹ کر لانا، کھیتی باڑی اور روزانہ زبردستی۔ اس کا عورت زاد حسن نہ پیدا ہوا اور نہ ہی مرا، نہ ابھرا اور نہ ہی ڈھلا۔
دو سال بعد جب وہ والدہ سے ملنے آئی تو دل پھٹ پڑا، بین کرتے ہوئے رو پڑی، بھائی کہہ کر اس سے لپٹ گئی، بھائی اور شوہر کے فرق کا شدت سے احساس ہونے لگا، بچوں کی ٹولیاں دیکھ کر اور زیادہ آنسو بہانے لگی۔
آبائی گھر نے اس کی روح کو راحت اور جسم کو تراوت بخشی، جس گھر کے چھپر چھاؤں، گھاسیلی دیواروں سے اس کا بچپن لپٹا پڑا تھا، ان سے خود بھی لپٹ پڑی۔ ایسی سوچیں آنے لگیں کہ اب گانے لگے ’نیم کی نمولی پکی، اللہ دے گا ابو کو، سونا ڈالے گا بیٹیوں کو، چاند دیکھا دودھ میٹھا۔۔۔‘ دل کے کسی کونے سے انگڑائی لی، ہلکی بجلی کی طرح ٹیڑھی میڑھی لکیر نمودار ہوئی اور گم ہو گئی۔ کالی گھنگھور گھٹائیں، ہلکی پھلکی ہوا، ان کے ململ کی چولی کو اس کے سینے سے سرکاتی رہی۔ عجیب انوکھی کیفیت، چولی میں سے گذر کر سینے میں سمائی جا رہی تھی۔ برکھا برسی، وہ کھڑی رہی۔ بچوں کی ٹولیاں گانے لگیں، اکھری میں ککڑا، مہینہ آیا تکڑا۔ (یہ ایک کہاوت ہے گیہوں میں سے مٹی صاف کرنے یا چاول صاف کرنے کا ایک مخصوص برتن، بارش جلد آئی) چولی بدن سے چمٹ گئی، اس نے محسوس کیا کہ وہ خود ایک دانہ ہے اور بارش نے اسے گھیر لیا ہے۔ اس کے گستاخ گیلے پن نے اسے آنے والی بارش کی بشارت دی۔
میہار جب صاف ستھرا لباس پہن کر، بال سنوار کر، آنکھوں میں سرمہ ڈال کر جب اس کے سامنے سے گزرتا تو آنکھیں نیچے کر لیا کرتی اور دوپٹے سے سر ڈھانپ لیا کرتی، بس میہار کے لیے یہی سندیسہ کافی تھا۔ اس کے من کی کلی بھی کھل جایا کرتی تھی۔ ایک مرد صرف اس کے لیے سنگھار کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں افق کی طرف مرکوز ہو جاتی تھیں۔ اپنی آگ میں خاک ہونے لگی، جیسے روکتی ویسے الاؤ بن جاتی۔ پھر ایک پوٹلی ملی، سرخی، پالش، کاجل اور مصری کی ڈلی۔ چٹکی بھر خاک، ملتانی مٹی کا ٹکڑا، تو پاؤں جیسے انگارے پر پڑ گئے، بیٹھنا زہر بن گیا۔ ماں کو بتایا۔ عورت کو عورت سے راز فاش کرنا، خالق و مخلوق کا راز فاش ہونا اور سمجھنا۔ ماں نے دو چار چاٹے مار دیئے، طعنے دیئے اور آخرکار اس کی رازدان بن گئی۔ ماں بیٹی کا میل، کیا نہیں جانتی کیا نہیں سمجھتی۔ زندگی کی خشک سالی میں سوکھے پتے جھاڑے گھڑی پل کے لیے سرور کا جھونکا آ گیا اور وہ بھی کلہاڑی کے سائے میں، گھڑی پل کی معراج کے لیے سر کٹانا، قہقہے اور گھمسان، جیسے جو کچھ دیکھتی تھیں، اس سے زیادہ لے رہی تھیں۔
میہار سے ملنے گئی تو ساری بہاریں جھولی میں لیے، زمین ڈولی بن چکی تھی، من کے پھول کھل اٹھے، سانسوں میں خوشبو جان بوجھ کر پرائی ہوچکی تھی۔ اس کی پوری کائنات پرائی ہوچکی تھی۔ اس کے پاس پہنچی تو پانی پانی ہوگئی۔ ہاتھ بڑھایا تو دور ہوگئی۔ واسطے دیئے، جھولی سامنے کی، لیکن چھونے بھی نہ دیا۔۔
واپس آکر ماں کی منت سماجت کرنے لگی، جان خلاصی کروائیں۔ ماں کو زاری کی، دنیا کو پکارا، اچھے بھلوں کے دروازے کھٹکھٹائے، جس نے اس کے جسم کو نچوڑا تھا، اس سے بدن کیسے ملائے، مٹھو کو چھوڑ کر بچھو سے کیسے ڈسوائے، زخم تھے تو جہیز کے، نکاح پھندے سے، نکاح ٹوٹے یا گردن۔۔
جہاں پر زمین و زن پر سر کٹائے جاتے ہیں، وہیں لڑکیوں کا بیوپار بھی ہوتا ہے، بے دام کا دام ہو جاتا ہے۔ جہاں لڑکیاں نیلام ہوتی ہیں، سات قرآن، کوڑیوں کے دام، وہاں طلاق کون دے گا۔ بھدے پاؤں والا کہے گا کاٹ دیں، نکاح نہیں چھوڑوں گا، بھل عمر کھا جاؤں۔ زمین و زن کسی نے چھوڑی ہے، دو دو ہاتھ اڑ رہا تھا۔ غیرت کی آڑ میں بے غیرت نظر، لاج پر نہیں لیکن لاج کی دام پر۔ ڈانٹ ڈپٹ، ظلم و ستم، قرآنی فرمان، دوسری طرف کچا دھاگا۔
بچی نراس، جاڑے کی جلائی ہوئی باڑہ، جس کی جڑوں میں پہلی بار رس بھری تھی۔ پختہ، اپنے حق پر قائم، ساتھی ہونے کا حق، پھول کھلانے کا حق۔ نازک دھاگے میں بندھے حق کو اتنی طاقتور کھینچ، لیکن دو ہزار روپوں کی وجہ سے وہ ایجاب اور قبول کا دھاگا اتنا مضبوط ہو چکا تھا۔
عورت ذات کچا دھاگا، لیکن جب اس کے نازک بدن کے تنتوں میں، عورت زاد کا آفاقی حق مانگنے کی برقی رو دوڑ گئی تو وہ بجلی بن گئی۔ چمک، چنگاریاں اور انگارے، جنہوں نے ان کے شوہر کی مردانگی کو لرزا دیا۔ وہ طلاق دینے کو تیار ہو گیا۔ اس کے لیے تو فقط دو الفاظ بولنے کی دیر تھی، لیکن جس کا عورت زاد کا حق چھینا جا رہا تھا، جس نے جان کی بازی لگائی تھی، جو ویسا ہی انسان تھی، جیسا اس کا شوہر، جو خود مظلوم تھی، وہ مانگنے والی کی طرح خیرات کی محتاج تھی۔ ان کے الفاظ اور ارادے بے وزن تھے۔ کیا توازن تھا؟ نکاح دو انسانوں کے بیچ میں ایک جیسی قبولیت تھی، ایک ایسے نحیف برتن کی مانند توڑ سکتا تھا اور دوسرے کے گلے میں اس کی مضبوط گرفت نقصان کس کا ہو رہا تھا۔ زمانے میں کس کی دام گر رہی تھی، جس کا جسمانی باغ لٹ رہا تھا، اس کے باوجود معاوضے کا مطالبہ بھی شوہر نے کیا اور پوری دنیا نے اس کے حق کی تائید کی۔ وہ حق اتنا مضبوط تھا جو اس کا بھائی اور ماں زنجیر بن گئے۔ باغ کا، گلستان کا، پھلدار درخت، عمر بھر کا ٹھیکا صرف دو ہزر روپیہ۔
بہن نے اپنے بھائی سے اداس آنکھوں سے صدقہ کا تقاضا کیا، آنکھوں سے برکھا برسنے لگی، لیکن دھارائیں زنجیر کو توڑ نہ سکیں۔ بھائی نے بھی فیصلہ دے دیا کہ کمینی کو چوٹی سے پکڑ کر شوہر کے حوالے کیا جائے۔ جسے دو ہزار عزیز لگے وہ لائق عزت ٹھہرا اور جس کے جسمانی جذبات کا نیلام ہوا، وہ قصوروار، کمذات۔۔
وہ آخری رات تھی، انت، ناامیدی نے اسے حواس باختہ کر دیا تھا۔ جب میہار نے اسے اشارہ کیا تو انہوں نے چار انگلیاں اْٹھا کر مانگ پر رکھ دیں۔ ان کا روح و جسم ایک قالب بن گیا۔ جسے نزدیک آنے نہیں دیا تھا ان سے الوداع کرنے کا انجام باندھ لیا۔ جسم و روح کی ارتھی اٹھا کر پیار کی قربان گاہ کی طرف بڑھنے لگی تو بھائی نے دیکھ لیا۔ کلہاڑی اٹھا کر آنے لگا تو بیچاری سے جینے کی تمنا ابکائی کی طرح نکل گئی۔ دوپٹہ ڈال کر بھائی کے پاؤں میں لپٹ گئی۔ ”میرے بھائی! مجھے نہ مار!“ والدہ دوڑ کر قرآن شریف اٹھا لائی۔ ”بیٹا اس کا واسطہ!“ شوہر چیخ پڑا۔ ”جیسی ہے ویسی ہے میری ہے، مجھے کالی بھی قبول ہے۔ خبردار میری امانت کو مت مارو۔“
”خاموش کمینے! کالی ہے۔“
”بھاگ! ارے معتبر تم نے کتنی کالی کی ہیں؟“
اتنے میں والدہ نے بھی قرآن شریف لا کر سامنے دکھایا، والدہ کو دھکا دے کر دور ہٹا دیا گیا، بہن کے شانوں پر پاؤں رکھ کر، اس کا سر کھینچ کر دور کر لیا۔ کلہاڑی اٹھ کر نیچے ہوئی۔ خوف سے اس نے ہاتھ سر پر رکھا، پہلے چار انگلیاں پھر گردن کٹ گئی۔ والدہ اور قرآن لہو لہان۔ بھائی اور والدہ نے مل کر اس کا ازاربند کھولا۔ شلوار اتار دی۔ بھائی نے نعرہ لگایا۔
ہسپتال کا مردہ خانہ، کٹی ہوئی چوٹی، چاقو کے زخم، خاک روب، ڈاکٹر، مکھیوں کی بھن بھن، ننگا سینہ، بہن، بیٹی، سات قرآن۔