ایک تصویر، ایک کہانی-11

تحریر: گل حسن  کلمتی

میں ایک گمنام  باغی کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہا ہوں.. یہ ایک باغی قادو مکرانی کی قبر کی تصویر ہے.

یہ سن 1975ع کی بات ہے، میں ایس۔ایم سائنس کالج میں سال اوّل کا  طالب علم تھا،  لیاری کے جاکی محلہ میں  اپنے بڑے ماموں ﷲ بخش اور چھوٹے ماموں علی محمد کے ہاں رہتا تھا. بڑے ماموں نے ایک دوکان سے مجھے کرائے پر سائیکل لے کر دی تھی، میں اس پر کالج جاتا تھا. کمبار واڑہ سے لیمارکیٹ، نیپئر روڈ اور بندر روڈ سے کالج جانا، واپسی میں دوستوں کے ساتھ کمار، نگار، راکسی، سپر، نور محل سنیما کے پوسٹر دیکھنا اور کبھی کبھی ریڈ لائیٹ ایریا میں تانک جھانک کرنا، روز کا معمول تھا. میرے دونوں ماموں سنیما کی نوکری سے وابستہ تھے، بڑے ماموں مارسٹن (اب وحید مراد) روڈ پر ریوالی سنیما اور چھوٹے پاک کالونی کے علاقے میں اورانگھی نالا پر موجود چمن سنیما میں ہوتے تھے. بڑے ماموں سے ڈرتا تھا، چھوٹے کے ساتھ دوستی تھی، اکثر فلمیں ڈسکس ہوتی تھیں.

اسی اثناء میں چمن سنیما میں اپنے دور کی سپر ہٹ فلم "جاگ اٹھا انسان” لگی،  ماموں علی محمد نے کہا "اتوار کو چھٹی ہے، سنیما آنا اور یہ فلم ضرور دیکھنا، کیونکہ یہ فلم انگریزوں کے خلاف لڑنے والے بہادر قادو مکرانی پر بنی ہے”
اتوار کو ماموں کے ساتھ آٹو رکشا پر بیٹھ کر چمن سنیما پہنچے، گیارہ بجے والے شو میں فلم دیکھی، لاجواب فلم، خوبصورت گانے.. محمد علی فلم کے ھیرو تھے، جنہوں نے قادو مکرانی کا کردار ادا کیا تھا. فلم میں وحید مراد، زیبا، ملیر کے رہنے والے کمال ایرانی، لیاری کے قادر بخش بلوچ کے علاوہ میرے پسند کی ایکٹریس فردوس بھی تھیں. فلم کَچھ، کاٹھیاواڑ اور کراچی پس منظر بنائی گئی تھی. فلم کے ڈائریکٹر شیخ حسن اور فلمساز خیام سنیما کے مالک بہار علی بلوچ اور حبیب الرحمٰن تھے. فلم کے تمام گانے سپر ھٹ ہوئے. مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل، جو وحید مراد اور زیبا پر فلمائی گئی تھی، جس کے بول تھے "دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں، اک دلربا ہے دل میں جو حوروں سے کم نہیں” آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ یہ فلم 20 مئی 1966ع کو ریلیز ہوئی تھی۔ فلم میں محمد علی کے پاس جو ڈبل بیرل بندوق ہے، وہ لیاری کے رہنے والے حمیدﷲ خان نیازی کے والد ملتان خان کی تھی، اب یہ بندوق میانوالی میں ان کے خاندان کے پاس ہے۔

واپسی میں ماموں نے کہا "پیدل چلتے ہیں، میوا شاھ قبرستان  میں قادو کی قبر آپ کو دکھاتا ہوں”
ہم پیدل ہی گٹر باغیچہ،  میوا شاھ قبرستان کے ساتھ بلوچوں کا ایک گوٹھ تھا، اب نام یاد نہیں، پہلے وہاں پہنچے۔ اتنی آبادی نہیں تھی، بلکل ملیر کے کسی دیہات کا منظر تھا، ایک چائے کا ہوٹل، جو کچھ سال پہلے تک موجود شعبان گارڈن  ولیج تھدو ندی کے کنارے پر بنے اچانک ہوٹل کی طرح ہی تھا، اس ہوٹل میں چائے پی، حال احوال ہوئے، ماموں کو سب جانتے تھے اور قادو مکرانی کا واقعہ بھی سب کو یاد تھا. چائے پی کر ہم پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے قادو کی قبر پر پہنچے اور فاتحہ پڑھی..

قبر ایک چار دیواری میں تھی، صاف ستھری، ایک کونے میں کھجور کا درخت تھا. پرانے پتھر کے کتبے پر "شہید قادو مکرانی، سکنہ گجرات” اور ایک فارسی شعر بھی لکھا تھا. وہاں ایک گجراتی عورت بیٹھی دھاگے بن رہی تھی، پوچھنے پر اس نے بتایا "باد کی بیماری کے مریض یہاں آتے ہیں، میں انہیں دھاگے دیتی ہوں”
وہیں ماموں نے مجھے بتایا "اس قبر پر گجراتی، مارواڑی اور سلاوٹی آتے ہیں، کیونکہ کہ یہ ان کا ہیرو تھا”

کئی سال گزر گئے، قادو مکرانی ذھن کے کسی گوشے میں قید رہا، جب میں نے کراچی کی تاریخ پر کام شروع کیا، تو قادو پر بھی لکھنا چاہا ، لیکن سوائے” جاگ اٹھا انسان” فلم اور بڑے بوڑھوں کے زبانی قصوں کے سوا کچھ نہیں تھا.

قادو مکرانی اس خطے کا ہیرو تھا، درسی کتابوں اور ہماری تاریخ میں نہ ہمیں قادو مکرانی  اور نہ ہی روپلو کولھی، ھیمو کالانی، چاکر خان کلمتی، بھگت سنگھ، چاکر خان جوکھیو اور بہت سے، جنہوں نے جانوں کا نظرانہ پیش کیا، کوئی ذکر ملتا ھے. ہماری کتابوں میں ہمارے ھیرو تو حملہ آوروں  کو پیش کیا گیا ہے..

بعد میں بھی تین مرتبہ قبر پر حاضری دی، پرانے کتبے کی جگہ نیا پتھر لگا تھا، جس پر لکھا تھا
"شہید قادو مکرانی مجاہد ساکن کاٹیاواڑ ”
بہرحال اب کے میں نے قادو مکرانی پر لکھنے کی ٹھان لی. کامریڈ واحد بلوچ نے قادو پر ایک آرٹیکل لکھا تھا، وہ کام آیا. گجراتیوں، مارواڑیوں سے ملا، کیونکہ ان کے شادی بیاہ میں آج بھی قادو مکرانی کی بہادری کے گیت گائے جاتے ہیں- انڈیا میں  قادو مکرانی پر دو گجراتی  فلمیں بھی بن چکی ہیں، وہ بھی دیکھیں، تب جا کر قادو مکرانی پر میرا آرٹیکل مکمل ہوا. جو میری کتاب "کراچی جا لافانی کردار” میں موجود ھے.

مختصرا یہ کہ: قادو مکرانی، جس کا پورا نام قادر بخش بلوچ تھا. ان کا تعلق رند قبیلہ سے تھا، مکران میں پیدا ہوا، جب وہ صرف کچھ سال کا تھا تو  قحط اور انگریز کے عمل دخل بڑھنے پر اس کے خاندان نے مکران سے ہجرت کی اور جھونا گڑھ آ گئے۔ جہاں پہلے سے اس کے خاندان کے لوگ  اور دو ماموں موجود تھے، جو نواب کے گارڈ تھے. وہ انڑاج کے علاقے میں اپنے گاؤں میں رہتے تھے. جب انگریز سرکار اور ان کی حمایت کرنے والوں نے لوگوں کا جینا محال کر دیا، تو قادر بخش نے اپنے ساتھیوں سمیت گوریلا وار شروع کی. انگریز حمایتی نوابوں اور ساہوکاروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا تھا. قادر بخش انگریز فوج پر حملے کرتا رہا، 14 اگست 1844ع کو انگریز فوج نے انڑاج کا گھیراؤ کیا، فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں دونوں طرف بہت جانی نقصان بھی ہوا، قادر بخش  کا ماموں بھی مارا گیا. اس کے باوجود قادر بخش نے بعد میں بھی انگریز سرکار کے خلاف گوریلا وار جاری رکھی اور قادر بخش سے قادو مکرانی مشہور ہوا. انگریز سرکار نے اسے ڈاکو قرار دے دیا اور اس کے سر کی قیمت مقرر کر دی.

داستان بہت لمبی ہے، لیکن مختصراً یہ کہ دوستوں نے مشورہ دیا کہ قادو کچھ وقت کے لئے کراچی یا مکران چلا جائے ،حالات بہتر ہوں تو واپس آجائے. اس کے گھر والے پہلے ہی کراچی آ چُکے تھے. قادو مکرانی اپنے ساتھیوں اللہ داد ، دین محمد اور گل محمد کے ہمراہ کاٹھیاواڑ سے احمد آباد کے راستے سندھ پہنچا. اولڈ تھانہ ملیر سے اونٹ کرائے پر حاصل کر کے کراچی کے علاقے بغدادی پہنچے، ان کا ارادہ تھا کہ یہاں سے اونٹ حاصل کر کے مکران جایا جائے. اونٹ والے نے ان کے پاس اسلحہ دیکھ لیا تھا، اس لئے ان کو بغدادی  پہنچا کر ان سے کہا کہ آپ یہاں ٹھہریں، میں مکران کے لیئے اونٹوں کا بندوبست کرتا ہوں. وہ سیدھا تھانے پہنچا جو قریب ہی تھا، کراچی پولیس کو پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی کہ قادر مکرانی کراچی کی طرف آئے گا. سپاہیوں کو آتا دیکھ کر قادو نے خطرے کو بھانپ لیا. مقابلہ ہوا، دو سپاہی مارے گئے اور قادو ساتھیوں سمیت گرفتار ہو گیا. کراچی سنٹرل جیل میں مقدمہ چلا، یہ جیل موجودہ سٹی کورٹ کی جگہ پر تھی. 1887ع کو مشرق کے رابن ھُڈ، قادو مکرانی کو پھانسی دی گئی، اس کے دو ساتھیوں ﷲ داد اور دین محمد پر جھونا گڑھ  میں مقدمہ چلا کر دونوں کو پھانسی دی گئی. گل محمد کی عمر کم ہونے کی وجہ سے اسے 14 سال کی سزا سنائی گئی.

قادو مکرانی کی لاش لیاری کے ایک معزز واجہ فقیر محمد درا خان نے وصول کی ، نمازِ جنازہ چاکیواڑہ کے درا لین مسجد کے پیش امام ملا غلام محمد نے پڑھائی ، اس کو میوا شاھ قبرستان میں دفنایا گیا. لاش لحد میں ابابکر نے اتاری، ابابکر واجہ مستی خان کے بھانجھے تھے، مستی خان، مشہور سیاسی رہنما واجہ یوسف مستی خان کے دادا تھے۔

اس طرح ایک شخص، جو مکران میں پیدا ہوا، کاٹھیاواڑ ، گجرات میں بغاوت میں حصہ لیا اور سندھ کے دل کراچی میں پھانسی کے پھندے کو چوما اور ہمیشہ کے لیئے سندھ کی مٹی میں دفن ہوا..

تفصیل میری کتاب "کراچی جا لافانی کردار” میں موجود ہے، جس کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر امجد سراج میمن نے کیا ہے،  دونوں  کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close