دو اہم پیش رفتیں: جین تھیراپی سے سماعت کی بحالی اور ایک آنکھ کے خلیے سے دوسری کی بینائی بحال کرنے کا کامیاب تجربہ

ویب ڈیسک

فل ڈرسٹ کو آج بھی وہ تکلیف یاد ہے، جو انہوں نے ایک ڈش واشنگ مشین پر کام کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں اس سے کیمیکل داخل ہونے کے بعد محسوس کی تھی

ان کی بائیں آنکھ 2017ع میں کام کے دوران حادثے کا شکار ہوئی، جس نے ان کی بصارت ختم کر دی۔ وہ روشنی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے اور دن میں چار سے پانچ بار انہیں شدید سر درد ہوتا تھا

اُن کے بقول ”میں ناقابلِ برداشت سر درد کے ساتھ مکمل طور پر اندھا ہو گیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا میں اس طرح مزید ایک اور دن گزار سکتا ہوں؟ میں واقعی سوچ رہا تھا کہ میں اب یہ نہیں کر سکتا“

اس کے بعد ڈاکٹرز نے ان کا علاج ایک تجرباتی طریقۂ کار سے کیا، جس کا مقصد ایک آنکھ میں لگنے والی شدید چوٹوں کا دوسری آنکھ کے اسٹیم سیلز یعنی خلیات سے علاج کرنا ہے

ہوم ووڈ، الاباما سے تعلق رکھنے والے اکیاون سالہ فل ڈرسٹ اسٹم سیل ٹرانسپلانٹ کروانے والے چار مریضوں میں سے ایک ہیں۔ ماہرین پراُمید ہیں کہ یہ طریقۂ علاج آنے والے دنوں میں ہزاروں افراد کی مدد کر سکتا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹم سیل ٹرانسپلانٹ ایسے لوگوں کے لیے ایک امید ہے، جن کے پاس کوئی اور آپشن نہ ہو

ابتدائی تحقیق کے نتائج جمعے کو جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہوئے اور اب اس بارے میں ایک جامع اسٹڈی جاری ہے

یہ طریقہ کار ’لمبل‘ (limbal) اسٹم سیل کی کمی کے علاج کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو کورنیا کی ایسی خرابی ہے جو کسی کیمیائی مادے سے جل جانے اور آنکھوں کی دیگر چوٹوں کا نتیجہ ہو سکتی ہے

بوسٹن میں ’ماس آئی اینڈ ایر‘ کی ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر اولا جورکوناس نے جو اس ریسرچ کی پرنسپل محقق تھیں کہا کہ تجرباتی تیکنیک میں صحت مند آنکھ سے اسٹم سیلز کے کچھ خلیات لے کر انہیں بوسٹن کی ڈانا فاربر کینسر لیبارٹری میں پرورش کے لیے بھیج دیا گیا تاکہ وہ پیوندکاری کے قابل ہو سکیں

اسٹم سیلز کو پیوندکاری کی مطلوبہ سطح پر پہنچنے میں کچھ ہفتے لگے جس کے بعد انہیں واپس بھیج دیا گیا تاکہ زخمی ہونے والی آنکھ میں ان کی پیوندکاری کی جا سکے

یہ تجرباتی طریقہ علاج سب سے پہلے ڈارسٹ نامی مریض پر کیا گیا۔

جورکوناس نے بتایا ”اس طریقہ علاج کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہم مریض کے اپنے خلیے استعمال کر تے ہیں، ڈونر ٹشوز نہیں، جنہیں مریض کا جسم قبل کرنے سے انکار کر سکتا ہے“

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ علاج اس مختلف طریقۂ کار سے بہتر ہے، جس میں متاثرہ آنکھ میں لگانے کے لیے صحت مند آنکھ سے اسٹیم سیلز کا ایک بہت بڑا ٹکڑا لیا جاتا ہے، جس سے صحت مند آنکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے

جورکوناس نے، جو ہارورڈ میڈیکل اسکول سے بھی وابستہ ہیں، کہا کہ ڈارسٹ کی سرجری 2018ع میں کی گئی تھی، لیکن اس کے پیچھے تقریباً دو دہائیوں کی تحقیق تھی

اس تحقیق میں شامل تمام مریضوں کی آنکھوں کے پردے (کورینا) اس قابل ہو گئے کہ ان پر مصنوعی کورینا لگایا جا سکے ۔ اس کے بعد ڈارسٹ اور ایک اور مریض پر مصنوعی کورنیا کی پیوند کاری کامیاب ثابت ہوئی، جب کہ دوسرے دو مریضوں کی بینائی صرف اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ہی بہتر ہو گئی

جب کہ پانچویں مریض کی سرجری نہیں ہو سکی کیونکہ لیبارٹری میں بھیجے جانے والی آنکھ کے اسٹم سیل میں نشوونما نہیں ہو سکی تھی

ڈارسٹ نے بتایا کہ ان کی دائیں آنکھ کی بصارت تقریباً ٹھیک ہے لیکن بائیں آنکھ کی نظر قدرے دھندلی ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے ستمبر میں ایک مختلف طریقۂ کار سے علاج کیا جائے گا۔

جورکوناس کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں ہر سال تقریباً ایک ہزار افراد اس قسم کے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ سے ممکنہ طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

 جین تھیراپی سے سماعت کی بحالی میں اہم پیش رفت

کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے جینیاتی تکنیک سے چوہوں میں کم اور درمیانے درجے کی فریکوئینسی پر سماعت کی بحالی کے کامیاب تجربات کیے۔ سائنسدان پر امید ہیں کہ اس طرح مستقبل میں انسانوں میں بھی بہرے پن کا علاج ممکن ہوگا

دنیا بھر میں شور کی آلودگی، سمارٹ فونز اور ہینڈز فری کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث سماعت میں کمی اور بہرے پن کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کنگز کالج لندن کے شعبہ سائیکاٹری، سائیکالوجی اینڈ نیورو سائنسز کے سائنسدانوں نے بہرے پن کا شکار چوہوں پر مخصوص جین تکنیک سے سماعت کی بحال کے کامیاب تجربات کیے ہیں

8 اگست کو ’نیشنل اکیڈیمی آف سائنسز امریکا‘ کی پروسیڈنگ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے سائنسدان پر امید ہیں کہ جین تھیراپی کے ذریعے مستقبل میں انسانوں میں بھی سماعت کی بحالی ممکن ہوگی

کنگز کالج لندن سے وابستہ سائنسدان کیرن سٹیل کے مطابق انسانوں میں سماعت میں آہستہ آہستہ کمی کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ عموماً عمر میں اضافے کے ساتھ بوڑھے افراد کی سماعت کم ہونے لگتی ہے، جس کا تعلق کان کے اندر موجود سیال مادے سے ہوتا ہے، جس میں پوٹاشیم اور سوڈیم کی ایک مخصوص مقدار شامل ہوتی ہے

کیرن بتاتی ہیں کہ اس سیال مادے پر بہت سے چھوٹے بال نما عضو ہوتے ہیں، جو بیرونی ماحول سے آواز کی وائبریشن یا تھرتھراہٹ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کان کے اس حصے میں ایک مثبت الیکٹریکل وولٹیج کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں ’اینڈو کوکلیئر پوٹینشل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پوٹینشل بال نما عضو کی حساسیت کے لیے ضروری ہوتا ہے

کیرن کے مطابق عمر کے ساتھ سماعت میں کمی ان ہیئر سیلز کی حساسیت کم ہونے سے ہوتی ہے، جسے بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ان کی ٹیم نے ایک ’ماؤس ماڈل‘ تشکیل دے کر کان کے اس حصے پر تجربات کیے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ سماعت میں کمی اینڈو کوکلیئر پوٹینشل میں خلل یا نقص کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس نقص کی وجہ ایک جین بنتی ہے، جسے ’سپنسٹر ہومولوگ ٹو‘ یا ’ایس پی این ایس ٹو‘ کہا جاتا ہے

چوہوں پر کی جانے والی تحقیق کے حوالے سے کیرن سٹیل کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھنے والے اعصابی امراض سے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں ریورس کیا جا سکتا ہے، جن میں سماعت کی کمی یا بہرہ پن بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق چوہوں پر تحقیق سے کنگز کالج کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ نقص والی جین کی خرابی دور کر کے چوہوں میں درمیانے اور کم درجے کی فریکوئیسیز پر سماعت کی بحالی ممکن ہے

کیرن کہتی ہیں کہ اگرچہ خراب جین کو دوبارہ متحرک کرنے کا یہ طریقۂ کار کم عمر چوہوں میں زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔ یعنی یہ تکنیک ایک خاص عمر تک بہترین نتائج دے سکتی ہے

کیا اس تکنیک سے انسانوں میں سماعت کی بحالی ممکن ہوگی؟ اس بارے میں اس تحقیق کی شریک مصنف ڈاکٹر ایلسا کا کہنا ہے کے ان کی ٹیم نے چوہوں پر تجربات کے لیے جو تکنیک استعمال کی ہے اگرچہ وہ براہ راست انسانوں پر قابل عمل نہیں، مگر مستقبل میں اس حوالے سے پیش رفت ضرور متوقع ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تکنیک صرف اس صورت میں استعمال کی جاتی ہے، جب سماعت میں کمی سپنسٹر ہومولوگ ٹو جین میں نقص کی وجہ سے ہوئی ہو

ایلسا کے مطابق انسانوں میں اس طرح کے کیسز میں متاثرہ جین کی جین تھیراپی سے بدتریج سماعت میں کمی کو روکنا اور مکمل بحال کرنا ممکن ہو گا، جس پر ابھی مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔

فروری 2023ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ طریقہ سماعت اور ہینڈز فری کے کثرت سے استعمال کے باعث خدشہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک بلین نوجوان مکمل یا جزوی بہرے پن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ 2050ء تک 25 کروڑ افراد یعنی ہر دس میں سے ایک فرد کی قوت سماعت متاثر ہونے کا امکان ہے

دنیا بھر میں قوت سماعت کی بحالی کے لیےآلۂ سماعت، کوکلیئر امپلانٹ اور مڈل ایئر سرجری جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جو نسبتا مہنگے اور وقتی حل فراہم کرتے ہیں۔ ابھی تک سماعت کی مکمل بحالی کا کوئی دیرپا علاج دریافت نہیں کیا جا سکا

کنگز کالج لندن کی حالیہ تحقیق سے سائنسدانوں کو امید ہوئی ہے کہ کم عمر مریضوں میں متاثرہ جین کو دوبارہ متحرک کر کے سماعت بحال کرنا ممکن ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close