ایک زمانہ تھا، جب موبائل فونز کو مکمل چارج کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوا کرتا تھا، گھر سے باہر اگر فون کی چارجنگ ختم ہو جائے تو گویا ایک بڑی مشکل آن پڑتی تھی۔ لیکن اب اکثر موبائل فونز کے لیےنہ صرف ’سپر فاسٹ‘ چارجنگ کی سہولت موجود ہے، بلکہ ’بیٹری پیک‘ بھی بآسانی دستیاب ہیں، کہیں بھی فون کی چارجنگ ختم ہو جائے تو بیرونی بیٹری سے فون کو منسلک کرکے اُسے چارج کر لیں، یہ ایک طرح سے فون کا ’لائف سپورٹ سسٹم” ہے۔ اب بہت ہلکے پھلکے اور تیز تر چارجنگ کی صلاحیت رکھنے والے بیٹری پیک عام مل جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ، آلات چھوٹے اور کہیں زیادہ موثر ہو رہے ہیں۔ تصور کیجیے کہ اگر الیکٹرک یعنی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو بھی موبائل فونز کی طرح جھٹ پٹ چارج کیا جا سکے۔ دراصل یہ تصور اب حقیقت بننے والا ہے
بیٹری بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی نے الیکٹرک وہیکل (ای وی) کے لیے پہلی ’سپر فاسٹ چارجنگ‘ بیٹری لانچ کر دی ہے، جو صرف 10 منٹ چارج کرنے پر 400 کلومیٹر (249 میل) کی رینج فراہم کرے گی۔
چین کی کنٹمپریری ایمپیریکس ٹیکنالوجی لمیٹڈ (سی اے ٹی ایل) نے کہا ہے کہ اس کی نئی لیتھیم آئن بیٹری سے برقی کاروں کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور مالکان کے لیے رینج کی پریشانی ختم ہو جائے گی
مکمل چارج ہونے کی صورت میں یہ بیٹری 700 کلومیٹر کا سفر فراہم کر سکتی ہے، جو 2023 میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد زیادہ ہے
سی اے ٹی ایل کا کہنا ہے کہ بیٹری کی صلاحیت اور چارج ٹائم میں اضافہ ’بالکل نئے سپر کنڈکٹنگ الیکٹرولائٹ فارمولے‘ کے ذریعے حاصل کیا گیا، جس کے نتیجے میں کنڈکٹیویٹی میں بہتری آئی ہے
سی اے ٹی ایل کے چیف سائنسدان ڈاکٹر وو کائی نے کہا، ’ای وی بیٹری ٹیکنالوجی کا مستقبل معاشی فوائد کے ساتھ عالمی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رہنا چاہیے
’صارفین میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی کو سب کے لیے قابل رسائی اور ہر ایک کو جدت طرازی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کی قابل بنائیں۔‘
سی اے ٹی ایل، جس نے 2022 میں اپنے ہر حریف کے مقابلے میں زیادہ لیتھیم آئن بیٹریاں تیار کیں، اس سال کے آخر میں اپنی مستقبل کی بیٹری کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے
کمپنی نے یہ نہیں بتایا کہ گاڑیاں بنانے والی کون سی کمپنی سب سے پہلے اس کی بیڑیاں لے گی۔ تاہم اس کے صارفین میں بی ایم ڈبلیو، ڈیملر اے جی، ہونڈا، ٹیسلا، ٹویوٹا، ووکس ویگن اور والوو شامل ہیں
حالیہ برسوں میں الیکٹرک کاروں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال ایسی کاروں کی فروخت ایک کروڑ سے زیادہ رہی۔ تاہم یہ اب بھی تمام کاروں کی فروخت کا پانچواں حصہ ہیں
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق الیکٹرک گاڑی کی خریداری پر غور کرتے وقت صارفین کے لیے رینج کی پریشانی ایک اہم رکاوٹ ہے، جس نے سی اے ٹی ایل جیسے مینوفیکچررز کو اس رکاوٹ پر قابو پانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کیا ہے
دیگر مسائل میں بیٹری مواد تک رسائی اور بیٹری کا انحطاط شامل ہیں، اگرچہ سی اے ٹی ایل کا دعویٰ ہے کہ اس دوسرے نقطے کا اس کی حالیہ بیٹری میں کوئی مسئلہ نہیں
زیادہ تر بڑی کار ساز کمپنیوں نے 2040 تک انٹرنل کمبشن انجن والی کاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئی ای اے کے تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ الیکٹرک کاروں کی فروخت اگلے 15 برسوں میں تیل سے چلنے والی کاروں کی فروخت سے بڑھ جائے گی، جب کہ بیٹری کی کامیابی اس ٹائم سکیل کو مزید کم کر سکتی ہے
دوسری جانب جاپانی کار ساز کمپنی ”ٹویوٹا“ نے بھی ایک نئی الیکٹرک وہیکل (EV) بیٹری بنانے کا اعلان کر رکھا ہے جو ایک بار چارج کرنے پر 1500 کلومیٹر (932 میل) تک سفر کر سکتی ہے
اس لیتھیم آئرن فاسفیٹ (ایل ایف پی) بیٹری کو ”سالڈ اسٹیٹ بیٹری“ کہا جاتا ہے اور امید ہے کہ یہ 2027 تک تجارتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی۔ اس بیٹری کو صرف دس منٹ میں چارج کیا جا سکتا ہے
واضح رہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کا تصور نیا نہیں امریکی محکمہ ِ توانائی کے مطابق دنیا میں سب سے پہلی تجرباتی الیکٹرک گاڑی لگ بھگ 1832 میں امریکہ، ہنگری اور نیدرلینڈز کے اشتراک سے بنائی گئی تھی، جبکہ امریکہ کی پہلی الیکٹرک گاڑی 1889 کے بعد منظرِ عام پر آئی۔ وقت کے ساتھ اِس کی شکل اور فیچرز جدید تر ہوتے چلے گئے، آج کے دور میں الیکٹرک گاڑیاں فل چارج پر 300 میل یا زیادہ سفر کرنے کے قابل ہو چکی ہیں۔ اور اب یہ پیش رفت صرف دس منٹ چارج کرکے چار سو کلومیٹر تک جا پہنچی ہے