فیض محمد بلوچ: ایک شہسوار کی کتھا

رمضان بلوچ

تقسیمِ ہند سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد 60 کی دہائی تک کراچی شہر میں گھوڑ دوڑ مقبول کھیلوں میں شامل تھا۔ خوبصورت پارکوں، سنیماؤں اور تفریح گاہوں کی طرح کراچی ریس کورس میں بھی بڑی گہماگہمی رہتی تھی۔

صحتمند اور تربیت یافتہ گھوڑوں کی ملکیت تو اس وقت کے نامور سیاستدانوں، امیر کبیر لوگوں کی ہوتی تھی لیکن گُھڑ سوار (جیکی) زیادہ تر یورپ اور آسٹریلیا سے یہاں آتے تھے یا تو پھر یہ جیکی مقامی آبادی سے لئے جاتے تھے۔ لیاری میں تو نوا لین کے آخر میں واقع جیکی پاڑہ آج بھی مشہور ہے۔

1917 میں کراچی میں پیدا ہونے والا فیض محمد بلوچ ابھی کم سن ہی تھا کہ اس کے چچا علی بخش (جیکی) اسے اپنے ساتھ کراچی ریس کورس لے گئے، جہاں فیض نے 13 سال کی عمر میں ’رائیڈر بوائے‘ کا لائسنس حاصل کیا۔ اس کے بعد جیسے کہتے ہیں ”اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا!“

نوجوانی کی عمر تک ان کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ 1937 میں انہیں باقائدہ طور پر ’بالغ جیکی‘ تسلیم کیا گیا۔ پھر نہ صرف کراچی بلکہ لاہور، بمبئی، مدراس، پونا، بنگلور، لکھنؤ اور میرٹھ میں بھی انہوں نے ٹاپ موسٹ گُھڑ سوار ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور اور کراچی تک ہی محدود رہے، جہاں وہ کئی اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جن میں ٹاپ ’قائداعظم گولڈ کپ‘ بھی شامل ہے۔

جب 1964 میں 47 سال کی عمر میں چست و توانا فیض محمد نے آخری مرتبہ گُھڑ سواری کی تو اس وقت تک وہ مسلسل 20 سال تک کراچی ریس کورس میں ’دی چمپین‘ اور ’دی لٹل ایمبیسیڈر‘ رہے۔

فیض بلوچ نے پروفیشنل جیکی ہونے کی اپنی خاندانی روایت جاری رکھی اور ان کے تین جیکی بیٹوں شیر محمد، طارق اور علیم نے کراچی اور لاہور ریس کورس میں کافی شہرت حاصل کی۔

اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہم نے اس جیکی خاندان کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن 70 کی دہائی کے دوران لیاری میں سماجی تقاضوں کی تبدیلیوں اور سیاسی ہلچل میں فیض محمد جیکی کا نام لوگوں کے ذہنوں سے ماؤف ہوتا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1973 میں جیکی خاندان اس علاقے سے پی ای سی ایچ سوسائٹی شفٹ ہو گیا۔

موسیقی کے شعبہ سے وابستہ جیکی خاندان کے جمیل مگسی کے ذریعے فیض محمد بلوچ کے بیٹوں طارق اور علیم سے ایک دوست افسر رؤف بلوچ کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی تب پتہ چلا کہ واجہ فیض محمد لیاری کے گمنام ہیروز میں سے ایک تھے۔

فیض محمد جیکی بہت ہی بااخلاق، بلند کردار اور بہت ہی شائستہ انسان تھے۔ وہ سماجی اور اجتماعی طور پر امدادی کاموں میں بھی سرگرم رہتے تھے۔ وہ ملیر تھانو یونین کونسل کے چیرمین بھی منتخب ہوئے تھے۔ بنیادی طور پر ملیر کے کلمتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن بعد میں مگسی خاندان سے رشتہ جوڑنے کے بعد وہ لیاری کے ہو کر رہ گئے۔

ریس کے پروفیشنل گھڑ سواروں کو اس دور میں کراچی کے معزز شہریوں کا درجہ حاصل تھا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا اس وقت کے بڑے لوگوں کے ساتھ تھا۔ غیر ملکی سفارتخانوں کی دعوتوں میں بھی ان کو مدعو کیا جاتا تھا۔ فیض محمد اس سرکل میں جہاں جاتے، ان کی بڑی آؤ بھگت ہوتی تھی۔

ان کے بہت ہی قریبی دوستوں میں آسٹریلیا کے جیکی اور ٹرینر ٹی جے رسل شامل تھے، جو کئی سالوں سے کراچی میں گھوڑے دوڑاتے تھے۔ ان دونوں دوستوں میں بڑی ذہنی ہم آہنگی تھی

مسٹر رسل کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ یکم جون 1964 کو پہنچا، جب ان کے سامنے ان کے قریبی دوست فیض محمد بلوچ ریس کے دوران گھوڑے سے گر پڑے اور سر پر سنگین چوٹ لگنے کے سبب 32 گھنٹے بیہوش رہنے کے بعد یہ دنیا چھوڑ گئے۔

اس ناگہانی حادثہ نے پورے کراچی کو سوگوار کردیا تھا۔ ڈیلی ڈان نے جلی سرخیوں میں چمپین فیض محمد کی موت کی خبر دے کر اپنے رپورٹر علیم احمد کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی اور تین دن تک اسپورٹس کے صفحات میں مرحوم فیض کے بارے میں خبریں چپھتی رہیں۔

مسٹر ٹی جے رسل نے کراچی کی قدیمی بستی لیاری آکر اپنے دوست فیض کی میت کے جلوس میں جم غفیر دیکھا، جس کا ایک سرا ان کی رہائش گاہ چاکیواڑا نمبر 2 میں جبکہ دوسرا سرا ٹرام جنکشن میں تھا۔

فیض کے ان ہزاروں چاہنے والوں میں عام شہریوں کے علاوہ کراچی شہر کے نامور سیاستدانوں، سماجی رہنماؤں، اسپورٹس اور کاروباری شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں سابقہ مئیر کراچی اور گورنر سندھ محمود ہارون اور سابق مرکزی وزیر زین نورانی بھی شامل تھے، جو اپنے آنسوؤں پر اس دن قابو نہ پاسکے تھے۔

فیض محمد کی موت کے تیسرے دن اپنے دوست کی یاد میں مسٹر ٹی جے رسل کا ایک آرٹیکل ڈیلی ڈان میں چھپا جس کا عنوان تھا: Faiz Was A Gentleman اسی آرٹیکل کے آخر میں انہوں نے گُھڑ دوڑ سے ریٹائر ہونے اور پاکستان سے اپنے وطن آسٹریلیا جانے کا اعلان کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close