سندھو سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط43)

شہزاد احمد حمید

رات ہمارے گرد تیزی سے پھیل رہی ہے۔ آسمان پر ابتدائی شب کا چاند، اس کی کرنیں گیندی شفق سے پھسل پھسل کر زمین پر اس طرح پھیل رہی ہیں جیسے زمین کی سطح پر کسی نرم و نازک پھول کی پنکھڑیاں بکھیری ہوں۔ ہوا کے جھونکوں کی سر سراہٹ ایسے لگ رہی ہے جیسے کسی درد مند کے دل سے کراہ نکلتی ہو۔ چاند کی کرنیں غائب ہو گئی ہیں۔آسمان پر بجلی کی چمک، بادل کی کڑک، ٹھنڈی ہوا کے لطیف جھونکے سبھی بارش کا سندیسہ ہیں۔ بجلی کی زور دار کڑک کے ساتھ ہی مینہ برسنے لگا ہے

گہری نیند سے اٹھا ہوں اور عشاء کی سفری نماز ریسٹ ہاؤس کی چھوٹی سی مسجد میں ادا کر کے ڈاک بنگلہ کی اونچائی سے مصنوعی روشنیوں کا نظارہ دلفریب ہے۔اٹک برج سے گزرتی گاڑیوں کی روشنیاں سندھو کے پانی سے ٹکراتی اٹھکھیلیاں کرتی شاندار منظر پیش کررہی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے روشنیاں پانی کی موجوں پر تیرتی غائب ہوتی جا رہی ہیں۔ بارش کے بعد شفاف آسمان کی وسعت پر روشن چاند اور لاکھوں کروڑوں ستارے دور دور تک بکھرے ہیں۔ یوں محسوس ہوا کہ بارش نے جیسے آ سمان ہی کو نہیں بلکہ تاروں کو بھی نہلا کر ان کی چمک دمک میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ میں خراماں خراماں ٹہلتا باس کے ساتھ سندھو کے کنارے چلا آیا ہوں۔ میں نے باس سے کہا؛ ”باس! سندھو کے گرد اس پہاڑی بستی کے گھروں میں جلتے چراغ، دھیرے دھیرے ستاروں سے سجتا سنورتا آسمان، چاند کی چاندنی، ستاروں کی روشنی، سندھو تو مدہوش ہو جاتا ہوگا۔“ میری بات سن کر باس بولے؛ ”یار! روز روز یہ نظارہ دیکھ کر سندھو اکتا ہی جاتا ہوگا۔ جیسے ہم روز روز ایک ہی چیز دیکھ کر اکتا جاتے ہیں۔“

مجھے سندھو کی ہنسی سنائی دی جیسے کہہ رہا ہو؛ ”ہا ہا! میں تو روز اس نظارے کے انتظار میں ہوتا ہوں۔ میرے بس میں ہو تو میں دن کی روشنی طلوع ہونے ہی نہ دوں۔ یہ سماں مجھے مدہوش ہی نہیں کرتا بلکہ پرجوش کر دیتا ہے۔ چاند کی روشنی مجھے بے قرار کرتی ہے اور اگر نین اور تم جیسا کوئی میرے کنارے بیٹھا ہو تو میں مدھر سروں کی ایسی تان کھنچتا ہوں کہ سننے والا مست ہو جائے۔ ایسے میں تم جیسے ہوش کھو کر جوش ٹھنڈا کر کے ہی سکون پاتے ہیں۔ ہاں سنو! میرے دوست قدرت کے خزانے بے بہا اور بیش بہا ہیں البتہ حسن و جمال کے ان خزانوں سے مستفید ہونے والی آنکھیں گنتی کی ہیں۔ سنو! یہاں قدرت کی زنبیل سے ہر گھڑی ایک نیا منظر ابھرتا، نکھرتا اور تحلیل ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ لینے ہر پل اک نیا منظر تراشا جاتا ہے۔ نئے مناظر اور موسموں کو دیکھتے دیکھتے کیسے آنکھیں تھک سکتی ہیں۔ باس؟ باس! ذرا میرے پانی پر غور کریں ان ستاروں اور چاند کا عکس اس کے پانی پر جھومتا دکھائی دے گا۔“

انہوں نے جواب دیا؛ ”تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ یار تیری نگاہ بہت تیز ہے کیسی کیسی باتیں نوٹ کر لیتے ہو تم۔“

میں دوڑتا ڈاک بنگلے پہنچا ہوں۔ نین کو آواز دی اور اس کا ہاتھ تھامے سندھو کی طرف چل پڑا ہوں تاکہ اسے پانی پر تیرتا جھل مل ستاروں کا آنگن دکھا سکوں۔اس کی نظر پانی پر اترے ستاروں کے آنگن پر پڑی تو وہ بھی اس منظر میں کھو گئی ہے۔

سندھو نے مجھے ایک بار کہا تھا؛ ’چاندنی رات ہو، ستاروں سے بھرا آسمان، میرا کنارہ ہو۔ اس ماحول کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا دل محبت سے بھرا ہو۔‘ یہ بات یاد آئی تو مجھے محسوس ہوا، اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ پانی کا جل ترنگ، خاموشی، ہوا کی سرسراہٹ وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے دل میں محبت کا شعلہ اور قدرت سے پیار والا دل ہو جو میرے اور میرے دوستوں کے پاس موجود ہو۔ کہتے ہیں خاموشی بھی سوالات کا جواب دیتی ہے۔ کبھی خاموشی میں ان جوابات کو سنانا دوست۔

بھوک ستا رہی ہے۔ ہم دریا کے کنارے سے اٹھ آئے ہیں۔ ہاں یاد آیا دوپہر کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اٹک کے پرانے بازار میں ہم چپلی کباب کھانے چلے آئے ہیں۔ رات کے 10 بجے ایک آدھ ہوٹل یا منیاری کی دوکان کے علاوہ سارے بازار میں ہو کا عالم ہے۔ پیاز، قیمہ، ٹماٹر، ادرک، مرچ مصالے سے تیار کردہ یہ کباب پشاور کا خاص تحفہ ہیں لیکن اب ملک کے ہر شہر میں دستیاب ہیں۔ چپلی کباب کی یہ دکان اٹک کی مشہور اور پرانی دکان ہے۔گاہکوں کی بھیڑ کا رات کے اس پہر ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اس بازار میں چند پرانی عمارات ماضی کی کاریگری کی چھاپ کا شاندار نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ہم چپلی کباب ہوٹل بیٹھے کھانے کے انتظار میں ہیں۔ کبابوں کی خوشبو نے بھوک کافی چمکا دی ہے۔ ہمارے میز کے ساتھ ہی کم و بیش ساٹھ پینسٹھ برس کا ”درویش“ کب سے ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس کی آنکھ اور ہاتھ پر ایک ہی سوال ہے ”بھوکا ہوں، کھانا کھلا دو۔“ میری نظر ایک آدھ بار اُس پر پڑی۔ تنگ آ کر یا ترس کھا کر مشتاق نے اُس کے لئے بھی کھانے کا آڈر دیا ہے۔ کھانا اس تک پہنچا تو اس نے محبت بھری نظر سے ہمیں دیکھا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ شاید کئی دن یا کئی پہر کا بھوکا ہے۔ بھوک دنیا کی سب سے سفاک حقیقت ہے۔ ویسے بھی ارشاد نبویﷺ ہے؛”بہترین صدقہ بھوکے کو کھانا کھلانا ہے۔“

بھوک بھی کیا چیز ہے اور انسان بھی کیا شے ہے۔ اگر سمجھے تو ایک وقت کا کھانا، دو گھونٹ پانی اور چند لقمے خوراک کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی تلخ سچائی ہے کہ بھوک سے کم اور بھرے پیٹ سے زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ پھر بھی ہم دو گھونٹ پانی اور چار لقمے خوراک کے لئے زندگی بھر نہ جانے کیسے کیسے عذاب اور جوکھم اٹھاتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں کا حصول کبھی اتنی زندگی کا طلب گار نہیں ہوتا جتنی زندگی ہم بھوک اور پیاس مٹانے میں گنواتے ہیں۔ ذرا سوچئے گا۔
یقین کریں ان چپلی کباب کا ذائقہ منفرد ہی نہیں بلکہ یہ طبعیت پر گراں بھی نہیں گزرتا ورنہ ایسی خوراک اکثر طبعیت خراب کر دیتی ہے۔ کھانے کے بعد لالہ جی کا ’نسخہ لالوی‘ یعنی کڑک چائے نے کھانے کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔

میں علی الصبح ہی دروازے پر عدیل کی دستک سے جاگ گیا ہوں۔ باہر ابھی جاتے اندھیرے کی پرچھائیاں باقی ہیں۔ ہمیں اٹک خورد پر طلوع ہوتے سورج کے نظارے میں خود کو ڈبونا ہے۔ اکبر اعظم کے تعمیر کردہ اٹک قلعہ کی 500 سال پر پھیلی تاریخ کے اوراق میں کھونا ہے۔ میں منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا باہر آیا تو ایک مانوس آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ہے۔ سندھو کی جانی پہچانی آواز۔۔ ”تم نین کے بغیر چڑھتے سورج کا نظارہ دیکھنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ اس کے بغیر۔۔۔“ میں اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس مڑا، نین کے کمرے پر دستک دی۔ کچھ لمحوں کے انتظار کے بعد اُس نے آنکھیں ملتے دروازہ کھولا، بولی؛ ”کیوں اٹھا دیا صبح صبح۔“ میں نے اس کا ہاتھ تھاما وہ بولتی ہی رہ گئی ہے۔ اسے جیپ میں بٹھایا اور ہم مشرق سے ابھرتے سورج کا نظارہ کرنے سندھو کی طرف رواں ہیں۔

یہ نئی صبح ہے۔ کل ہونے والی بارش نے ماحول نکھار دیا ہے۔ افق پر تا حد نگاہ نیلا شفاف آسمان ہے۔ فضا تازہ جبکہ ماحول کی گرد رات کی بارش میں دھل چکی ہے۔

آسمان پر بادل اترے ہیں۔ آوارہ بادل۔ ٹھنڈی ہوا میں درخت اور پودے جھوم جھوم کر اللہ کی حمد بیان کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ثناء کرتے پرندے بھی ہیں۔ جیپ کے ریڈیو پر نصرت فتح علی خاں کی گائی حمد کے بول؛ ”نظر بھی نہ جو آئے دکھائی بھی دے رہا ہے، وہی خدا ہے وہی خدا ہے۔“ دل میں اتر رہے ہیں۔ مدعا سبھی کا ایک ہے البتہ زبان اور انداز میں فرق ہے۔ فرمان الہٰی ہے؛ ”سارے آسمان اور ساری زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔“ رات کی چادر سے صبح کا اجالا طلوع ہونے کو ہے۔

سنسان ناہموار سڑک پر جیپ دوڑی چلی جا رہی ہے۔ ارد گرد تا حدِ نظر پھیلے گندم کے سنہرے کھیت صبح کی ہوا میں جھوم رہے ہیں۔ گرمی کی یہ صبح معمول سے ہٹ کر سہانی ہے۔ رات کی بارش نے درختوں کو دھو کر نکھار اور موسم خوش گوار کر رکھا ہے۔ سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت ہے۔ ہم شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جی ٹی روڈ پر چڑھ آئے ہیں۔ وہ بھی کیا کمال حکمران تھا؟ ساڑھے چار سال کی حکومت اور اس مختصر وقت میں کئے جانے والے کام عقل دنگ کر دیتے ہیں۔ کلکتہ سے پشاور تک جرنیلی سڑک کی تعمیر ہو یا زمین کا ریکارڈ مرتب کرنا ہو یا روہتاس قلعہ کی تعمیر ہو۔ یہی تین کارنامے حیران کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے آج کے حکمرانوں کے دعویٰ اور جھوٹے وعدے اس ملک کے سادہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کافی ہیں۔گھوڑے سدھانے والے کا بیٹا اپنی قابلیت سے ہندوستان کا حکمران بنا۔ اصل نام فرید خاں تھا۔ بہادری اور شجاعت کے باعث ’شیر خاں‘ کا لقب ملا اور پھر وہ اسی نام سے مشہور ہو گیا۔ وہ خالصتاً افغان تھا اور ہندوستان میں ’سُور‘ خاندان کی حکمرانی کا بانی۔ شیر شاہ مافوق الفطرت انسان، اعلیٰ پائے کا منتظم، نڈر سپہ سالار، عمدہ گھڑ سوار اور منصف مزاج حکمران تھا۔ برصغیر کی تاریخ میں اس کا اونچا مقام ہے۔ ”سسرام“ (بھارت) میں اس کا عالی شان مقبرہ ہے۔ایک ہمارے آج کے حکمران ان خوبیوں سے عاری اور عوام پہ ضرب کاری ہیں۔شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں ان کی قبریں مٹی کی نہیں سونے جوہرات کی ہوں گی یا شاید انہیں موت آنی ہی نہیں۔ جب انسان دولت اور ہوس کی لوٹ میں مبتلا ہو جائے وہاں عزت، غیرت جیسے الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ”ماریو پوزو“(mario puzo) اپنے شہرہ آفاق ناول”گارڈ فادر“ میں لکھتا ہے؛ ”دولت کے ہر انبار کے پیچھے لوٹ مار کی داستان پوشیدہ ہوتی ہے۔“

یہ ناول جرائم کی دنیا کے ایک مافیا کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس ناول کی اکیس ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس ناول پر نہایت کامیاب آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ”دی گوڈ فادر“ (the god father)1972؁ء میں بنی۔ جرائم اور کرپشن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ماریو نے یہ ناول 1969؁ء میں لکھا، اس کے ذھن میں یہ بات کبھی بھی نہیں ہوگی کہ اس ناول کی فرضی کہانی کو کوئی مارکوس، کوئی عدی امین وغیرہ آ کر سچ بھی ثابت کر دیں گے۔ اسی لوٹ مار پر ایک یورپی سیانے نے خوب کہا ہے؛ ”اگر لندن میں مقیم پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کو صحرائے اعظم کا وزیر اعظم بنا دیا جائے تو چند سالوں میں صحرا کا یہ سمندر بھی ریت سے خالی ہو جائے گا۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close