تاریخ کا مضمون عام لوگوں میں دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ داستان گو تاریخی واقعات کو ڈرامائی انداز میں بیان کر کے سامعین کو تفریح فراہم کرتے تھے۔ رزمیہ (Epic) نظموں کے ذریعے ماضی کی تاریخ لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتی تھی
طاقتور سلطنتیں مؤرخوں کے ذریعے اپنے اقتدار کے تسلسل کو قلمبند کراتی تھیں۔ جیسے منگول کے حکمران محمود غازان (1304) نے درباری مؤرخ رشیدالدّین کو تاریخی دستاویزات دے کر کہا کہ وہ اُس کے خاندان کی تاریخ لِکھے۔ رشیدالدّین نے جامع التواریخ لکھ کر اس منصوبے کو پورا کیا۔ اَکبر (مغل بادشاہ) نے مُغل تاریخ ابوالفضل (1602) سے لکھوائی اور پھر پھوپھی گُلبدن بیگم اور ہمایوں کے ملازم جوہر آفتابچی اور بایذید سے تاریخیں لکھوائیں تا کہ خاندان کی تاریخ مکمل ہو۔
مُغل تاریخ کے ماخذ ’توزَکِ بابری‘ اور ’توزَکِ جہانگیری‘ ہیں۔ اگرچہ یہ تاریخیں لکھیں تو گئیں مگر ان کی بنیاد سائنس پر نہیں بلکہ واقعات کو جمع کرنے اور بیان کرنے پر تھی۔ یہ پرانے مؤرخوں کے اقتباسات لے کر اُن کا ناقدانہ جائزہ نہیں لیتے تھے اور نہ ہی ان کی تاریخ نویسی میں کسی نظریے کا استعمال ہوتا تھا۔
یہ صورتحال اُنیسویں صدی کے یورپ میں بدلی، جب وہاں یونیورسٹیوں میں تاریخ کے شعبے قائم ہوئے۔ جرمن تاریخ نویسی کے اس انقلاب میں سب سے آگے تھا۔ تاریخ کا پہلا شعبہ گوٹنگن یونیورسٹی میں قائم ہوا۔ یہاں پروفیشنل مؤرّخوں کی تربیت کی گئی۔ تاریخی دستاویزات اور مخلوطات کو اکٹھا کیا گیا۔ مؤرّخوں کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ بنیادی اور ثانوی ماخذوں کے ذریعے تحقیق کریں اور ماضی کے مؤرّخین کا اپنی تحریروں میں حوالہ دیں۔ اس مقصد کے لیے پرانے مخلوطات کو ایڈٹ کیا گیا۔ لسانیات کے علم کے ذریعے قدیم زبانوں کو سمجھا گیا اور واقعات کی تشریح نئے واقعات کے تحت کی گی۔
تاریخ نویسی میں انقلاب لانے والے جرمن مورخ لیوپولڈ فان رانکے تھے، جو 1886 میں وفات پا گئے تھے۔ وہ برلن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنے لیکچرز اور تحریروں کے ذریعے تاریخ میں نئے موضوعات اور اُسلوب کو روشناس کرایا۔ مؤرّخوں کی تربیت کے لیے انہوں نے سیمینار کی ابتدا کی۔ سیمینار میں طالب علم ایک میز کے اردگرد بیٹھ جاتے تھے اور پڑھ کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تھے۔ آپس میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور ہر ایک متن کو اپنے نقطہ نظر سے بیان کر کے اُس کی تشریح کرتا تھا۔ اس مشق سے نوجوان مؤرّخوں میں متن کو سمجھنے کا نیا تجربہ ہوتا تھا، جو اُن کی تحقیق کے کام آتا تھا۔ رانکے اور ان کے سیمینار کا تجربہ جرمنی کی یونیورسٹی میں متعارف ہو گیا۔ اس نے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کو بھی متاثر کیا۔
جب پروفیشنل مؤرّخوں کی تحقیق سامنے آئی تو اُن کے مقالات شائع کرنے کے لیے تحقیقی جرنلز بھی شروع ہوئے، جہاں مؤرّخ اپنے نئے خیالات اور افکار کو پیش کرتے تھے۔ پھر مؤرّخوں کی سوسائٹیز کا قیام عمل میں آیا۔ یہ سوسائٹیز قومی اور بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کراتیں تھیں، جن میں مؤرّخ اپنے تازہ تحقیقی مقالات تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ اس بات کی بھی کوششیں ہوئی کہ تاریخ کی گلوبل کانفرنسوں میں غیر یورپی ممالک کے مؤرّخین بھی شریک ہوں۔
مؤرّخوں کی تربیت اور راہنمائی کے لیے کئی کتابیں لکھیں گئیں تا کہ وہ تحقیق کرتے وقت اور اپنے تھیسس شائع کراتے ہوئے تاریخ نویسی کی Technicalities کو سمجھیں اور تاریخ پر شائع ہونے والی کتابوں کا ریسرچ جنرل میں ناقدانہ Review کیا جائے، جس کی وجہ سے مؤرّخ تاریخ نویسی کے قوانین کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔
تاریخ نویسی میں اُس وقت اور تبدیلی آئی، جب اس میں سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی موضوعات پر بھی تحقیق شروع ہوئی اور تاریخ کو مختلف نظریات کی روشنی میں لکھا جانے لگا۔ ان نظریات میں قوم پرستی، مارکسزم، سامراجیت اور تحریکِ نسواں بھی شامل تھیں۔
ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک جو یورپ کی کالونیز رہ چکے تھے۔ ان کے ہاں جب آزادی کے بعد قومی تاریخ کی ابتدا ہوئی تو یہ یورپی تاریخ نویسی کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی تاریخ نویسی کا ذہنی تسلّط برقرار رہا۔ انڈیا میں یہ کوششیں ضرور ہوئی کہ اس تسلّط سے آزاد ہو کر اپنے حالات کے تحت تاریخ نویسی کی تشکیل کی جائے۔ چنانچہ 1980 کی دہائی میں ’سبالٹرن‘ نامی مؤرّخوں کا ایک گروپ تشکیل ہوا، جنہوں نے کالونیئل تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے ماحول اور حالات کے تحت تاریخ لکھی۔
ہندوستان میں آل انڈیا ہسٹری کانفرنسس سالانہ بنیادوں پر ہوتیں ہیں۔ انڈیا میں تاریخ کے تحقیقی ’جنرلز‘ بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ انڈین مؤرّخین اب علاقائی تاریخ کی تشکیل میں حصہ لے رہے ہیں۔ پروفیشنل مؤرّخوں کی ہندوستان میں ایک بڑی تعداد تربیت کے بعد تحقیق میں مصروف ہے۔
پاکستان میں پروفیشنل اور تربیت یافتہ مؤرّخ بہت کم ہیں۔ پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی اپنے ابتدائی دور میں سالانہ کانفرنسس کراتی رہی ہیں، لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ تحقیقی جرنلز بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں، جن میں غیر معیاری مقالات کی وجہ سے ان کی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ نویسی کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہ نظریہ پاکستان کی زنجیروں میں قید ہے۔ اس لیے یہاں تازہ افکار اور خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سنجیدہ اور تحقیقی کتابوں کے بجائے لوگوں میں تاریخی ناول پڑھنے کا رجحان ہے، جو کسی قسم کا تاریخی شعور پیدا نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں تاریخ کا مضمون مسخ ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور ایسے پروفیشنل مؤرّخ نہیں ہیں جو تاریخ کی تشکیلِ نو کر سکیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)