کھیرتھر، جہاں میرے خواب بستے ہیں۔۔

زوہیب احمد

کراچی کا نام سنتے ہی کچرا، دھواں، کنکریٹ کے جنگل کا گمان ہوتا ہوگا، مگر اسی کراچی میں ایک جگہ ہے جس کا نام ہے ’کھیرتھر نیشنل پارک‘ جو سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے۔۔ اب سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے تو رقبہ کے لحاضٹ سے چھوٹا ہو یا بڑا، ہمیں اسی میں قدرت کو قریب سے دیکھنا ہوگا

یہ بات ہے سنہ انیس سو چورانوے کی، جب چوتھی جماعت کی مجھے معاشرتی علوم کی کتاب میں جو سب سے کام کا اور سب سے دلچسپ مضمون لگا، وہ تھا کراچی کے قریب کسی نیشنل پارک کے وجود کا ہونا۔۔ ذہن میں گمان رہا کہ اس نیشنل پارک میں بھی ہاتھی شیر گلدار بھیڑیے کا راج ہوگا۔ اس وقت تک کھیر متھر نیشنل پارک ضلع دادو کی حدود میں آتا تھا۔

بے انتہاء اشتیاق رہا اس سحر کا، جس کو دیکھنے کا لطف کھیرتھر نیشنل پارک میں ہو مگر کیا کریں کبھی ایسی سحر بیس سال تک آئی ہی نہیں، نا اسکول والوں کو نا ابا حضور کو یہ خیال آیا کہ بچے کو کہاں جانا پسند ہے۔۔ یہ ہیں ہماری ترجحیات، جن کی بدولت ہماری قوم کو جنگلی حیات کی اہمیت سے آگاہی نہیں

خیر ایک دن ماہِ جون کی انتہائی گرم دوپہر بالاآخر میں کھیرتھر نیشنل پارک پہنچ ہی گیا، مگر یہ کیا۔۔ یہاں نا کوئی ہاتھی نا کوئی شیر نا کوئی ہرن۔۔ چند گھنٹے گزارے اور گھر کی راہ لی لیکن تشنگی برقرار رہی

لیکن اب سالوں بعد ہم راستہ دیکھ چکے تھے، سو آئے دن رختِ سفر باندھتے اور کھیرتھر نیشنل پارک کی راہ لیتے، مگر اس سحر کا بے انتہا انتظار رہا کہ کوئی تو سحر آئے گی جب کھیرتھر نیشنل پارک میں رات گزار کر صبح دیکھیں گے۔ بارہا کھیرتھر کے سفر میں یہ عقد کھلا کہ یہ علاقہ آج بھی اپنے اندر صدیوں کی تاریخ اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور یہاں شیر گلدار اب تو نہیں ہوتے مگر انواع و اقسام کے پرندے اور دیگر جنگلی حیات یہاں رہتی ہے اور بستی ہے

بس یہ اشتیاق مجھے ایک دن اس راستے پر لے گیا۔ کھیرتھر نیشنل پارک کا راستہ میرے گھر سے محض 60 کلومیٹر پر محیط ہے۔ ایک رات میں نے رختِ سفر باندھا اپنی سالوں کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کہ اب جو سحر آئے گی، وہ کھیرتھر نیشنل پارک میں آئے گی۔۔ بس پھر کیا تھا، بالاآخر میں کامیاب ہوا۔ صبح صادق کا وقت کھیرتھر نیشنل پارک میں دیکھنے کا اور رات کے پہر میں کھیرتھر نیشنل پارک گھومنے کا جو لطف آیا، وہ میرے خون میں شامل تھا، کیونکہ میرے دادا کو بھی جنگل میں رات گزارنے کا شوق تھا۔۔ رات کے پہر ہی جنگل آپ سے بات کرتا ہے، اپنا رعب و جوبن دکھاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والوں کے لیے کھیرتھر نیشنل پارک کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ کوشش کریں ایک بار اس نیشنل پارک کی سیر ضرور کریں۔

ایک ایسی ہی سیر کے دوران میرے کیمرے کے سامنے بیٹھا یہ مہمان عقاب جو سر زمین روس سے یہاں سردی گزارنے آیا ہے، اپنے نسل کے ان آخری چند عقابوں میں سے ہے، جو صدیوں سے روس کے برف زاروں سے کراچی کے ان چٹیل و سخت جان پہاڑوں پر اپنی سردیاں گزارنے آتے ہیں۔۔ مجھے آپ کو ہی ان عقابوں کو اور کھیرتھر نیشنل پارک کو بچانا ہے، کیونکہ کھیرتھر کا وجود ہی کراچی کے وجود کا باعث ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close