جی ٹی روڈ علی الصبح سنسان ہے اور اس کے کنارے وقت کی دھول میں چھپتی ’بہرام کی بارہ دری‘ اشوک اعظم کے دور کے اسٹوپاز، شیر شاہ سوری کی ڈاک چوکی پر بھی ویرانی کا ہی ڈیرہ ہے۔ اس شاہراہ سے گزرنے والے چند ہی لوگ ہوں گے، جن کی توجہ یہ مٹتی گرتی تاریخی عمارات حاصل کرتی ہوں گی۔ اکثر لوگ اُن کی طرف نظر اٹھائے بغیر ہی گزر جاتے ہیں۔ ہر آنکھ گہرائی سے دیکھنے والی کہاں ہوتی ہے دوست؟
جرنیلی سڑک کے مشرقی کنارے اشوک اعظم کے دور میں تعمیر کیا جانے والا ایک اسٹوپا اور مچھلی فروشوں کی دکانوں کے قریب سے گزر کر ہم اُس پتھریلے راستے پر ہو لئے ہیں، جو دریا کے کنارے تک جاتا ہے۔ ایک دکان دار نے تو پرانے اسٹوپا پر قبضہ کرکے کواڑ پر قفل لگا رکھا ہے۔ سردی کے موسم میں بڑی تعداد میں لوگ یہاں مچھلی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان دکانوں کے باہر لگے بورڈز پر لکھا ہے ’دریائے سندھ کی تازہ مچھلی دستیاب ہے‘ مگر یہاں اکثر فارمی مچھلی ہی بیچی جاتی ہے۔ نا جانے ہم کیوں جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتے
ان دکانوں کے قریب ہی ”حضرت یحییٰؒ المعروف بابا اٹکی“ (1622ء تا 1722ء) کے مزار کے پیچھے سندھو بڑی شان اور آن سے بہتا ہے۔ عدیل بتانے لگا، ”سر! بابا اٹکی اٹک خورد کے رہنے والے اور ذات کے لوہار تھے۔ آپ بھٹی پر دھاگہ بنانے والے ’تکلے‘ (سوئی کی طرح بارک نوک والی چیز جس سے دھاگہ بنانا) بناتے اور تیز کرتے تھے۔ ایک روز ایک حسین ہندو زادی آپ کی دکان پر آئی اور تکلے تیز کرنے کو کہا۔ آپ نے تکلے تیز کئے تو وہ کہنے لگی؛ ”آپ نے مجھے بری نظر سے دیکھا ہے۔“ یہ سن کر آپ جلال میں آ گئے اور بولے؛ اگر میں نے تمھیں غلط نظر سے دیکھا ہو تو میری آنکھیں اندھی ہو جائیں۔“ یہ کہہ کر آپ نے اس ہندو زادی کے ہاتھ سے تکلے لئے اور اپنی آنکھوں میں اتار کر واپس نکال لئے۔قدرت دیکھیں بینائی پھر بھی باقی رہی۔ سبحان اللہ۔کہتے ہیں کہ یہ منظر دیکھ کر ہندو زادی مسلمان ہو گئی اور آپ دنیا والوں پر ظاہر ہو گئے۔ آپ کی اصلیت معلوم ہوئی تو آپ کی شہرت جلد ہی دور دور تک پھیل گئی۔ لوگ محبت سے آپ کو بابا اٹکی کہنے لگے۔ روایت ہے کہ جب وہ ہندو زادی فوت ہوئی تو اس کے لواحقین اپنے دھرم کے مطابق اس کی لاش کو چتا کرنا چاہتے تھے جبکہ مسلمان اسے دفن کرنے کے آرزو مند تھے۔ اُس کے جسد خاکی کو چتا کرنے کی بھر پور کوشش میں ناکامی پر اُسے دفن کیا گیا۔ 1994ء میں اس درگاہ پر خوبصورت مقبرہ تعمیر ہوا۔
درگاہ سے مزید کچھ فاصلے تک جیپ جاتی ہے۔ اس سے آگے بڑے بڑے پتھر راستے کو بند کئے ہیں۔ صبح کا وقت، تازہ موسم اور سورج کی طلوع ہوتی نرم مہتابی کرنیں بھی نئی نویلی ہیں۔ سندھو کا پانی ان بنفشی کرنوں سے ٹکرا کر صبح کا راگ گا رہا ہے۔
ہم نوک دار پتھروں سے بچتے بچاتے سنبھلتے سنبھالتے سندھو پر پہنچے ہیں۔ بادلوں کے پیچھے سے صبح نمودار ہونے کو ہے۔ دریا اور ارد گرد کا نظارہ بدلنے لگا ہے۔ ہر بدلتا منظر پہلے سے زیادہ دلفریب ہے۔ مغربی سمت سے بہتا دریائے کابل اور شمال مشرق سے بہتے دریائے سندھ کی لہریں نین کا حسن دیکھ کر مچل سی رہی ہیں۔ سندھو کے مشرقی کنارے اٹک کا قلعہ سر اٹھائے کھڑا مغل دور کی یاد دلاتا سورج کی راہ میں جیسے آنکھیں بچھائے ہے۔ ہم سندھو کے خشک کناروں (کم پانی کی وجہ سے اپریل کے آخری دنوں تک سندھو سکڑا بہتا ہے) سے آگے بڑھتے سندھو میں گرے صدیوں پرانے براؤن رنگ کے پتھروں سے گزر کر ایک بڑے پتھر پر چڑھ گئے ہیں۔ سندھو کا پانی اس پتھر سے ٹکراتا سلامی دیتا بہتا ہے۔ نین بھی میرا ہاتھ تھامے ہے۔ بلند ہوتے سورج کی نارنجی کرنوں نے ہلکے بادلوں کے بیچ سے جھانکنا شروع کیا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دریا کی موجوں نے بھی الہڑ مٹیار کی طرح انگڑائی لی ہو۔ پرسکون لہریں بے قرار ہوئیں تو لہروں کے جلترنگ سے لگاان لہروں نے جیسے سورج، نین اور میرا استقبال کیا ہے۔ بلند ہوتے سورج کی سنہری کرنیں جیسے کسی نرم و نازک کنواری الہڑ مٹیار کی طرح سندھو کو اپنے ہی رنگ پہنا رہی ہیں۔ مجھے لگا جیسے سندھو کے پانی پر ان گنت ستارے چمکنے لگے ہوں۔سبحان اللہ۔ میں اس ناقابل فراموش منظر کو کیمرہ کی آنکھ میں قید کر چکا ہوں۔
مجھے سندھو کی سرگوشی سنائی دی، جیسے کہہ رہا ہو؛ ”کیسا لگا میری سہانی صبح کا نظارہ پنجاب میں دیکھ کر۔“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔”سبحان اللہ۔ لاجواب۔“
سندھو کی مغربی سمت سطح زمین سے کم از کم سو(100) فٹ بلند 1979ء میں تعمیر کردہ اٹک برج سے ٹریفک رواں ہے۔ اِس پل سے ذرا ڈاؤن اسٹریم اکبر اعظم کے دور کے بنے پل کے دو ستون پچھلی پانچ صدیوں سے دریا کی تیز لہروں اور وقت کے تنددھارے کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں، مضبوط اور سخت چٹان کی طرح۔۔ میرا تخیل مجھے پانچ صدی قبل کے زمانے میں لے آیا ہے
”نین اور میں کشتی میں سوار دریا کے پار اٹک قلعے جا رہے ہیں۔ سخت گرم موسم کی ہوا بھی گرم ہے۔ دریائی لہریں نین کا حسن دیکھ کر ہیجانی کیفیت میں ہیں۔ کشتی موجوں پر تیرتی دریا کے پار ’ملاحی ٹولہ‘ نامی بستی کو رواں ہے۔ ناؤ کا کھیون ہار پچپن ساٹھ سالہ رحموں بابا گٹھا ہوا جسم، چھوٹی چھوٹی داڑھی، چوڑا ماتھا سانولا رنگ، درمیانہ قد، کالے نین، زندہ دل وہ اسی بستی کا رہائشی ہے، جہاں ہم جا رہے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا؛ ’چاچا! کب سے یہ کام کر رہے ہو۔‘ وہ کہنے لگا؛ ”صاحب! کشتی کھینا میرا خاندانی پیشہ ہے۔ اس سے پہلے میرا باپ یہ کام کرتا تھا، اُس سے پہلے اُس کا باپ۔ نسل در نسل۔ میرے بزرگوں کے مطابق ہم لوگ اکبر اعظم اور بعد کے آنے والے مغل بادشاہوں، شہزادوں کو کشتی میں دریا کے آر پار لایا لے جایا کرتے اور انہیں دریا کی سیر بھی کراتے تھے۔ شاہی کشتی ملاح تھے ہم۔“ رحموں بابا سندھو کے کنارے کنارے کشتی کھے رہا ہے کہ اچانک کچھ شریر لہروں نے اچھل کر ہمیں بھگو دیا ہے۔
موجوں سے کھیلتی کشتی، اٹک قلعہ کے دامن میں آباد اکبری ملاحوں کی بستی ’ملاحی ٹولہ‘ کے کنارے جا لگی ہے۔ ہم کشتی سے اترے اور اکبری دور کے بنے پختہ پلیٹ فارم پر کھڑے ارد گرد کا نظارہ کر نے لگے ہیں۔ ہوا تیز ہے۔ سندھو کنارے سبزے کی لکیر دور تک پھیلی ہے۔ ملاحی ٹولہ بستی پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد ہے۔
کہتے ہیں قدیم دور میں اس کے علاوہ ’اٹک خورد‘ اور ’ملاں منصور‘ کی بستیاں بھی آباد تھیں۔
ہم اس کے گھر سے واپس چل پڑے ہیں۔ گاؤں سے باہر آئے تو عدیل جیپ سمیت موجود ہے۔ میں نے اس سے پوچھا؛ ”عدیل بیٹا! اٹک قلعہ کیسے دیکھ سکتے ہیں۔“ جواب ملا؛ ”سر! کسی فوجی افسر سے رابطہ کریں یا طہٰ صاحب سے بات کریں۔“ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو صبح کے 9 بجے ہیں۔ آسمان پر آئے بادل کافی حدتک چھٹ گئے ہیں البتہ ہوا میں خنکی ابھی باقی ہے۔تھکاوٹ سی محسوس ہو رہی ہے۔ میں جب تک فریش ہو کر آتا، ناشتہ اور طہٰ بھی پہنچ گئے۔ باس اور مشتاق پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہیں۔ باس اور مشتاق کو پتہ چلا کہ ہم سندھو کے چڑھتے سورج کا نظارہ کر آئے ہیں تو ناراض ہوئے۔ میں نے انہیں بتایا؛ ”آپ دونوں کو جگانے آیا تھا مگر آپ لوگ خراٹے لیتے سو رہے تھے، سو آپ کو اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔“ پراٹھوں انڈوں، مرغ چنے، دہی کی لسی کے ناشتے کے دوران ہی اپنے بیٹے احمد کے دوست کرنل ثاقب (اب بریگیڈئیر، بہاول پور تعینات تھے۔ وہ بھی احمد کی طرح مرسیڈیز کے شوقین ہیں اور یہی ان میں دوستی کی وجہ ہے۔) کو فون کر کے اٹک قلعہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے جواب دیا؛ ”میں آپ کو 5 منٹ میں بتاتا ہوں۔“ ناشتے کے دوران ہی اُن کا فون آ گیا؛ں”2 بجے آپ قلعے پہ چلے جائیں میجر احسن سے میرے ریفرنس سے مل لیجئے گا۔“
ناشتے سے فارغ ہو کر جیپسی میں بیٹھے اور دریا کے ساتھ ساتھ اٹک سے ستر (70) کلو میٹر کی مسافت پر واقع ’جنڈ‘ تحصیل کو رواں ہیں۔ اس سمت پنجاب کا آخری قصبہ۔ اس سے آگے سندھو بہتا ہے اور سندھو کے دوسرے کنارے خیبر پختون خوا کا قصبہ خیرا آباد اور ریلوے اسٹیشن ہے۔ جنڈ تحصیل کا گاؤں ’کھنڈا‘ بڑی شہرت رکھتا ہے کہ ملک کے نامور سیاست دان سابق ایم این اے اور اعلی ظرف انسان ملک اللہ یار مرحوم یہیں کے رہنے والے تھے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان نواب کالاباغ ملک امیر محمد خاں کے بھانجے اور 1974ء میں لندن میں منعقد ہونے والی ’نیزہ بازی‘ کے ورلڈ چمپئین ملک عطا محمد اعوان مرحوم کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ مجھے برسوں پہلے کھاریاں میں ہونے والا نیزہ بازی کا مقابلہ یاد آگیا جس کے میزبان میں اور میرا دوست چوہدری عرفان ملوانہ تھے۔ اسی میلے میں ملک عطا سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ کیا شاندار، بارعب شخصیت تھی ان کی۔ لامبا قد، موٹی موٹی آنکھیں، بڑی نوک دار مونچھیں، سر پر بڑی نفاست سے اوڑھی ہوئی بڑی پگ(پگڑی)، بارعب چہرہ، کسرتی بدن نفیس اعلیٰ ظرف انسان، بہترین گھڑ سوار،۔ پی ٹی وی کے ڈرامہ سریل ’الفا، براوو، چارلی‘ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ کچھ عرصہ پہلے اس جہاں فانی سے ابدی جہاں چلے گئے۔ خدا انہیں اور ملک اللہ یار کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
گرمی بڑھ رہی ہے مگر ابھی بھی ہوا میں تازگی ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ابھی بڑے شہروں کی طرخ فضائی آلودگی نہیں پہنچی ہے۔ یہاں مطلع و ماحول صاف اور رات کو تاروں کا جہاں بھی خوب آباد ہوتا ہے۔ ہم ’خیراآباد کند‘ پہنچے ہیں۔ خیر آباد میں سکھوں کے دور کا تعمیر کردہ قلعہ وقت اور ہماری بے حسی کے آگے شکست کھا کر کھنڈر بن چکا ہے۔ سندھو کہنے لگا؛ ”یہاں سے تقریباً 2 کلو میٹر کے فاصلے پر میرے کنارے ایک چٹان پر برطانوی دور کی مختلف رجمنٹس کے نشان کندہ ہیں۔ یہ رجمنٹس زیادہ تر پٹھانوں کے خلاف نبرد آزما رہیں۔ ’5 پٹھان رجمنٹ‘ (جس نے دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں کی جانب سے حصہ لیا تھا) کے شہداء کی یادگار لبِ سڑک بلند چٹان پر واقع مجھے نیچے سے بہتے جھانکتی ہے۔ مزید 1 کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم مجھ پر تعمیر کردہ 2 منزلہ پرانا اسٹیل اسٹرکچر کا پل ہے، جس کے اوپر سے ریل اور نیچے سے سڑک گزرتی ہے، ’اٹک برج‘۔ اسے ‘سر گولڈفورتھ مولزورتھ‘ نے اس اسٹیل اسٹرکچر پل کو ڈزائین کیا اور 1881ء میں برطانیہ کی ’آئی ایس آر ویسٹ وڈ بیلی اینڈ کمپنی‘ نے اس دیو ہیکل پل کی تعمیر کا آغاز کیا جو1884ء میں مکمل ہوا۔ پل کے تعمیر کے آغاز کی تختی مغربی کنارے پر جبکہ تکمیل کی تختی مشرقی کنارے اسٹیل کے ستون سے لگی ہے۔ اس دو سطحی پل کے کل 5 در (سپین) ہیں۔ اوپری حصے سے ٹرین جبکہ نچلی سطح سے سڑک گزرتی ہے۔ 1929 ء میں اس پل کی مرمت کی گئی۔ 1979ء میں اٹک کے نئے پل کی تعمیر کے بعد پرانے پل کا نچلا لیول ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا البتہ پیدل، سائیکل یا موٹر سائیکل سوار آج بھی اسے استعمال کرتے ہیں، گو ان کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ پل کی حفاظت کے لئے اس کے دونوں جانب فرنٹیئر کانسٹبلری کی گارڈ پوسٹ ہیں۔ پہلے اس جگہ پل کی بجائے ’کرنل اے رابرٹسن‘ کی تجویز پرسرنگ بنانے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا اور 1860 ء میں جب اس پر کام شروع ہوا لیکن بار بارسرنگ میں پانی داخل ہو جاتا جس کہ وجہ سے منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ بہتر منصوبہ بندی سے اس مقام پر پل بنانے کا کام 1881ء میں شروع ہوا۔ دوست اس پل کو پیدل پار کر کے میرے مغربی کنارے جاؤ تو 1884ء کا تعمیر کردہ اٹک ریلوے اسٹیشن دیکھ کر دنگ رہ جاؤ گے اور تصور کرو گے کہ جیسے تم انیسویں صدی کے انگلستان چلے آئے ہو۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔