ایم کیو ایم کی ڈیلوں کی ڈھیلی ڈھالی تاریخ اور موجودہ حالات

نیوز ڈیسک

کراچی – متحدہ قومی موومنٹ گذشتہ چونتیس سالوں میں تقریباً ہر بار وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے اور ”ملک کے وسیع تر مفاد میں“ آئندہ حکومت کا بھی حصہ بننے کا ارادہ رکھتی ہے

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سے قبل اس کو پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں سے ہی شراکت داری کا تجربہ رہا ہے

جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد 1988ع کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد عرف آئی جی آئی دونوں کے لیے ایم کیو ایم اتنی ہی اہم تھی، جتنی موجودہ دنوں میں ہے

اُس وقت اس کے پاس تیرہ نشستیں تھیں اور موجودہ وقت قومی اسمبلی میں اس کے پاس سات نشستیں ہیں، حکمران تحریک انصاف اور متحدہ اپوزیشن سے مذاکرات کے کئی دوروں کے بعد انہوں نے بالآخر حزب اختلاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کم نشستوں رکھنے والی جماعت ہونے کے باوجود اس نے اچھی ڈیل حاصل کر لی ہے، اگر اُنہیں پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت مل بھی جائے تو وہ چند مہینے کے لیے ہوگی یا سال بھر کے لیے ہوگی، اس کے بعد الیکشن ہونے ہیں۔ تحریک انصاف اس میں کیا دے سکتی ہے؟ بنیادی طور پر ایم کیو ایم نے آگے کے بلدیاتی الیکشن اور اس کے بعد عام انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے

’وہ اپنے ووٹر کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص میں سیاسی ایڈمنسٹریٹر ہوں گے۔ اسی طرح ملازمتوں میں جو 40 اور 60 کی شرح کا فارمولا ہے اس پر کمیٹی قائم ہوگی، جو اس پر عمل کروائے گی۔ بلدیاتی قانون میں ترمیم پر پہلے ہی سپریم کورٹ کا حکم بھی آ چکا ہے، وہ اس صورتحال میں یہ تصور لے کر انتخابات میں جانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ایک سیاسی فتح حاصل کی ہے اور ماضی کے مقابلے میں کمزور ہونے کے باوجود بھی ہمیں ایک اچھی ڈیل ملی ہے“

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں ”ایم کیو ایم کی ایک حقیقی حکمت عملی نظر آتی ہے، ان کی پورے پاکستان میں تو جگہ نہیں ہے کہ وہ پنجاب، بلوچستان یا کے پی میں ان کا ووٹ بینک ہو جس کو وہ بحال کرنا چاہتے ہوں“

انہوں نے کہا ”2018ع کے انتخابات میں کراچی میں جو وہ سیاسی میدان گنوا بیٹھے تھے، وہ اس صورت میں بحال ہوسکتا ہے اگر وہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے لوگوں کو بتائیں کہ اب یہ معاہدہ ہو گیا اس سے ہمیں اختیارات مل جائیں گے، کراچی کی جو سیاست ہے اس میں ان کے لیے بہترین گارنٹی یہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے پاس نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے پاس جائیں کیونکہ عام انتخابات میں مشکل ہے کہ تحریک انصاف سندھ سے کچھ حاصل کر پائے، اس لیے بہتر ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیل کریں“

ایم کیو ایم 1987ع کے بلدیاتی انتخابات سے لے کر 2015 کے انتخابات تک کراچی میں خاص طور پر مستفید ہوتی رہی ہے، جس سے اس کا سیاسی اور انتظامی گرفت مضبوط ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی تو 2002ع کے الیکشن کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا اور اس کے بعد اس کے دور میئر کامیاب ہوئے، موجودہ صورتحال میں عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات مجوزہ ہیں

سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ 2018ع کے انتخابات میں اس کی نشستیں”چھینی“ گئی تھیں

’اس وقت تحریک انصاف کی کراچی میں کافی صورتحال خراب ہے اس کے باوجود ان کے سامنے تحریک انصاف، تحریک لبیک، جماعت اسلامی ہوگی لہٰذا ایم کیو ایم نے سندھ کی شہری سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے ساتھ میں وہ ن لیگ کے ساتھ وسیع تر سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں، جو آگے انتخابات کے حوالے سے تشکیل پا رہا ہے۔‘

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں ”کراچی کی سیاست کافی اوپن ہو گئی ہے اب تحریک انصاف نے اپنا سپورٹ بنایا ہے پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک کا سیاسی اثر بڑھ رہا ہے اس کے علاوہ جماعت اسلامی، پی ایس پی ہے، اب وہ دور نہیں رہا جب صرف ایم کیو ایم نظر آتی تھی، اب ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا“

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں پچھلے دنوں کافی کشیدگی رہی، جس کے بعد دوبارہ نام نہاد علیحدہ صوبے کے مطالبات اور لسانی سیاست بحال ہوئی، اس صورتحال میں ایم کیو ایم نے اپنے ووٹ اور سپورٹ بینک کو متحدہ اور منظم کرنے کی کوشش کی

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اس عرصے میں اپنے لوگوں کو کچھ ملازمتیں دلوا دیتی ہے، بلدیاتی اداروں کے حوالے سے کچھ چیزیں کر لیتے ہیں پھر وہ اپنے حلقوں کے لوگوں کو قائل کر پائیں گے وہ الیکشن سے پہلے کچھ ڈلیور کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر مرکزی حکومت کے ساتھ رہتے تو اس کے منصوبوں سے ووٹر کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا، اس لیے ملازمت کے حوالے سے ترقیاتی منصوبے کے حوالے سے کچھ کام کر لیتے ہیں یقیناً اس کا اثر پڑے گا

تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ووٹر کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت کا تعاون درکار ہوگا۔ سیوریج، پانی، سڑکوں کا معاملہ اختیارات کی منتقلی، کوٹہ سسٹم پر عمل ہوتا ہے تو ایم کیو ایم کی ساکھ برقرار رہے گی ورنہ دوبارہ سیاسی تنازع جنم لے گا کیونکہ ترقی کے بغیر کوئی بھی نعرہ ایم کیو ایم کو عوام کے ساتھ جوڑ نہیں سکتا

ڈاکٹر فرحان کہتے ہیں ’الطاف حسین کی سپورٹ ختم نہیں ہوئی ایم کیو ایم خود کو الطاف حسین کے بغیر ری برانڈ کر رہی ہے اور وہ مہاجر نعرے لگا کر انتخابات کے لیے لوگوں کو جوش دلا رہے ہیں یہ نعرہ لگانے کی وجہ بلدیاتی اداروں کی کمزوری، صفائی، تعلیم صحت کے اشوز ہیں۔‘

ایم کیو ایم ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے تحریری معاہدے کرچکی ہے، حکومت سے علیحدگی کے وقت ہر بار وعدے شکنی کے شکوے کیے گئے ہیں اس بار بھی اس معاہدے کی شکل تحریری ہے

مظہر عباس کہتے ہیں ”اس بار شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل ضامن ہیں“

ڈاکٹر توصیف احمد کا ماننا ہے کہ سندھ کی ترقی کسی حد تک اس وقت ممکن ہے جب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے ہو، بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں سے ایسا کچھ نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، ان کی جو انڈرسٹینڈنگ ہے یہ ان کے لیے اخری موقع ہے

ڈاکٹر فرحان کہتے ہیں ”پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اگر گذشتہ آٹھ سال میں اتفاق رائے پیدا کر لیتے تو آج اُنھیں اس عدم اعتماد کی تحریک میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، وہ آسانی سے ایم کیو ایم کی حمایت لے لیتے اور ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کی اتحادی نہیں بنتی ہے لہٰذا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں کے لیے سبق ہے“

کراچی میں تقریباً تیس سالوں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا ایڈمنسٹریٹر آیا، شہری اداروں میں اس کا اثرو رسوخ بڑھا اور بلدیاتی انتخابات کے لیے صف بندیوں کے علاوہ مزید اضلاع بنا کر نئی حلقہ بندیاں بھی کیں تو کیا وہ کراچی سے اپنی گرفت ڈھیلی کر لے گی؟

اس حوالے سے مظہر عباس کا کہنا ہے ”ایم کیو ایم کی پیپلز پارٹی سے تکرار بنتی نہیں ہے کیونکہ کراچی اور حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے اتنے سٹیک نہیں ہیں جتنے ایم کیو ایم کے ہیں۔ اگر آپ نے صوبائی حکومت کو جاری رکھنا ہے وفاقی حکومت میں اپنا کردار بڑھانا ہے تو آپ بلدیاتی حکومت چھوڑ سکتے ہیں، اس لیے شہری سندھ میں آصف علی زرداری کو اپنا کردار کم کرنے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔“

وہ کہتے ہیں کہ ”اگر وفاقی حکومت بن جاتی ہے صوبائی حکومت جاری رہتی ہے ایم کیو ایم کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بنتی ہے ان کے نکتہ نگاہ سے اس میں کوئی بڑا نقصان نہیں ہے۔“

ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں ”پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے شہری ترقی کا عمل ہوگا تو پیپلز پارٹی کا امیج بنے گا جو پنجاب اور کے پی میں یہ کام آئے گا“

بلدیاتی اداروں اور کوٹہ سسٹم کے علاوہ ایم کیو ایم کا ایک دیرینہ مطالبہ ”جبری گمشدہ“ کارکنوں کی بازیابی اور بند دفاتر کھولنے کی اجازت ہے، یہ شکایت 2013ع سے جاری ہیں، جب مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہوا، ایم کیو ایم کی قیادت مسلم لیگ نون اور اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے وہ یہ مطالبات کرتی آئی ہے

مظہر عباس کہتے ہیں ”ایم کیو ایم کے اسٹبشلمنٹ سے جو تعلقات ہیں یا اسٹیبلشمنٹ جس طرح سے ایم کیو ایم سے ڈیل کر رہی ہے اس فیصلے میں تو اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی ہے تاہم انہیں سیکٹر آفس یا یونٹ آفس کھولنے کی اجازت نہیں“

مظہر عباس نے کہا ”نائن زیرو کا مطالبہ انھوں نے نہیں کیا تاہم جناح گراؤنڈ کا وہ مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی“

ڈاکٹر فرحان صدیقی کا کہنا ہے ”سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے جو خدشات ہیں وہ شاید برقرار رہیں اس میں بنیادی کردار الطاف حسین کی 2016 والی تقریر تھی، جب تک ایسی رپورٹس نہیں آ جاتیں جس سے ایجنسیاں مطمئن نہ ہوں اس کی اجازت ملنا دشوار ہے“

ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں ”ن لیگ کے جو دونوں آپریشن ہیں اس میں صنعت کاروں، تاجروں اور عام شہریوں کی شکایت تھی کہ شہر میں اب حکمرانی نام کے چیز نہیں رہی یہ رہنے کے قابل نہیں رہا پھر ریاست نے اس کا اسی طرح جواب دیا تھا کراچی کو ایم کیو ایم کی نگاہ سے ہٹ کر بھی دیکھنا پڑے گا، وہاں جو کاروبار کرتے ہیں اور رہتے ہیں ان کے لیے زندگی عذاب بن گئی تھی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close