دنیا کے ہر معاشرے میں دو قسم کے ذہین لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو نئی ایجادات کرتے ہیں، دوسرے وہ جو اپنی ذہانت اور لیاقت کو جعلسازی میں استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ افراد انسانی فطرت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
جعلسازی کی ایک مثال ہم جھوٹی تاریخی دستاویزات، مخطوطات، ڈائریوں اور خطوط کی دے سکتے ہیں، جس کو لِکھ کر اور مرتب کر کے جعلساز سیاسی و سماجی جرائم کے مُرتکب ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈونیشن آف کُونسٹنٹائن، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب 313 عیسوی کو کونسنٹنٹائن مسیحی ہو گیا تو اُس نے مسیحیت کو ریاست کا مذہب بنا دیا۔ اس موقع پر اُس نے بحیثیت مسیحی حکمراں، پوپ کے نام ایک دستاویز لکھی، جس میں اُسے یہ حق دیا کہ وہ مغربی یورپ کے حکمرانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس دستاویز کی بنیاد پر پوپ یورپ کے حکمرانوں کی سیاست میں مداخلت کرتا رہا۔
رینے ساں کے عہد میں لورینزو وِلا (1457) جو ایک ماہر لسانیات تھا اُسے پوپ نے ویٹیکن لائبریری کا انچارج بنا دیا۔ اُس نے جب ڈونیشن کی عبارت کا مطالعہ کیا تو اُس نے اعلان کر دیا کہ یہ ایک جعلی دستاویز ہے۔ چونکہ اس کی زبان اور عبارت تیسری صدی عیسوی کے بجائے آٹھویں صدی عیسوی کی ہے۔ کیونکہ جس نے یہ جعلی دستاویز لکھی تھی اُس نے اپنے عہد کی زبان میں اُسے لکھ دیا۔ لیکن جب لِسانیات کے علم میں ترقی ہوئی تو اُس کے ماہرین زبان کی تبدیلی کو سمجھنے لگے۔
لسانیات کے علم کی وجہ سے پرانے مخطوطات اور دستاویزات کی بھی تدوین کی گئی۔ کیونکہ کاتب نے نقل کرتے وقت بیچ بیچ میں اپنی رائے بھی دے دی تھی۔ اب لسانیات کے ماہرین اصلی اور جعلی عبارت کو سمجھ لیتے ہیں۔ اور مسوّدے کی ایڈیٹنگ کرتے وقت جعلی عبارت کو حاشیے پر یا Foot Note میں دے کر مسوّدے کی اَصل شکل کو قائم رکھتے ہیں۔
جعلسازی کی اور بھی کئی شکلیں ہیں۔ کیونکہ ہندوستان میں جب وسط ِ ایشیا، ایران اور عرب سے مہاجرین آتے تھے، تو یہ خود کو اعلیٰ خاندان اور اعلیٰ سماجی درجہ دینے کی غرض سے افغانستان میں اُن جعلسازوں سے مِلتے تھے جو جعلی شجرے بناتے تھے۔ ہندوستان آ کر ان شجروں کی مدد سے یہ اعلیٰ منصب بھی حاصل کرتے تھے اور مسلمان معاشرے کے باعزت رُکن بھی بن جاتے تھے۔
بہرحال جعلسازی کی تحریریں لکھنا آسان کام نہیں۔ اس کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ جعلی عبارت لکھنے والا نہ صرف اپنے عہد کے سیاسی حالات سے واقف ہو بلکہ اُس کی زبان بھی ماحول کی عکاسی کرتی ہو۔ مثلاً بابر بادشاہ کے علاوہ جہانگیر بادشاہ نے بھی اپنی تُوزک لکھی تھی۔ لیکن اس اصلی تُوزک کے علاوہ جہانگیر کی ایک جعلی تُوزک بھی ہے۔ اس میں مصنف نے خود کو جہانگیر بادشاہ بنا کر اپنے عہد کے واقعات لکھے ہیں۔ اگرچہ اس کا جعلی ہونا تو ثابت ہو گیا مگر مؤرخوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس میں بیان کیے ہوئے واقعات درست ہیں۔ اس لیے اُن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور میں مشہور لوگوں کی جعلی ڈائریاں سامنے آئیں ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جب کسی بادشاہ یا راہنما کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو اُس کی موت پر یقین نہیں آتا ہے۔ مرنے والے کی مقبولیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کے نام پر کئی جعلی لیڈر پیدا ہوئے۔
رُوس کی ملکہ کیتھرین دی گریٹ (1796) نے ایک شخص جس کا نام پوگو چوف تھا، اُس نے یہ دعوٰی کیا کہ وہ اُس کا شوہر ہے۔ اُسے قتل نہیں کیا گیا تھا۔ اور وہ زندہ ہے۔ اُس کی بغاوت کو کیتھرین نے سختی سے کُچل کر اُسے قتل کی سزا دی۔ اگر کسی مقبول راہنما کی موت کا کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔ مگر اُس کے بارے میں یہ افواہیں گردِش کرتی ہیں کہ وہ زندہ ہے اور اپنے آپ کو چھپا کر رکھا ہے۔ یہ بات سُبھاش چندر بوس کے لیے کہی جاتی تھی، جو جہاز کے ایک حادثے میں فوت ہوگئے تھے۔ مگر کسی نے انہیں بنگال کے دُوردراز گاؤں میں دیکھا اور کسی نے اُنہیں مندر میں بیٹھا ہوا پایا۔
ہندوستان کے مشہور مؤرخ ”پرتھا چِٹر جی‘‘ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے۔ “The Imposter” یہ بنگال کے ایک جاگیردار خاندان کی داستان ہے۔ اس کا سربراہ کسی سفر پر روانہ ہوا۔ تو ایک عرصے تک اُس کی کوئی خبر نہ آئی۔ پھر یہ افواہیں آئیں کہ اُس کی وفات ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد ایک شخص نے یہ دعوٰی کیا کہ وہ مَرا نہیں بلکہ وہ زندہ ہے۔ اور اُسے اُس کی جاگیر دی جائے۔ اُس کی بیوی نے اُسے اپنا شوہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جائیداد کا مُقدمہ عدالت میں چلا جہاں اُس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہی جائیداد کا اصل مالک ہے۔
جعلسازی نہ صرف آرٹ میں ہوتی ہے بلکہ مجسموں کو بھی قدیم بنا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ جہانگیر کو آرٹ سے بہت دلچسپی تھی اس لیے وہ یورپی سیاحوں سے پینٹنگ منگواتا تھا۔ ایک بار اُسے جب ایک یورپی آرٹسٹ کی پینٹنگ پیش کی گئی تو اُس نے اپنے دربار کے ایک مُصوّر سے کہا کہ اس کی نقل تیار کرو۔ جب وہ نقل تیار کر کے لایا تو یورپی سیاح بھی اَصل اور نقل میں فرق نہ کر سکا۔
مجسمہ تراش کسی تاریخی شخصیت کا مجسمہ بناتے ہیں تو پھر اُس کو پرانا ثابت کرنے کے لیے زمین میں دفن کر دیتے ہیں تا کہ اُس میں قدیم ہونے کے نشانات ظاہر ہو جائیں۔ ان مجسموں کو یہ Museums اور اُن شخصیات کو بیچتے ہیں جنہیں تاریخی اشیا سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ جعلسازی اس قدر عام ہو گئی ہے۔ کہ اب لوگ ان کے دھوکے میں نہیں آتے ہیں۔
عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں جعلسازی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ یورپ کے چرچوں نے (Churches) عبادت گزاروں کے لیے اولیا کے تبرکات رکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس پر جعلسازوں کا ایک گِروہ پیدا ہو گیا۔ جس نے اولیا کی قبریں کھود کر اُن کی ہڈیاں نکال کر چرچوں کو بیچنا شروع کر دیں۔ یہ جعلسازی اس قدر بڑھی کہ ایک ولی کے تین سَر فروخت کئے گئے۔ ایک دوسرے ولی کے چار ہاتھ فروخت کیے گئے۔ یہ کاروبار اس قدر بڑھا کہ یورپ کے ہر چرچ میں بڑے بڑے مرتبانوں میں اِن اولیا کی ہڈیاں رکھی ہوئی ہیں۔ لوگ عبادت گزار اِن کی زیارت کرتے ہیں۔ اگرچہ اب یہ کاروبار ختم ہو گیا مگر اس کے اثرات آج بھی جاری ہیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)