زندگی میں اولاد کو جائیداد منتقل نہ کریں!

راؤ منظر حیات

انسانی شخصیت کے ان گنت پہلو ہوتے ہیں۔  دراصل انسان کا ذہن، ایک الماری کی طرح ہوتا ہے، جس کے اندر خانے ہی خانے ہوں۔ کئی بار تو یہ بھی معلوم نہیں پڑتا کہ ان خانوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ شخصیت میں حد درجہ تبدیلیاں آتی ہیں، جو انسان کو کیا سے کیا بنا ڈالتی ہیں۔

انسانی زندگی بذات خود ایک ایسی گتھی ہے، جسے سلجھانا حد درجہ مشکل ہے۔ متعدد بار سلجھاتے سلجھاتے انسان اپنے آپ کو نئی مشکل میں ڈال لیتاہے۔ پختہ عمر کچھ ایسے اصول ضرور سمجھا دیتی ہے، جو اوائل عمری میں پلے نہیں پڑتے۔ اگر ان قوانین کو جلد اپنا لیا جائے، تو کئی مصائب سے بچا جا سکتا ہے، مگر ہم زندگی گزارتے گزارتے صرف سانس لیتے ہیں، اکثریت کسی اصول کے نزدیک نہیں جاتی۔ متعدد بار ہم اپنی ذاتی عادات کو اس پیرائے میں ڈھال نہیں پاتے، جو لمبے عرصے کے لیے مفید ہوں۔ پہلے بنیادی امور کی بات کر لی جائے تو بہتر ہے۔

انسان کی زندگیوں میں اولاد کو حد درجہ اہمیت حاصل ہے۔ معاشرے میں اپنے بچوں سے والدین لافانی محبت کرتے ہیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ انس دو طرفہ ہے یا یک طرفہ۔۔ سماج پر باریکی سے نظر ڈالیے تو اکثر اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے بچے بڑے ہونے شروع ہو جاتے ہیں، اس دو طرفہ محبت میں تبدیلی آنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ جوہری طور پر یک طرفہ نظر آتی ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ تمام تر معاملات ایسے ہی ہیں، مگر اکثر اوقات یہ یگانگت اس جذبہ سے واپس محسوس نہیں ہوتی، جو ماں باپ کو اولاد سے ہوتی ہے۔ اس کا ایک مشاہدہ پیش کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔

ملتان میں میرے والد محترم کے ایک دوست تھے۔ والد محترم کی وفات کے بعد میرے بھی دوست اور برادرم بن گئے۔ رئیس آدمی ہیں، چھیانوے برس عمر کے مالک ہیں۔ مکمل طور پر تندرست ہیں، چلتے پھرتے ہیں، ہنستے ہیں، خوش رہتے ہیں، خدا نے انھیں بہت نوازا ہے۔

دو ماہ پہلے گھر تشریف لائے تو حد درجہ پریشان تھے۔ تھوڑا سا جھک کر بھی چل رہے تھے۔ پوچھا کہ میاں صاحب کیا حال ہے۔ تو روایتی جواب دینے کے بعد کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں حیران رہ گیا۔

اس لیے کہ وہ تو بڑے خوش باش اور مضبوط انسان ہیں۔ پھر کیا ہوا، پوچھا تو بتانے لگے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کے نام کافی عرصہ پہلے جائیداد لگا دی تھی۔ ہر بیٹے کو تقریباً ڈیڑھ سو کروڑ کی زمین، گھر، مارکیٹ اور دیگر قیمتی اشیاء تحفہ میں تقسیم کر دی تھیں۔ بیٹے اپنا بھی کاروبار کرتے تھے۔ والد کی دولت ملنے کے بعد مزید بڑے کاروباری ہو گئے۔

میاں صاحب کے بقول، جائیداد ملنے کے بعد بچوں کا رویہ ان سے تھوڑا سا تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے تو بچوں نے اپنے والد کو کہا کہ آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، ذاتی طور پر کاروبار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کی تو عبادت کرنے اور آرام کرنے کی عمر ہے۔ دراصل میاں صاحب کا ایک حد درجہ چلتا ہوا پٹرول پمپ تھا۔ اس سے کافی آمدنی آتی تھی۔ پیرانہ سالی کے باوجود میاں صاحب روزانہ پٹرول پمپ پر گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ اس طرح وقت بھی بہت عمدہ گزرتا تھا اور دل بھی لگا رہتا تھا۔ ویسے بڑھاپے میں موت کا انتظار کرنے کے بجائے، کوئی کام کرنا بہت احسن بات ہے۔ میاں صاحب کے چند پرانے دوست بھی آ جاتے تھے اور خوش گپیاں بھی لگتی رہتی تھیں۔

خیر میاں صاحب نے بیٹوں کا مشورہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ تواتر سے پٹرول پمپ جاتے رہے۔ ایک دو ہفتے گزرے۔ تقریباً گیارہ بجے پمپ پر پہنچے تو انھیں وہاں بالکل نیا بلکہ اجنبی عملہ نظر آیا۔ میاں صاحب کسی کو بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ ازحد پریشان ہو گئے۔ وہاں منیجر بھی نامعلوم انسان کھڑا ہوا تھا۔

میاں صاحب نے کہا کہ آپ تمام لوگ کون ہیں۔ یہ پٹرول پمپ تو میرا ہے، اس کا مالک ہوں۔ کس کی اجازت سے آپ لوگ یہاں موجود ہیں۔ عملہ بھی دم بخود رہ گیا کہ یہ بوڑھا آدمی کون ہے۔ جو کہہ رہا ہے کہ جائیداد اس کی ہے۔ جواب ملا کہ یہ پٹرول پمپ صرف ایک ہفتہ پہلے خریدا گیا ہے۔ میاں صاحب ششدر رہ گئے کہ پمپ ان کا، جائیداد ان کی، پھر کیسے بیچی جا سکتی ہے۔

معلوم کیا تو واقعی پراپرٹی تو بک چکی تھی۔ میاں صاحب ایک اہم ترین نکتہ یاد رکھنے میں چوک گئے۔ یہ پٹرول پمپ وہ اپنے بیٹوں کے نام کر چکے تھے اور اس منتقلی کو چالیس برس ہو چکے تھے۔ میاں صاحب کو غصہ تو خیر بہت آیا مگر دکھ اس قدر شدید ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ بیٹوں نے والد کی جائیداد ان سے بغیر پوچھے بیچ دی تھی۔

میاں صاحب گھر گئے، سامان اٹھایا اور اپنے بھانجوں کے فلیٹ میں منتقل ہو گئے۔ قیامت یہ کہ جو شخص مرسٹڈیز کار سے نیچے کوئی گاڑی استعمال نہ کرتا ہو، اس کے پاس ذاتی سواری تک نہ رہی۔ بیٹوں نے ان کے پاس قیمتی گاڑی بھی نہ رہنے دی۔ یہ واقعہ بتاتے ہوئے میاں صاحب بچوں کی طرح رونا شروع ہو گئے، ہچکی بندھ گئی۔

خود میری آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ خیر دلاسہ دیا۔ اٹھتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا ایک نصیحت کروں گا، جائیداد اپنی زندگی میں کبھی اولاد کے نام نہ کرنا۔ پراپرٹی پر قانونی حق انھیں کا ہوتا ہے، مگر یہ سب کچھ باپ کی وفات کے بعد ہونا چاہیے۔ اگر والد سمجھدار ہے تو اسے یہ کام ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ میاں صاحب اوبر پر آئے تھے۔ واپسی پر کرایہ پر چھوٹی سی گاڑی منگوائی اور چلے گئے۔

میاں صاحب کے واپس جانے کے بعد اسٹڈی میں بیٹھ کر خاموشی سے انسانی ذہن اور متضاد رویوں کے متعلق سوچتا رہا۔ انسانی شخصیت میں کتنے زیادہ جھول اور گرداب ہیں۔ کیا اولاد بھی اپنے بوڑھے والدین کو دربدر کر سکتی ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے کہ والدین نے انھیں دنیا کی ہر نعمت مہیا کی ہے۔ سوچتے ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے۔

ایسے لگا کہ اس سفاک المیہ پر نہ کبھی سوچ بچار کی ہے اور نہ کبھی تحقیق۔۔ اس انسانی رویے کو سمجھنے کے لیے ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس سے رابطہ کیا۔ پوچھا کہ پوری زندگی میں والدین نے کتنے ایسے معاملات دیکھے ہیں، جن میں اولاد نے والدین کو جائیداد کی خاطر بے گھر کر دیا تھا۔ جج صاحب ایک صوبہ میں ہائی کورٹ کے طویل عرصہ تک چیف جسٹس رہے ہیں۔

انھوں نے تھوڑے توقف سے جواب دیا کہ میں نے اس طرح کے ان گنت مقدمات سنے ہیں، ان کا فیصلہ بھی کیا ہے، جس میں اولاد نے تمام جائیداد حاصل کرنے کے لیے اپنے بزرگوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم کیا تھا۔ بلکہ یہ کہا کہ یہ تو ہر پانچویں یا چھٹے گھر کی کہانی ہے۔ سماجی روایات کے ٹوٹنے کے بعد اولاد تو کئی بار یہ چاہتی ہے کہ والد سے ہر قیمتی چیز ہتھیا کر خود اس کی مالک بن جائے۔

متعدد ایسے کیس ہیں، جن میں بچوں نے والد کو گھر سے دربدر کر ڈالا اور وہ کسی جگہ رشتہ دار عزیز کے گھر، سر چھپانے پر مجبور ہو گیا یا کرایہ کے مکان میں رہنا شروع کر دیا۔ جج صاحب کو میں نے میاں صاحب کی نصیحت سنائی۔ توانھوں نے برملا کہا کہ یہ حد درجہ عمدہ اور اہم نکتہ ہے کہ اپنی زندگی میں اولاد کو اپنی جائیداد کا مالک نہ بناؤ۔ یہ ایک سنگین غلطی ہے، جسے کسی بھی سیانے انسان کو ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

والدین، جن کے لیے اولاد اپنا سب کچھ قربان کر سکتی ہے، وہ اپنے والد کو ضعیف عمری میں دکھ پہنچانے جیسا قبیح فعل بھی کر سکتی ہے، دل نہیں مانتا۔۔ لیکن جب اردگرد انسانوں کے ٹوٹتے ہوئے رویے دیکھتا ہوں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتا ہے۔

اولاد کے لیے انسان کیا نہیں کرتا، کون کون سے مصائب سے نہیں لڑتا اور اگر وہی اولاد انسان کو دھوکا دے جائے تو پیچھے کیا باقی رہ جاتا ہے۔۔ کیا واقعی جائیداد اتنی اہم ہے کہ اپنا خون بھی سفید ہو سکتا ہے۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پورا سماج شدید شکستگی کا شکار ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت اتنی پیچیدہ ہے کہ کسی کے متعلق کچھ بھی وثوق سے کہنا حد درجہ مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے اور پھر ایسی اولاد کے متعلق ایسا سوچنا، حقیقت حد درجہ تلخ ہے اور ہو تو اس سے کسی قسم کا کوئی مفر نہیں۔ میاں صاحب یا ان جیسے لاتعداد لوگوں کے دکھوں کو سننے کے بعد اس سچ کو ماننا پڑتا ہے کہ اولاد کو ہر طرح کی سہولت دیں، انہیں بہترین کاروبار میں معاونت کریں۔ ان کی ہر طور پر دیکھ بھال کریں۔ یہ آپ کا فرض اوران کا حق ہے، مگر دانائی کا تقاضہ ہے کہ اپنی زندگی میں جائیداد ان کے نام نہ کیجیے۔ آنکھیں موندنے کے بعد تو ویسے بھی سب کچھ انہی کا ہے!

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close