جب دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے مابین چھڑنے والی سرد جنگ میں دونوں بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک کو اپنے اپنے کیمپ میں لانے کے لیے طرح طرح سے رجھا رہی تھیں تو اس دباؤ سے تنگ آ کے انیس سو پچپن میں سوئیکارنو کی دعوت پر تیسری دنیا کے چوٹی کے رہنما انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ میں جمع ہوئے۔
انھوں نے منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مرکزی کردار کی طرح فیصلہ کیا کہ وہ اس سرد جنگ میں امریکا کی یا سوویت یونین کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبداریت کے درخت پر رہیں گے۔
نعرہ اچھا تھا مگر اس تحریک کے بیشتر رہنماؤں اور ممالک کا جھکاؤ غیر اعلانیہ طور پر یا تو سوویت کیمپ کی جانب تھا یا پھر مغربی کیمپ کی جانب۔ آپ چاہیں تو اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے غیر جانبدار تحریک کے رکن ممالک کی سوویت و امریکا نواز فہرست دیکھ لیں۔
غیر جانبدار تنظیم انیس سو اکسٹھ میں سابق یوگو سلاویہ کے مردِ آہن مارشل ٹیٹو کی میزبانی میں قائم ہوئی۔ نمایاں مہمانوں میں سوئکارنو، جمال ناصر، نکروما اور نہرو تھے۔ یہ تنظیم بہت تیزی سے مقبول ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم بن گئی، جس میں ایک سو بیس ممالک بطور ممبر، سترہ ممالک اور دس بین الاقوامی تنظیمیں بطور مبصر شامل ہوئیں۔ اس تنظیم کی انیس سو اسی کی دہائی تک بہت دھاک تھی، مگر پھر شاید اس کا حجم ہی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا چلا گیا۔
نوے کی دہائی میں سرد جنگ ختم ہو گئی تو غیر جانبدار تحریک کا نام بھی الگ تھلگ ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ گزشتہ روز یہ خبر سن کے میں اچھل پڑا کہ اس تنظیم کا وجود نہ صرف برقرار ہے بلکہ آنے والے جنوری میں غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کی کانفرنس یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں ہو رہی ہے۔
بلاک سیاست رہی نہ سوویت یونین رہا۔ چین اور امریکا کی کش مکش دو نظریاتی طاقتوں کے بجائے دو سپر پاورز کی اقتصادی رسہ کشی ہے۔ چنانچہ غیرجانبدار تحریک بزرگوں کی یادگار کے طور پر آج بھی سانس لے رہی ہے تو بڑی بات ہے۔
ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو ایک خاص نظریاتی، اسٹرٹیجک، سیاسی ماحول میں قائم ہوئیں اور جب زمانہ و ترجیحات بدلیں تو بے دم ہو گئیں۔ مثلاً پہلی عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی لیگ آف نیشنز ہو کہ جس کی راکھ سے اقوامِ متحدہ نے جنم لیا، یا پھر سرد جنگ کے سبب قائم ہونے والے سیٹو، سینٹو اور وارسا پیکٹ جیسے اتحاد ہوں۔
عرب لیگ اگرچہ اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے پرانی تنظیم ہے لیکن یہ کبھی بھی کوئی ٹھوس نقش نہیں چھوڑ سکی۔ یہی حال اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا ہے۔
ہمارے خطے میں ساٹھ کی دہائی میں پاکستان، ایران اور ترکی کی تنظیم آر سی ڈی کے تحت کئی اقتصادی منصوبے شروع ہوئے۔ آج واحد نشانی کراچی تا کوئٹہ آر سی ڈی ہائی وے ہے۔ نئی نسل آر سی ڈی کے بارے میں صرف درسی کتابوں کی حد تک جانتی ہے۔
انیس سو اسی کی دہائی میں سارک کو جنوبی ایشیا میں بطور گیم چینجر متعارف کروایا گیا۔ خطے میں تعاون کے امکانات اچھے خاصے تھے، مگر اس کی افادیت بھارت اور پاکستان کی ضد بحث کی نذر ہو گئی۔
واحد ترکہ سارک یونیورسٹی کی شکل میں سانس لے رہا ہے یا پھر سارک کے چھوٹے ارکان نے کچھ عرصے کے لیے شہریوں کو ویزا میں تھوڑی بہت باہمی رعائتیں دیں۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے اور شنگھائی تعاون کونسل کے ہوتے سارک کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان اور بھی کم ہو گیا۔
اس وقت جو اجتماعی تنظیمیں واقعی فعال ہیں، ان میں سرِ فہرست ناٹو، یورپی یونین، او ای سی ڈی، جی سیون، جی ٹوینٹی، افریقی اتحاد کی تنظیم او اے یو، خلیج تعاون کونسل اور آسیان قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی فعالیت کا راز ٹھوس مشترکہ اقتصادی و اسٹرٹیجک مفادات ہیں۔
گویا بیسویں صدی کی نظریاتی دنیا کے برعکس اکیسویں صدی میں دشمنی و تعاون کا معیار معاشی مسابقت اور یہ بنیادی سوال ہے کہ ’’مجھے اس اتحاد کا رکن بننے سے کیا کیا اقتصادی و دفاعی فائدہ ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس کے سربراہ اجلاس نے میڈیا کی خاصی توجہ حاصل کی اور یہ سوالات اٹھائے گئے کہ کیا یہ اتحاد ایک نیا مالیاتی نظام تشکیل دے کے مغرب کے زیرِ نگیں موجودہ بریٹن وڈ عالمی نظام کا متبادل ثابت ہو کے عالمی معیشت کو ڈالرائزیشن کی قید سے نجات دلا کے اپنی کوئی اجتماعی کرنسی متعارف کروا پائے گا۔
برکس کی بنیاد دو ہزار نو میں برازیل، بھارت، چین اور روس نے رکھی اور اگلے برس جنوبی افریقہ پانچواں رکن بن گیا۔ برکس کے یہ پانچوں سوار تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشتوں کی تنظیم جی ٹوئنٹی میں بھی شامل تھے اور اپنے تئیں بھی عالمی پیداوار میں ان کا اجتماعی حصہ چھبیس فیصد اور عالمی تجارت میں بیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
دنیا کی آٹھ ارب میں سے ساڑھے تین ارب سے زائد انسان انہی پانچوں ممالک میں آباد ہیں، مگر عالمی معاشی فیصلوں میں ان کا اجتماعی اثر حجم کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف میں پانچ بنیادی برکس ممالک کی ووٹنگ پاور محض پندرہ فیصد ہے۔ بیشتر ووٹنگ پاور جی سیون ممالک کو حاصل ہے۔ یہی تناسب عالمی بینک میں بھی ہے۔
دو ہزار پندرہ میں باہمی تجارت کے لیے برکس بینک قائم کیا گیا۔ اس کا ہیڈکوارٹر شنگھائی میں ہے۔ ڈالر کی گرفت ڈھیلی کرنے کے لیے مشترکہ تجارت مقامی کرنسی میں کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ روس اور چین کی تجارت روبل اور یوآن میں ہو رہی ہے۔ انڈیا روسی تیل کی ادائیگی روپے میں کرتا ہے۔ امارات اور انڈیا تجارت میں ڈالر کے ساتھ ساتھ روپے اور درہم کو بھی قبول کر رہے ہیں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی ملک بھلے کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنا سکتا۔ چین اور بھارت میں فوجی تصادم کے نتیجے میں گزشتہ تین برس سے کشیدہ تعلقات کے باوجود باہمی تجارت سوا سو بلین ڈالر سے اوپر ہے۔ دونوں طاقتیں شنگھائی تعاون کونسل، ہارٹ آف ایشیا، جی ٹوئنٹی اور برکس کی چھتری تلے ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہیں۔
بھارت کو روس کا تیل بھی چاہیے اور امریکی ٹیکنالوجی بھی۔ برازیل اور جنوبی افریقہ ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں مگر ان کی بیشتر تجارت امریکا اور یورپ سے ہے۔
برکس میں مزید چالیس ممالک شامل ہونے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں سے تئیس نے رکنیت کے لیے تحریری درخواست دی ہے۔ پہلے مرحلے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، مصر، ایتھوپیا اور ارجنٹینا کو رکنیت مل گئی ہے۔
یوں برکس پانچ سے گیارہ تک پہنچ گئی ہے، مگر ان میں سوائے ایران کے باقی ممالک کی معیشتیں مغرب سے جڑی ہوئی ہیں۔ برکس کی رکنیت سے البتہ ایران کی بین الاقوامی تنہائی کم ہوگی۔
چین کی کوششوں سے یو اے ای، سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات معمول پر آنے کے بعد سے برکس میں چین کا وزن بھی بڑھا ہے۔ پوتن اپنی اسٹرٹیجک اور معاشی مصلحتوں کے تحت ویسے ہی چین کی بات ماننے پر مجبور ہیں۔
جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدالت نے یوکرین میں جنگی جرائم کے الزامات میں پوتن کے وارنٹ نکال رکھے ہیں، لہٰذا وہ ملک سے باہر زیادہ نقل و حرکت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
یہ اتحاد اگر چین اور بھارت کا سرحدی جھگڑا ختم کروانے اور رکن ممالک کے مابین آنے والے برسوں میں تجارتی حجم بڑھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کچھ امید بندھے گی کہ اس میں دم ہے، ورنہ ہم نے بڑے بڑے اتحاد دو یا تین غالب ممالک کی کھینچا تانی میں ٹوٹتے بگڑتے دیکھے ہیں۔
اگر چین اور بھارت کے تعلقات نارمل ہوئے تو اس کا مثبت اثر پاک بھارت تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔
نائجیریا اور انڈونیشیا جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی برکس میں شامل ہونا چاہتی ہیں، مگر فی الحال انہیں اتنی عجلت بھی نہیں۔ یہ ممالک دیکھنا چاہتے ہیں کہ پانچ رکنی تنظیم گیارہ رکنی ہونے کے بعد اور مضبوط ہوتی ہے یا کمزور۔ اس اتحاد کو وسائل کی کمی نہیں، وسائل کا مشترکہ استعمال اصل چیلنج ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)