’زمین سے صرف پانی لینا نہیں بلکہ دینا بھی ہے‘

علی وقار

پانی ایک نعمت اور زندگی کی علامت بھی ہے لیکن جس بےرحمی سے ہمارے ملک میں پانی کو استعمال کرتے ہوئے ضائع کیا جارہا ہے اس سے یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کے رہائشیوں کو پینے کے صاف پانی کے لیے بھی لائنوں میں لگنا پڑے گا یا مہنگے داموں پانی خرید کر پینا پڑے گا۔

پانی کی قلت کے اسباب جہاں قدرتی ہیں وہیں انسان بھی اس کا برابر کا ذمہ دار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے بڑے ذخائر بروقت تعمیر نہ کرنے اور مناسب انتظامات نہ کرنے کے باعث پانی کی فی کس دستیابی میں بڑی حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

دنیا بھر میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور گھریلو پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کی ٹیکنالوجی کے ذریعے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا نظام چل رہا ہے۔ ہمارے یہاں حکومتیں یا محکمے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ سال آنے والے پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ایک بار پھر سیلابی پانی اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف) اس مقصد میں پیش پیش ہے اور ’ری چارج پاکستان‘ کے نام سے ایک بڑے منصوبے کا آغاز کرنے جارہا ہے۔ 7 برسوں میں مکمل ہونے والے اس منصوبے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی برباد ہونے سے بچایا جا سکے گا۔

ری چارج پاکستان منصوبہ کیا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات کا باعث بننے والے عوامل میں پاکستان کا حصہ انتہائی محدود ہے لیکن اس کے اثرات سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے جہاں کم و بیش 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا وہاں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ ملکی آبی ذخائر کی گنجائش سے زائد پانی پاکستان میں آیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے نومبر 2022ء میں یہ آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئیں کہ دریاؤں اور آبی ذخائر میں پانی ضرورت سے کم سطح پر پہنچ گیا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر فریش واٹر سہیل نقوی نے اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان کے تحت 5 برسوں میں 2 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کوٹری سے سمندر میں چھوڑا جانا چاہیے لیکن بہتر منیجمنٹ اور بڑے آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی مقدار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے جس کے باعث توازن برقرار نہیں رہ پاتا۔

تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنے کے بعد اب حکومتی ادارے سنجیدگی سے سیلابی پانی سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزارتِ ماحولیات و موسمی تغیرات اور وزارتِ آبی ذخائر ’گرین کلائمیٹ فنڈ‘ کی جانب سے گزشتہ ماہ منظور کی گئی بڑی رقم کی مدد سے ’نیچر بیسڈ سلوشن‘ کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے اور اس کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ’انڈس بیسن‘ پر 4 ایسے منصوبے شروع کرنے جارہے ہیں۔

یہ منصوبے منچھر جھیل، چکر لہری، ڈیرہ اسمعٰیل خان اور رمک واٹر شیڈ کے نام سے شروع کیے جائیں گے جس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف سرکاری محکموں کی مکمل معاونت اور مانیٹرنگ کے فرائض بھی سر انجام دے گا۔

یہ منصوبہ 7 سال میں مکمل ہوگا جس میں ایک کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ تک پانی بچایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ زیرِزمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لیے بڑے شہروں میں بھی ’گراؤنڈ واٹر ری چارج ویل‘ بنائے جائیں گے۔

شہروں میں پانی کو کیسے محفوظ کیا جاسکتا ہے؟

کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں تو ہم نے دیکھا اور سنا ہے کہ شہری لائنوں میں لگ کر پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جس مقدار میں پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں زیرِزمین پانی نکالا اور ضائع کیا جارہا ہے وہاں بھی ایسی صورتحال در پیش آسکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق لاہور میں اس سال 1100 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے اور پنجاب حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 5 جولائی 2023ء کو ہونے والی 291 ملی میٹر بارش نے 30 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اتنی بارش ہونے کے بعد آنے والا ہزاروں لیٹر پانی کسی حد تک تو محفوظ کیا جاسکتا تھا لیکن زیادہ تر پانی دریا کی نذر کرنا پڑا۔

مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق 3 کروڑ گیلن بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے واسا لاہور نے 12 واٹر ٹینکس بنانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ابھی تک صرف 3 ٹیکنس پر کام ہوسکا ہے۔ لاہور میں زیرِزمین پینے کے صاف پانی کی سطح تقریباً 800 فٹ تک نیچے جاچکی ہے۔ ایسی صورتحال میں شہروں میں پانی کو محفوظ کرنے اور زیرِزمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ’سینٹر فار اینٹی گریٹڈ ماؤنٹین ریسرچ‘ کے گراؤنڈ میں ریچارچ ویل کا پائلٹ منصوبہ شروع کیا گیا ہے جہاں صرف اس مقام سے سالانہ 75 لاکھ لیٹر بارش کا پانی مختلف فلٹرز سے ہوتا ہوا زمین میں داخل ہوگا۔ اسی طرز کے مزید کنویں بنانے کے لیے حکومت اور نجی اداروں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق اس نوعیت کے منصوبے اسلام آباد اور راولپنڈی میں جاری ہیں جبکہ کراچی اور ملتان میں بھی یہ منصوبے جلد شروع کیے جائیں گے۔ اسی طرح کالا شاہ کاکو میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ذیلی کیمپس میں واقع پانی کے جوہڑ میں موجود کیمیائی مواد اور زہریلے مادے کو ختم کرنے کے لیے پودوں کی مدد سے ’فلوٹنگ ٹریٹمنٹ ویٹ لینڈ‘ کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس سے جوہڑ میں موجود پانی کو صاف کرکے زمین میں داخل کیا جائے گا۔

متعلقہ ادارے پانی کی صورتحال پر کس حد تک فکر مند ہیں؟

لاہور میں اس وقت 589 ٹیوب ویل، 7 لاکھ 75 ہزار صارفین کو پانی فراہم کرنے کے لیے مختلف اوقات میں زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ تاہم جس مقدار میں پانی نکالا جارہا ہے اس حساب سے زیرِزمین پانی ریچارج نہیں ہورہا۔ لاہور کے ایکوافر کا 82 فیصد ریچارج دریائے راوی کے پانی سے ہوتا تھا لیکن بھارت کی جانب سے راوی پر بنانے گئے ڈیموں کی وجہ سے ریچارج انتہائی کم ہوچکا ہے۔

واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر غفران احمد نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں اب بھی شہری 40 فیصد پانی ضائع کررہے ہیں۔ پانی کو محفوظ کرنے کے لیے عوامی رویوں کو سب سے پہلے بدلنا ہوگا۔ کپڑے دھونے، کھانا پکانے اور گاڑی تک دھونے کے لیے شہری بے دریغ پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ شہر میں یومیہ فی کس 5 سے 7 لیٹر اوسطاً صاف پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں شہری ایک گیلن پانی کے لیے کم از کم دو ڈالر ادا کرتے ہیں لیکن لاہور میں پانی کی انتہائی کم قیمت وصول کی جاتی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو صاف پانی کی اہمیت کا اِداراک نہیں ہے۔ واسا نے بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے ’رین واٹر ہارویسٹنگ ٹینک‘ بنانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں بارش کے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ بعدازاں یہ پارکوں کو پانی دینے اور شہر کی سڑکوں کی صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے اس اقدام سے زمین سے پانی نکالنے کی ضرورت میں بھی کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔

پانی کو محفوظ کرنے کے لیے واٹر کمیشن بنانے کا مقصد

ایک ایسا ملک جہاں پینے کے صاف پانی جیسی نعمت کو سڑکیں اور گاڑیاں دھونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو وہاں کی اکثریت گھنٹوں لائنوں میں لگ کر پانی حاصل کرتی ہے۔ بدقسمتی ہمارے پاس لاہور کی مثال موجود ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق صفائی کرنے والی کمپنی لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) اور پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) کی جانب سے یومیہ ایک لاکھ 82 ہزار لیٹرز تک پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیرِزمین پانی کی ضرورت سے زیادہ پمپنگ اور گرتی ہوئی سطح کے تدارک کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر فروری 2019ء میں اعلیٰ سطح کا کمیشن بنایا گیا تھا جس میں تمام متعلقہ سرکاری محکموں کے علاوہ نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اس کمیشن میں شامل کیا گیا۔

کمیشن کے قیام سے پانی کو بچانے میں کس حد تک کامیابی ہوئی یہ جاننے کے لیے کمیشن کے ممبر سید کمال حیدر سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’کمیشن کے قیام سے قبل جس رفتار سے پانی نکالا اور ضائع کیا جارہا تھا اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ زیرِزمین پانی کا لیول 2025ء تک 70 سے 100 میٹر تک جا سکتا ہے۔ اس تشویش ناک صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہت سے سخت اقدامات اٹھائے گئے جن میں سروس اسٹیشنز کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ گھریلو اور صنعتی استعمال کے پانی پر پیسے وصول کرنا، استعمال شدہ پانی کو سڑک صاف کرنے اور پارکوں میں استعمال کے لیے اقدامات کو ہر صورت یقینی بنایا گیا۔

اس معاملے میں سرکاری محکموں نے تو مکمل تعاون کیا لیکن عوامی سطح پر اب بھی بلاضرورت پانی استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مساجد اور درباروں میں وضو کے لیے استعمال ہونے والے پانی کو محفوظ کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا واٹر ٹینک داتا دربار کے وضو کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بعدازاں یہ پانی پی ایچ اے اور صفائی کے ذمہ دار محکمے استعمال کرسکیں گے۔ لاہور کے دیگر بڑے دربار جن میں بی بی پاک دامن، میاں میر، مادھو لال، پیر مکی سمیت دیگر درباروں کے یومیہ 4 لاکھ گیلن پانی کو محفوظ کرکے بوقت ضرورت استعمال میں لایا جائے گا۔ اس طرح کے اقدامات سے لاہور میں کم از کم یومیہ 2 کروڑ 38 لاکھ 50 ہزار گلین پانی محفوظ کیا جارہا ہے۔

مستقبل میں مزید بہتری کے لیے پورے پاکستان میں مساجد کے وضو خانوں کے پانی کو اسٹور کرنے، سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں پانی کے خراب پائپ اور ٹوٹیوں کی فوری مرمت سمیت، پاکستان بھر میں پانی کے میٹر نصب کرنے اور اس کے مطابق پیسے وصول کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ چند اقدامات اٹھانے سے پاکستان بھر کے شہریوں کو مستقبل میں باآسانی پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔

بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close