کم برف باری اور زیادہ بارش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو کیسے خطرناک بنا رہی ہے؟

ویب ڈیسک

گزشتہ ماہ بھارت کے ہمالیہ پہاڑی سلسلے کے خطے میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے، مکانات اور عمارتیں بہہ گئیں۔ جبکہ نیپال اور پاکستان کے کچھ حصوں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور تعمیرات کے ساتھ طوفانی بارشیں خطے میں مزید تباہی اور آفات کا باعث بن رہی ہیں۔

تاہم بلندی پر واقع علاقوں میں بارشوں میں غیر معمولی اضافہ خطے کو مزید خطرناک بنا رہا ہے

ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہمالیہ سمیت دنیا بھر کے بلند پہاڑی سلسلوں کی ان بلندیوں پر معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں، جہاں ماضی میں کبھی زیادہ تر برف باری ہوا کرتی تھی

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی نے پہاڑوں کو مزید خطرناک بنا دیا ہے، کیونکہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے سے نہ صرف بارش ہوتی ہے بلکہ یہاں پر پڑی برف بھی پگھلتی ہے

پہاڑوں میں زیادہ بارش میدانی علاقوں کی نسبت زیادہ خطرات کا باعث بنتی ہے، کیونکہ بارش کا پانی مٹی کو نرم کر دیتا ہے، جس کا نتیجہ لینڈ سلائیڈنگ، چٹانیں گرنے، سیلاب اور ملبے کے بہاؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔ ان علاقوں میں مٹی اور گارے سے بھرا پانی اور ٹوٹے پتھر پہاڑوں سے نیچے کی طرف بہہ جاتے ہیں

نیچر نامی جریدے میں جون میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے ”ہماری تحقیق اور اس سے اخذ نتائج کئی طرح کے شواہد فراہم کرتے ہیں کہ بلندیوں پر گرم درجہ حرارت شدید بارش کو بڑھاوا دیتا ہے، خاص طور پر شمالی نصف کرہ کے برفانی علاقوں میں“

یہ نتائج 2019 میں انٹر گورنمینٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی ایک خصوصی رپورٹ سے مطابقت رکھتے ہیں، جس میں کہا گیا تھا کہ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے کم از کم دنیا کے کچھ بلند علاقوں میں برف باری میں کمی آئی ہے، خاص طور پر پہاڑی علاقوں کی نچلی سطح پر“

فرانس میں نیشنل سینٹر فار میٹرولوجیکل ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور آئی پی سی سی کی خصوصی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک سیموئل مورین کہتے ہیں ”بہت زیادہ اونچائی پر اور تمام موسموں میں بھی بارش کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں“

اور یہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے کیونکہ زیرو ڈگری آئسوتھرم، جو کہ منجمد کرنے کی سطح ہے، جہاں نمی برف بن کر گرتی ہے، زیادہ بلندی پر چلا گیا ہے

اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے ”اس کے نتیجے میں، ان (پہاڑی) علاقوں کو ہاٹ اسپاٹ (خطرناک علاقوں) کے طور پر شمار کیا جاتا ہے جہاں شدید بارش کے واقعات اور اس سے جڑے خطرات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے کٹاؤ کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے“

مشیگن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے سرکردہ مصنف محمد اومبادی بتاتے ہیں ” شمالی نصف کرہ میں الپس اور راکیز جیسے پہاڑی سلسلوں کے مقابلے میں ہمالیہ کے خطے کے لیے یہ خطرہ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ (ہمالیہ میں) گرمی سے متعلق اضافی عمل جاری ہیں جو یہاں ہوا کے دباؤ اور طوفان کے رخ کو تبدیل کرتے ہیں، جس سے طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ جو بھارت، بھوٹان، نیپال اور پاکستان کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں پر موسم اور درجہ حرارت میں تبدیلی کی نگرانی کے لیے شاید ہی کوئی ویدر اسٹیشن ( محکمہ موسمیات کا نظام) موجود ہے، جس کی وجہ سے یہاں سے اکثر درست اعداد و شمار حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے

اگرچہ ان علاقوں میں نیچے وادیوں یا کم اونچائیوں پر کچھ ویدر اسٹیشنز موجود ہیں، لیکن وہ اس بارے میں مکمل تصویر پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ ان بلندیوں پر موجود نمی برف باری کی صورت میں گر رہی ہے یا بارش بن کر برستی ہے

تاہم، ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ جو کہ سطح سمندر سے 5315 میٹر بلندی پر واقع ہے پر نصب ایک ویدر اسٹیشن سے یہ ظاہر ہوا کہ یکم جون اور 10 اگست 2023 کے درمیان پہاڑ پر 245.5 ملی میٹر برسنے والی نمی میں سے 75 فیصد بارش تھی، جبکہ باقی برف یا بارش دونوں کا مجموعہ تھا

جون اور ستمبر 2022 کے درمیان ریکارڈ کی گئی 32 فیصد بارش اور سنہ 2021 میں 43 فیصد اور سنہ 2020 میں 41 فیصد بارش کے مقابلے میں یہ بہت زیادہ ہے

نیشنل جیوگرافک کے ایکسپلورر بیکر پیری اور ٹام میتھیوز (جو کہ نیشنل جیوگرافک اور رولیکس پرپیچوئل پلانیٹ ایکسپیڈیشنز کا حصہ تھے، جس میں یہاں ویدر اسٹیشن نصب کیا گیا تھا) کا کہنا ہے ”ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں برف باری کے بجائے زیادہ بارش کا ہونا ایک نسبتاً حالیہ واقعہ یا رجحان ہے لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس طویل مدتی ڈیٹا نہیں ہے“

محکمہ موسمیات کے علاقائی دفتر کے سربراہ بکرم سنگھ کا کہنا ہے ”ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ کے پہاڑوں پر گرنی والی نمی میں تبدیلیاں واضح ہیں۔ ہم یقینی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ برف باری کی مقدار میں کمی آئی ہے اور یہ عام طور پر چھ ہزار میٹر سے نیچے کی بلندی پر ہوتا ہے۔ مون سون کے دوران، نچلی بلندیوں پر شدید بارش ہوتی ہے“

کوماؤن یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق سربراہ پروفیسر جے ایس راوت کہتے ہیں ”کم ہوتی ہوئی برف باری اور بارش میں اضافے کا مطلب ہے کہ خطے میں دریاؤں کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب شدید بارشوں کے بعد بہت سے سیلابی ریلے آئے ہیں اور وہ دریا جو کبھی اس خطے میں گلیشیئر سے بہہ رہے تھے، اب بارش سے پانی کی ذخیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں“

ان علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے اس مسئلے میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ اس نے ہمالیہ کے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ یہ تیزی سے برفانی جھیلوں میں تبدیل ہونے کا باعث بنتی ہے، جو پھر بہہ جانے اور سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ گلیشیرز کا کمزور ہونا اور پگھلنا پہاڑی ڈھلوانوں کو بھی غیر مستحکم کرتا ہے

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ گرمی ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور متعدد تحقیقوں میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس سے وہاں بارش میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا

شمالی بھارت میں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کی ریاستوں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ مون سون کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے

اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے مایا پور گاؤں کے رہائشی پچیس سالہ پربھاکر بھٹہ کہتے ہیں ”پہاڑوں پر بارش میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گاؤں گنائی کو پہلے ہی لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ تھا، اس لیے ہمیں اسے چھوڑ کر جانا پڑا، لیکن یہاں بھی ہم بے گھر ہو گئے ہیں“

14 اگست کو آدھی رات سے کچھ پہلے، ایک زبردست سیلابی ریلے نے بھٹہ کے دو منزلہ مکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ پتھروں، گاد اور مٹی کے ملبے تلے دب گیا تھا

وہ کہتے ہیں ”ہم زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ ہمیں اونچائی پر واقع دیہاتوں کے لوگوں نے خبردار کیا تھا کہ بہت زیادہ بارش ہو رہی ہے اور ہمارے گھر کے راستے میں اچانک سیلابی ریلہ آ سکتا ہے“

پربھاکر بھٹہ کا کہنا ہے ”میرے اہل خانہ اس رات جاگتے رہے اور ’عجیب آواز‘ سن کر بھاگ گئے۔ میرے والد نے اپنی زندگی بھر کی بچت سے گھر بنایا تھا، اور اب وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہ خطہ اب ناقابلِ رہائش ہوتا جا رہا ہے“

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے حساس خطوں میں سڑکوں، سرنگوں اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹس جیسے بنیادی ڈھانچوں کی تیزی سے تعمیر بھی ان آفات کا باعث بنتی ہے۔ ہمالیہ کی طرح کے زلزلے کے خطرات والے علاقوں میں زلزلے صورتحال کو مزید خراب کرتے ہیں۔

ہمالیہ کے خطے میں بارشوں میں اضافے کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ شمالی پاکستان میں جہاں ہمالیہ قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ملتے ہیں، وہاں اچانک سیلابی ریلے اور مٹی اور گاد کے ملبے کے بہاؤ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کمال قمر کا کہنا ہے کہ گذشتہ مون سون کے دوران گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک سو بیس سیلاب آئے، جو کہ دس یا بیس سال پہلے سے بہت زیادہ ہے

وہ کہتے ہیں ”موسم گرما اور سردیوں میں تقریباً چار ہزار میٹر فٹ کی بلندی پر بارش ہوتی ہے، جب کہ یہاں برف پڑنی چاہیے تھی“

دوسری جانب نیپال میں مشرقی ہمالیہ کے علاقے میں سیلاب اور ملبے کے بہاؤ سے ہائیڈرو پاور اور پینے کے پانی کے پلانٹس جیسے اہم انفراسٹرکچر تباہ ہو رہے ہیں۔ ملک کی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس مون سون میں مشرقی نیپال میں تیس ہائیڈرو پاور پلانٹس کو نقصان پہنچا ہے

نیپال کے ٹرانس ہمالیائی ضلع موستانگ میں شدید بارش کے بعد لینڈ سلائیڈنگ نے ایک دریا کو بند کر دیا جو بعد میں 13 اگست کو پھٹ گیا، سیلاب نے مکانات، پلوں کو گرا دیا اور گاڑیاں بہا دیں

یہ پہلے بارش سے بچا ہوا علاقہ تھا کیونکہ یہاں نمی والے بادل نہیں پہنچ سکتے تھے، کیونکہ انہیں ہمالیہ کے پہاڑوں نے روک رکھا تھا

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمالیائی خطے میں پہاڑوں پر سیلابی ریلوں، لینڈ سلائڈنگ، زمین کے سرکنے کے واقعات بار بار اور شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ کھٹمنڈو میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ کے محقق جیکب اسٹینر کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نیچے کی جانب صورتحال کو مزید خراب اور متحرک کرتا ہے

جیکب اسٹینر اس بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”زیادہ بلندی پر شدید بارش اکثر ان واقعات کی ابتدا یا ان سلسلوں کو مزید متحرک بنانے کا کام کرتی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close