اگر گوگل پر ’دلت کلڈ فار‘ ٹائپ کیا جائے تو آپشنز میں جو وجوہات نظر آتی ہیں، وہ نہ صرف حیران کن بلکہ افسوسناک بھی ہیں۔۔ مثال کے طور پر دلت گھوڑے پر چڑھنے، پانی کو چھونے، پانی پینے، مندر میں داخل ہونے، گربھا دیکھنے کی وجہ سے مارا گیا۔۔
یہ کسی گئے زمانے کا تذکرہ نہیں، آج بھی انڈیا اور ہندو سماج میں اونچی اور نیچی ذات میں تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے اور دلت جنہیں کبھی اچھوت سمجھا جاتا تھا انہیں ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ مذکورہ چیزوں کے لیے انہیں اپنی جان بھی گنوانی پڑی ہے
بدقسمتی سے اوپر مذکور ’وجوہات‘ کے باعث دلتوں کی رسم قتل آج بھی جاری ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان کے ایک علاقے میں نچلی ذات یا دلِت برادری کے لوگوں کو مونچھ رکھنے پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا، یہان تک کہ خواتین کو پردے کے لیے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ دلت عورتوں پر لازم تھا کہ اپنے سینے عریاں رکھیں، اگر وہ انہیں چھپاتیں تو انہیں اس کے لیے ’بریسٹ ٹیکس‘ ادا کرنا کرنا پڑتا تھا
یہ ٹیکس جنوبی ہند میں بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع ریاست تراونکور میں انیسویں صدی تک نافذ العمل تھا، جب تک کہ انگریزوں نے اس میں مداخلت نہیں کی اور اسے کالعدم نہ قرار دیا
تراونکور انڈیا کی پانچ سو سے زیادہ شاہی ریاستوں میں سے ایک ریاست تھی، جو انگریزوں کی حکمرانی تسلیم کرتی تھی لیکن ان کا اپنا راج اور نظام تھا
بریسٹ ٹیکس کی تاریخ اور نانگیلی کی قربانی
انیسویں صدی میں، ٹراوانکور کے بادشاہ نے چھاتی کے ٹیکس کی ادائیگی متعارف کرائی اور اسے کمیونٹی میں نچلی ذات کی خواتین کو ادا کرنا تھا۔ بریسٹ ٹیکس، جسے "ملاکرم” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ٹراوانکور کی بادشاہی میں مقبول ہوا۔ پرانے ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ایک ہندوستانی عمل تھا
روایتی تقاضوں کے مطابق، نچلی ذات کی خواتین سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے سینوں کو بے نقاب رکھیں۔ اس وقت موجودہ ذات پات کا نظام انتہائی جابرانہ تھا اور ان خواتین کو اوپر کا لباس پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ ایسا کرنے سے انکار کا مطلب یہ تھا کہ ان سے ان کی نافرمانی کی قیمت وصول کی جائے گی
ادا کیے جانے والے ٹیکس کی رقم کا تعین ہر عورت کی چھاتی کے سائز کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ یعنی چھاتی جتنی بڑی ہوگی، ٹیکس اتنا ہی زیادہ ہوگا
جب نچلی ذات کی خواتین بلوغت کو پہنچ جاتیں تو سینہ چھپانے پر ٹیکس شروع ہوجاتا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مشق ان کو دبانے کے لیے کی گئی تھی، خاص طور پر ایزوا اور نادر کے لوگوں کو۔ اونچی ذات کے لوگ ہی یہ ٹیکس وصول کرتے تھے۔
تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے، تراونکور کے اہلکار گھر گھر جا کر کسی بھی نچلی ذات کی عورت سے چھاتی پر لیوی وصول کرتے جو بلوغت کی عمر سے گزر چکی تھی
چھاتی کے ٹیکس کے نفاذ کی دو بنیادی وجوہات بڑی حد تک منسوب کی گئیں: نچلی ذات کے لوگوں کی توہین کرنا اور ان پر قرضوں کا بوجھ ڈالنا جس نے انہیں غربت میں رکھا۔ افسوس کی بات ہے کہ جب نچلی ذات جدوجہد کر رہی تھی، اعلیٰ طبقے کے برہمن اور نیر خوشحالی اور شائستگی سے لطف اندوز ہوتے رہے
دلت خواتین کا ننگے سینے کھڑے ہونا ہندوؤں کی اعلیٰ ذات کے نظام کے احترام کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اوپر والے کپڑوں کا استعمال بھی خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اس لیے صرف اعلیٰ طبقہ ہی اس استحقاق کا حقدار تھا
درحقیقت، ذلت آمیز اور ظالمانہ چھاتی کے ٹیکس نے نچلی ذات کی خواتین کو پست کر دیا کیونکہ اس نے انہیں دوسروں کے درمیان عزت کے ساتھ جینے کے حق سے محروم کر دیا۔ خواتین کو اپنے آپ کو چھاتی کے سائز کی شرمناک پیمائش کا نشانہ بنانا پڑا جو ان کے وقار اور رازداری پر حملہ تھا
اور پھر اس ٹیکس کے خلاف ایزوا نامی ذات کی ایک عورت کی مزاحمت سامنے آئی، یقیناً اس بارے میں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، کیونکہ یہ وہ مقام ہے، جہاں کہانی ایک خوفناک موڑ لیتی ہے
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ، اس نے چھاتی پر ٹیکس ادا کیے بغیر اپنے سینے کو ڈھانپ کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا – 1900 کی دہائی کے اوائل میں ایک نچلی ذات کی حیثیت کی عورت کے لیے یہ ایک بہادر اقدام تھا
بتایا جاتا ہے کہ نانگیلی کے نام سے جانی جانے والی ایک عورت سے ملاکرم یا چھاتی کا ٹیکس وصول کرنے کے لیے تراوینکور کے پراوتھیار (گاؤں کا افسر) آیا تھا۔ نانگیلی نے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس نے بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اسے نچلی ذات کی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سمجھا۔ بغاوت کے ایک غیر معمولی عمل میں نانگیلی نے درانتی سے اپنے سینوں کو کاٹ کر کھجور کے پتے میں لپیٹ کر پراوتھیار کے حوالے کر دیا
پراوتھیار بھاگ گیا، نانگیلی دہلیز پر پڑی تھی اور اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا جہاں اپنی محبوب بیوی کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے غم زدہ شوہر نے المناک طور پر خودکشی کر لی
اس کے رشتہ دار ملاچھی پورم سے نکل کر قریبی قصبوں اور بستیوں میں چلے گئے۔ نانگیلی کے کزن کے پڑپوتے مانیان ویلو کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ نانگیلی کی کہانی زیادہ مشہور نہیں ہے۔ ”اس کا عمل بے لوث تھا، ٹراوانکور کی تمام خواتین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک قربانی، جس نے اور بالآخر بادشاہ کو بریسٹ ٹیکس واپس لینے پر مجبور کیا“
مانیان بتاتے ہیں، "ہمیں اس بات پر بہت فخر ہے کہ ہم اس کے خاندان سے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی قربانی کے بارے میں جانیں۔ یہ مناسب ہوگا کہ اگر اس کا نام اس خطے کی تاریخ کا حصہ بنایا جائے“
نانگیلی کے اس ہولناک مزاحمتی اقدام کی خبر بالآخر شاہی دربار تک پہنچی، جہاں بادشاہ کو ٹیکس ختم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ کہانی ماضی اور حال کے درمیان فرق کی ایک سنجیدہ اور واضح یاد دہانی بنی ہوئی ہے، جو افسوس کی بات ہے کہ آج بھی دنیا کے کچھ حصوں میں سچ ہے
مونچھوں پر ٹیکس
اس حوالے سے یوسف تہامی لکھتے ہیں ”جب اس (مونچھوں پر عائد) ٹیکس کے بارے میں مجھے علم ہوا تو اردو کے معروف فکشن نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی ’ممد بھائی‘ لامحالہ یاد آ گئی۔ ممد بھائی کی دلیری، جوان مردی، غریب پروری کے قصے منٹو نے سن رکھے تھے جو ان دنوں غریب الوطنی کے عالم میں ممبئی کی عرب گلی میں رہتے تھے
”منٹو بیمار پڑے تو ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور وہ اپنی کھولی میں تن تنہا پڑے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ منٹو لکھتے ہیں: ’دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دی، اندر داخل ہوا۔ اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن تھا کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی نے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔‘
منٹو کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ مونچھوں کی اہمیت کوئی کم نہیں ہے اور شاید اسی لیے تراونکور کے راجہ نے نچلی ذات کے مردوں پر مونچھیں رکھنے کے لیے ٹیکس عائد کر رکھا تھا
یہ جہاں ایک طرح سے جبر کی علامت تھا، وہیں یہ اس بات کا بھی غماز تھا کہ اس سے شان و شوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور جو شان و شوکت دکھا سکتا ہے، اسے تو ٹیکس ادا کرنا ہی پڑے گا
یہی وجہ ہے کہ آج بھی برِصغیر میں کسی کو بے عزت کرنا ہوتا ہے تو اس کے داڑھی مونچھ اور سر کے بال منڈوا کر اسے تماشا اور عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے
تراونکور کی ریاست اپنے ظالمانہ ٹیکس کے لیے مشہور تھی۔ صحافی دیپتی پریا مرہوترا ’دی پرنٹ‘ میں شائع اپنے مضمون میں لکھتی ہیں ”تراونکور راجا دلتوں سے انتہائی بے رحمی کے ساتھ تقریباً ایک سو دس قسم کے محصول وصول کرتے تھے۔ ان ٹیکسوں میں ماہی گیروں کے جال پر، زیورات پہننے پر، مونچھیں رکھنے پر ایک عام ٹیکس لگایا جاتا تھا، جسے ’تلاکرم‘ کہا جاتا تھا، جس کا مطلب تھا ’ہیڈ ٹیکس‘ یعنی فرد پر عائد ٹیکس۔“
یوسف تہامی لکھتے ہیں ”سعادت حسن منٹو نے ممد بھائی کے بارے میں لکھا: ’وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں، جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔ اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہر روز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔‘
تراونکور کے راجہ کو بھی شاید دلتوں کے مونچھیں رکھنے سے اس طرح کا احساس ہوتا ہوگا، نہیں تو وہ اس پر ٹیکس کیوں عائد کرتا۔
جب پیشاب، نمک، داڑھی اور قبر پر بھی ٹیکس لگتا تھا۔۔ کچھ دلچسپ ٹیکسوں کی کہانی