بھارت: کرن پٹیل کی کہانی، جو وزیراعظم آفس کا افسر بن کر کئی سال تک حکام کو چونا لگاتا رہا۔۔

ویب ڈیسک

بھارت کے ضلع احمد آباد کے ناز گاؤں سے تعلق رکھنے والے اور احمد آباد شہر کے عیسان پور علاقے میں آباد کرن پٹیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بی جے پی لیڈروں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں

سنہ 2003ع سے کرن پٹیل لگاتار احمد آباد میں انتہا پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے دفتر آ رہے تھے اور خود کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کارکن کے طور پر پیش کر رہے تھے

اس دوران وہ سرٹیفکیٹ دکھاتے کہ وہ ٹونگو کی ’کامن ویلتھ یونیورسٹی‘ میں کنسلٹنٹ ہیں اور دعویٰ کرتے کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے اور اب وہ دہلی کے مین باغ علاقے میں رہتے ہیں

گزشتہ دنوں کرن پٹیل کشمیر میں تھے، اور خود کو وزیر اعظم کے دفتر کے ایک سینیئر اہلکار کے طور پر پیش کر کے وہ وی وی آئی پی سہولت اور زیڈ پلس سیکورٹی انجوائے کر رہے تھے

جس کرن پٹیل کے بارے میں آپ یہ سب کچھ پڑھ رہے ہیں، وہ اس وقت عدالتی حراست میں ہیں اور سری نگر کی سینٹرل جیل میں بند ہیں

بھارت بھر میں ہلچل مچانے والے اس واقعے کے بعد اگرچہ کرن پٹیل پہلی بار قومی میڈیا کی سرخیوں میں آئے ہیں، لیکن ان پر اس سے پہلے بھی اس طرح کے جعلسازی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور یہ واقعات ریاستی سطح پر پیش آئے تھے

کشمیر پولیس کے اے ڈی جی پی وجے کمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو ملنے والی اطلاع کی بنیاد پر 2 مارچ کو ہوٹل میں چھاپہ مارا گیا اور پٹیل کو گرفتار کیا گیا

چھاپے کے دوران کرن پٹیل سے دس عدد جعلی وزیٹنگ کارڈ اور دو موبائل فون برآمد ہوئے۔ کرن پٹیل کے خلاف جموں و کشمیر کے نشاط پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی کی دفعہ 419، 420، 467 اور 471 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے

تاہم نہ صرف کشمیر بلکہ گجرات میں بھی کرن پٹیل کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور اب ان کی دھوکہ دہی کا شکار بھی ہونے والے لوگ بھی سامنے آ رہے ہیں

کافی عرصے سے وشو ہندو پریشد سے وابستہ ڈاکٹر اتل ویدیا بتاتے ہیں ”میں پہلی بار کرن سے سنہ 2003 میں ملا تھا۔ وہ ہمیشہ لیڈروں کے سامنے جھکتے تھے۔ وہ خود کو بی جے پی کا ایک عام کارکن بتاتے تھے اور دفتر آ کر سب کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ لیکن اس کا کسی سے کوئی قریبی تعلق نہیں تھا۔ آچاریہ دھرمیندر جی (وشوا ہندو پریشد کے رہنما) کی وفات کے بعد جب احمد آباد کے جگناتھ مندر میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ایک پروگرام چل رہا تھا تو کرن پٹیل میرے پاس آئے اور کہا کہ انہوں نے ایک غیر ملکی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور پی ایم او (وزیراعظم کے دفتر) میں تعینات ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر کی ذمہ داری ملی ہے۔‘

ڈاکٹر اتل ویدیا کے مطابق کرن نے انھیں بتایا تھا کہ کشمیر اور اتراکھنڈ میں ترقیاتی کاموں کے منصوبے انہیں دیے گئے ہیں۔ اس وقت کرن پٹیل نے ڈاکٹر ویدیا کو دہلی کے کئی لیڈروں کے ساتھ تصویریں بھی دکھائی تھیں

کرن پٹیل پر سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کی نگرانی میں کشمیر کے کئی ہیلتھ ریزورٹس میں پکنک منانے کا الزام ہے۔ اس دوران انہوں نے کئی وڈیوز بھی بنائیں اور اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کیں۔ پٹیل کو ان کے دورہ کشمیر کے دوران سکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑیاں بھی دی گئیں

ایک سینیئر انٹیلیجنس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”اپنی گرفتاری سے پہلے بھی کرن پٹیل نے خود کو پی ایم او میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دو بار کشمیر کا دورہ کیا تھا“

پولیس ذرائع کے مطابق ’کرن پٹیل کو کشمیر کے دورے کے دوران مختلف سہولیات ملتی تھیں۔‘

پٹیل کے خلاف درج کی گئی پولیس شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے رقم اور سہولیات کا مطالبہ کیا

عدالت میں پیش کیے گئے دستاویزات کے مطابق کرن پٹیل کا کشمیر کا یہ تیسرا دورہ تھا، جس کے دوران وہ بالآخر دھر لیے گئے

اس بار کرن پٹیل نے کشمیر میں اپنے کے مقصد کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا ”حکومت نے مجھے جنوبی کشمیر میں سیب کے باغات کے خریدار تلاش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔“

کرن پٹیل پر بڑے کسان لیڈروں اور نئی دہلی کی بیوروکریسی کے نام پر کئی آئی اے ایس افسران کو دھوکا دینے کا الزام بھی ہے

کرن پٹیل کے خلاف 2 مارچ کو دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اگلے دن انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا

اسی طرح کی دھوکہ دہی کا دعویٰ گجرات کے بیاڈ میں رہنے والے ایک بی جے پی کارکن نے بھی کیا ہے

مویشی پالنے سے وابستہ بی جے پی کے ایک کارکن آشیش پٹیل نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا ”ہم مویشی پالنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ہمارے دوستوں کے پاس بھی تقریباً تیس سے چالیس گائیں ہیں۔۔ ہمارا تعارف کرن پٹیل اور ان کے بھائی منیش سے ایک شادی میں ہوا تھا۔ کرن نے ہمیں بتایا کہ وہ پی ایم او میں کام کرتا ہے اور گاندھی نگر میں بی جے پی کے بہت سے وزرا سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ سستے داموں جانوروں کا چارہ فراہم کریں گے اور اس نے شروع میں ایسا کیا تھا۔ اس لیے ہم نے اس پر بھروسہ کیا“

آشیش پٹیل کے مطابق ”یہ کچھ دیر تک چلتا رہا جس کے بعد کرن پٹیل نے آشیش اور اس کے دوستوں کو تمباکو کے کاروبار میں پونے دو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے پر راغب کیا اور پھر یہ رقم غائب کر دی۔ چونکہ پیسے کی ذمہ داری میں نے لی تھی، اس لیے لوگ میرے پاس پیسے مانگنے آتے تھے۔ جب میں نے کرن پٹیل سے اس بارے میں بات کی تو وہ سرخ بتی والی گاڑی لے کر آتا تھا اور مجھے دھمکیاں دیتا تھا۔ اس لیے شروع میں مَیں نے کوئی کارروائی نہیں کی لیکن بعد میں پولیس نے شکایت درج کر کے اسے جیل بھیج دیا“

اس معاملے میں کرن پٹیل کے خلاف بھی شکایت درج کروائی گئی تھی اور ان کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔ آشیش پٹیل کے مطابق پولیس سے شکایت کرنے کے بعد کرن پٹیل نے انہیں پچاس لاکھ روپے واپس کر دیے جبکہ باقی رقم کا معاملہ ابھی تک چل رہا ہے

تاہم کرن پٹیل کے خلاف یہ واحد کیس نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس نے بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کی مدد سے وڈودرا میں گربا منعقد کیا تھا اور لوگوں کے پیسے لے کر لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور تصفیہ بھی ہو گیا

کرن پٹیل کے وکیل نثار وورا کا کہنا ہے ”کشمیر کیس میں ابھی کافی تفصیلات نہیں ہیں لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے کرن پٹیل کا کشمیر میں رہنے والا ایک دوست ہے، جس کے پاس زی پلس سیکیورٹی ہے، جس کے ساتھ وہ سفر کرتا تھا۔ ان کے خلاف کشمیر میں ہوٹل للت پیلس کے مالک کے ساتھ جھگڑے کے بعد شکایت درج کرائی گئی تھی۔“

مختلف دیگر معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے وکیل کہتے ہیں ”نروڈا سوامی نارائن مندر کے لیے بس کرایہ پر رقم کا تنازعہ ہے اور بیاڈ میں تیرہ چیک واپسی کے معاملات ہیں جو عدالت میں زیر التوا ہیں“

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کرن پٹیل کی ایک دوست کی مدد سے ان کی اہلیہ ڈاکٹر مالنی پٹیل سے رابطہ کیا۔ ان کی بیوی نے کہا ”کرن پٹیل دیش کی سیوا کر رہے ہیں اور انہیں جھوٹا پھنسایا گیا ہے“

تاہم ایک بھارتی میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میرے شوہر ایک انجینیئر ہیں اور میں ایک ڈاکٹر ہوں، وہ وہاں ترقیاتی کاموں کے لیے گئے تھے اور کچھ نہیں۔۔ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔ میرے شوہر کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کر سکتے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close