یورپ کے مختلف علاقوں میں بھیڑیوں کی بڑی تعداد کی واپسی نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈر نے کہا ہے کہ یورپ کے علاقوں میں بھیڑیوں کی واپسی پالتو جانور اور شاید انسانوں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔
ارسلا وان ڈر نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس درندے کی حفاظت سے متعلق ضوابط پر نظرثانی کی جائے گی
ایک زمانے میں یورپ میں بھیڑیے کی نسل معدوم ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد 1950ع کی دہائی میں کئی ممالک نے انہیں خطرے کی شکار انواع میں شامل کر کے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات شروع کر دیے تھے، لیکن اب کئی علاقوں میں ان بھیڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈر کہتی ہیں ”یورپ کے علاقوں میں بھیڑیوں کے تعداد میں اضافہ مویشیوں اور ممکنہ طور پر انسانوں کے لیے ’حقیقی خطرہ‘ بن چکی ہے“
بھیڑیوں کے خطرہ ہونے سے متعلق یورپین کمیشن کی سربراہ کا اپنا تجربہ بھی ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں ایک بھیڑیا شمالی جرمنی کے گاؤں میں واقع ان کے خاندان کے گھر موجود جانوروں کے باڑے میں داخل ہو گیا تھا اور ان کی ’ڈولی‘ نامی پونی کو مار دیا تھا
دریں اثنا جرمن صوبوں کی ملکی تنظیم نے بھی یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ یونین کے کچھ علاقوں میں بھیڑیوں کے شکار کی قانونی اجازت ہونی چاہیے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے علاقائی سطح پر متنوع پالیسیاں بھی اپنائی جا سکتی ہیں
دوسری جانب جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے حلقوں نے صحتمند بھیڑیوں کی یورپ کے پہاڑوں اور جنگلوں میں واپسی کو سراہا ہے۔ وہ انہیں قدرتی غذائی جال کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں
سنہ 1992 میں یورپ میں نافذ کیے گئے ضوابط کے مطابق بھیڑیا ان جانوروں میں شمار ہوتا ہے، جس کا تحفظ لازمی ہے، لیکن یورپی یونین کی سربراہ نے کہا ہے ”حکام کو جہاں ضرورت محسوس ہو، وہ ضروری کارروائی کر سکتے ہیں اور یورپی یونین کے قوانین انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں“
ارسلا وان ڈر نے مقامی آبادیوں، سائنسدانوں اور حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بھیڑیوں کی درست تعداد اور ان کے یورپین کمیشن کے تحت آنے والے علاقوں پر اثرات سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ 22 ستمبر تک ای میل کے ذریعے ارسال کریں
ان معلومات کو استعمال کرنے ہوئے یورپین کمیشن فیصلہ کرے گا کہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں کیسے ترامیم کی جائیں اور ’ضرورت کے مطابق ان میں لچک‘ پیدا کی جائے
دوسری جانب بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں تمام سولہ وفاقی صوبوں نے اس سلسلے میں یونین سے ایک باقاعدہ مطالبہ کر دیا ہے کہ یورپی یونین بھیڑیوں کے شکار کی اجازت دے
اس مطالبے میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین نے اپنے ہاں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کے تحت جو پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، وہ اب بہت بدل چکے حالات کے پیشِ نظر علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے مختلف اور متنوع بھی ہو سکتی ہیں
اس دلیل کے ساتھ جرمنی سے اب یورپی یونین سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ برسلز اس بات کی اجازت دے دے کہ یونین کے مختلف علاقوں میں جنگلی بھیڑیوں کا شکار قانوناﹰ جائز ہو
جرمنی میں وفاقی صوبوں کی مجموعی تعداد 16 ہے اور ان کے حکومتی سربراہان کی ایک ایسی نمائندہ تنظیم بھی موجود ہے، جو وزرائے اعلیٰ کی کانفرنس یا ایم پی کے کہلاتی ہے۔ اس وقت اس کانفرنس کے سربراہ وفاقی صوبے لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ اشٹیفان وائل ہیں
اشٹیفان وائل کے مطابق یونین کے رکن ممالک کے مختلف حصوں میں جنگلی بھیڑیوں کی آبادی کافی زیادہ ہو چکی ہے اور اس آبادی کے آئندہ خطرناک حد تک زیادہ ہو جانے کو روکنے کے لیے اب یہ ممکن ہونا چاہیے کہ علاقائی بنیادوں پر جنگلی بھیڑیوں کا شکار کیا جا سکے
واضح رہے کہ برسلز میں اسی ہفتے یورپی کسانوں کی طرف سے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا، جس میں شرکاء کا مطالبہ تھا کہ بھیڑیوں کے شکار سے متعلق موجودہ سخت قوانین نرم کیے جائیں
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں بھیڑیں پالنے والے کسانوں کی تنظیم کے عہدیدار زیمون ڈار شائڈ نے برسلز میں اس مظاہرے کے دوران کہا، ”جنگلی بھیڑیے یقینی طور پر اب جنگلی جانوروں کی کوئی ایسی قسم نہیں رہے، جس کی بقا خطرے میں ہو۔‘‘
زیمون ڈارشائڈ کے مطابق وہ اور ان جیسے دیگر بہت سے کسان جو بھیڑیں پالتے ہیں، سب اپنی چراگاہوں کو حفاظتی باڑیں بھی لگا کر رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے ریوڑوں کی حفاظت کے لیے محافظ کتے بھی رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان اقدامات کے باوجود اب جنگلی بھیڑیوں کے ان کے ریوڑوں پر حملے مسلسل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں
اسی طرح جرمن کسانوں کی ملکی تنظیم کے ایک مرکزی عہدیدار اُوڈو ہَیمرلِنگ نے بھی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو میں مطالبہ کیا، ”حیاتیاتی انواع کے تحفظ سے متعلق یورپی یونین کے بہت سخت قوانین کے تحت جنگلی بھیڑیوں کو ان کے شکار کی ممانعت کے باعث جو بہت زیادہ تحفظ حاصل ہے، اس میں دوبارہ کمی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔‘‘