پاکستان کا ایک ایسا گاؤں، جہاں بجلی کا ماہانہ بل صرف سو روپے!

ویب ڈیسک

پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد شاذ ہی کوئی دن گزرتا تھا کہ بجلی کی قیمت میں نئے نئے اضافوں، سرچارج اور ٹیکسوں کا نوٹیفکیشن نہ نکلتا ہے۔ نگران حکومت بھی انہی قدموں پر چل رہی ہے جس نے عوام کو بجلی کے بلوں میں ’رلیف‘ کا کھبا دکھا کر ایک نئے اضافے کا سجا مار دیا ہے۔۔ اور اب عوام کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ مہنگائی پر بات کرتے ہی رو پڑتے ہیں۔۔

ایک طرف جہاں بجلی کے بھاری بلز اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، وہیں خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں برشمنال نامی ایک ایسا گاؤں بھی ہے،جس کے باسی چوبیس گھنٹے بجلی استعمال کرنے کے ماہانہ صرف ایک سو روپے کا بل ادا کرتے ہیں

برشمنال گاؤں کے رہائشی اسلام محمد بتاتے ہیں کہ ان کے ایک پڑوسی نے گاؤں کے بیچ و بیچ گزرنے والے ایک برساتی نالے پر چند سال قبل چھوٹا پن بجلی گھر بنایا تھا، جس سے قریب کے سب گھروں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ اسی بجلی سے ان گھروں میں لائٹ، فریج، پنکھے، واشنگ مشین اور استری استعمال کرنے کی سہولت پیدا ہوئی

ایسے چھوٹے پن بجلی گھر بنانے والوں میں سے ایک شوکت علی نے آٹھ سال پہلے دس لاکھ روپے کی لاگت سے یہ منصوبہ تعمیر کروایا تھا جو اب ڈیڑھ سو سے زیادہ گھروں کو بجلی فراہم کرتا ہے

برشمنال گاؤں ضلع بونیر کے صدر مقام ڈگر سے بتیس کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع تحصیل چغرزئی کا علاقہ ہے۔ یہاں پہنچے کے لیے پہاڑوں کے دامن سے دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، جو مخصوص گاڑیوں پر سفر کے سوا ممکن نہیں

اس جدید دور میں بھی یہاں واپڈا کی بجلی نہیں پہنچ سکی، کچھ عرصہ قبل اگر ہم یہ بات سنتے تو اس گاؤں کو بدقسمت قرار دیتے، لیکن روزانہ کی بنیاد پر مہنگی ہونے بجلی کے بل دیکھ کر اب اس گاؤں کی یہی بدقسمتی، خوش قسمتی میں بدل گئی ہے، ایسی خوش قسمتی، جس پر رشک کیا جا سکتا ہے

برشمنال میں بجلی پیدا کرنے والے نجی منصوبے لگانے والوں میں سے ایک شوکت علی نے بتاتے ہیں ”مجھے علاقے میں گاڑیوں کے ایک مکینک نے کئی سال قبل یہ مشورہ دیا تھا کہ آپ کچھ رقم خرچ کر کے نہ صرف اپنے بلکہ گاؤں کے بہت سے لوگوں کے لیے باآسانی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ مستری کے مشورے سے بڑے نالے سے پانی موڑنے کے لیے ایک چھوٹا نالہ، کمرہ اور ضلع مرادن کے علاقے گجر گھڑی سے آلات خریدے گئے اور پھر منصوبے کی تکمیل سے بجلی کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا۔“

اس وقت برشمنال گاؤں میں سات چھوٹے پن بجلی گھر کام کر رہے ہیں، جن کے ذریعے قریب آٹھ سو گھروں کو بجلی مہیا کی جاتی ہے

مقامی لوگوں کے لیے سستی بجلی کی فراہمی پن بجلی گھروں یا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے ذریعے ممکن ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ بہتے پانی کو روکے بغیر، محض اس کا رُخ تبدیل کرنے سے سستی توانائی پیدا کرنے کو ہائیڈرو پاور یا پن بجلی گھر کہا جاتا ہے جس میں پانی کو استعمال کرنے کے بعد واپس برساتی نالے میں خارج کیا جاتا ہے

شوکت علی نے برساتی نالے پر بند بنا کر پانی کی کچھ مقدار کو اپنے تعمیر کردہ نالے میں منتقل کیا۔ ایک کلومیٹر طویل یہ مصنوعی نالہ پانی کو ایک خاص اونچائی تک لے جاتا ہے جہاں سیمنٹ کی ٹینکی میں پانی جمع ہو کر یہاں سے لوہے کے تیس انچ موٹے پائپ سے نیچے منتقل کیا جاتا ہے۔ اس بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بڑا وال نصب ہے۔ تیزی سے پانی گرنے سے ٹربائن گھومتا ہے اور جنریٹر بجلی پیدا کرتا ہے

برساتی نالے میں پانی کی مقدار کم ہونے کی صورت میں وال کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس سے بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے

جہاں ان دنوں پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری بلوں پر عوام پریشان دکھائی دیتی ہے وہیں برشمنال کے دیگر باسیوں کی طرح اسلام محمد بھی علاقے کے ایک نجی بجلی گھر سے انتہائی سستے داموں بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”ملک کے حالات دیکھ کر ہم اس بات پر خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ (ہمارے گھروں میں) نہ لوڈشیڈنگ ہے اور نہ ہی بھاری بل کی کوئی پریشانی“

ایک دوسرے پن بجلی گھر کے مالک ساٹھ سالہ فیروز شاہ پچاس سے زیادہ گھروں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے لیے مجموعی طور پر پانچ سے چھ ہزار روپے کا بل وصول کیا جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایک لائٹ کا ’ماہانہ سو روپے بل مقرر ہے تاہم لوگ واشنگ مشین، فریج، استری اور ٹی وی کو بغیر اجازت کے استعمال کرتے ہیں اور حجرے کا بل کسی سے نہیں لیا جاتا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں بغیر کسی تعطل کے لوگوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے

شوکت علی نے بتایا ”مجھ سے بہت سے لوگ نئے کنیکشن کے لیے رابطہ کرتے ہیں لیکن سسٹم چھوٹا ہونے کی وجہ سے مزید لوڈ براشت نہیں کر سکتا۔ اگر حکومت اس کی توسیع میں مدد کرے تو یہاں پر کوئی گھر بجلی کی سہولت سے محروم نہیں رہے گا“

اس حد تک سستی بجلی ملنے کے باوجود بھی لیکن یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو اس پر بھی قانع نہیں۔ شوکت علی بتاتے ہیں ”جب میں لوگوں سے بجلی کے استعمال کے عوض سو روپے ماہانہ مانگتا ہوں تو اُس کا جواب ہوتا ہے کہ ’کس چیز کے پیسے؟ یہ تو پانی ہے اور آپ اُس کے پیسے لے رہے ہیں۔‘

شوکت نے کہا ”بمشکل ماہانہ چھ ہزار روپے جمع ہو جاتے ہیں تاہم بجلی گھر کے ساتھ گندم اور مکئی کو پیس کر آٹا تیار کرنا، لکڑی کاٹنے اور چاول صاف کرنے کی مشین بھی پانی سے چلا کر معاشی ضروریات پوری کی جاتی ہیں“

واضح رہے کہ ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ کے مطابق خیبر پختونخوا 2700 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ ضرورت 3500 میگا واٹ ہے یعنی قریب 800 میگاواٹ کا شارٹ فال ہے

جبکہ ’ٹرائیبل سپلائی کمپنی‘ کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع میں کمرشل، انڈسٹری اور گھریلو صارفین کے لیے 1245 میگاواٹ بجلی درکار ہے تاہم گھریلو صارفین کو 780 میگا واٹ، انڈسٹری کو 137 میگا واٹ اور کمرشل یا تجارتی مراکز کو 20 میگا واٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے

فضل امین کی رائے ہے کہ گاؤں سے گزرنے والے برساتی نالے پر کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں چھوٹے پن بجلی گھر تعمیر ہو سکتے ہیں، جبکہ پہلے سے قائم بجلی گھروں کی پیدواری صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے

خیبر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے ڈائریکٹر پلیننگ انجینیئر سید حبیب شاہ کا کہنا ہے کہ سال 2013 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پہلے صوبے کے پاس پانچ، پانچ میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کا اختیار تھا تاہم آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو لامحدود مقدار میں بجلی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا

اس بنیاد پر پیڈو صوبے کے مختلف اضلاع میں پن بجلی گھروں کے سات منصوبوں سے 161 میگا واٹ بجلی نیشنل گریڈ کو فراہم کر رہا ہے

اُنھوں نے بتایا ”دس منصوبوں کی تعمیر پر کام جاری ہے، جن میں سے تین منصوبے جون 2024 جبکہ باقی مرحلہ وار آنے والے برسوں میں پورے جائیں گے۔ اُن کے بقول جاری منصوبوں سے 778 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔“

پیڈو کے مطابق ملک کے باقی صوبوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کی مواقع بہت زیادہ ہے

ادارے کے مطابق پن بجلی گھر سے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جن میں 30 ہزار صوبے کے اپنے وسائل سے جبکہ باقی پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ سے ممکن ہے۔

سید حبیب شاہ کے مطابق پانی سے حاصل ہونے والی سستی بجلی اُس صورت میں نیشنل گرڈ کو دی جا سکتی ہے، جب پیداوار زیادہ اور ٹرانسمیشن لائن پر اخراجات کم ہوں تاہم ’اگر کوئی منصوبہ یہ ضروریات پوری نہیں کرتا تو صرف مقامی آبادی کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔‘

سیلاب کی صورت میں پن بجلی گھروں کو نقصان کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ فیروز شاہ کے مطابق بارشوں میں پن بجلی گھروں کے مالکان شدید پریشانی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ نالے میں سیلابی صورت سے نہ صرف پانی کی سپلائی کا نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات بجلی گھر میں نصب مشینری کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے

اُن کے بقول اگست 2022 میں سیلاب کی وجہ سے پانی اس کمرے میں داخل ہوا، جہاں مشینری نصب تھی جس سے ’ایک لاکھ روپے سے زائد نقصان ہوا اور کئی دن تک بجلی کی سپلائی معطل رہی۔‘

شوکت نے پچھلے سیلاب سے بجلی گھر کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے ڈپٹی کمشنر کو تمام دستاویزات جمع کرائیں لیکن ’کسی نے آج تک رابطہ نہیں کیا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ شدید بارشوں اور سیلاب سے پن بجلی گھروں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

26 اگست 2022 کے سیلاب کی وجہ سے ضلع کوہستان میں رنیولہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو جزوی نقصان پہنچا جہاں سے 17میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی تھی۔ ادارے کے مطابق اس کی بحالی کا کام جاری ہے۔

سید حبیب شاہ کا کہنا ہے کہ سو سال کی تاریخ میں سب سے زیادہ سیلابی پانی پچھلے سال آیا لیکن سوائے ایک کے، باقی تمام منصوبے نقصان سے محفوظ رہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ہائیڈرو پاور کے تمام منصوبے برستاتی نالوں کے قریب تعمیر ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہر ایک منصوبے کی دیگر اُمور کے ساتھ سیلاب سے بچاؤ کے لیے سوسالہ ریکاڈ کو مد نظر رکھ کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close