مہلب

مشتاق رسول

پتہ ہے  جب تم  صبح اٹھ کر گھر کی کھڑکیاں کھولتی ہو، گھر کی ایک کھڑکی کے قریب باہر لگا گلاب کا پودا، ہاں وہی  گلاب کا پودا برسات کے موسم میں تمہارے گلابی رخساروں کی طرح جس کی ٹہنیوں پر سرخ  پھول کھلتے تھے… اب کے بھی اس پر اسی طرح پھول کھلے اور سجے ہوئے تھے، اور پھولوں پر تھمی ہوئی  برسات کی نازک بوندیں پڑ رہی تھیں… پھول خوشی سے کھلکھلا  کر شرم کے مارے سر جھکائے ہوۓ تھے، پھولوں کی  پنکھڑیاں خوبصورتی بکھیر رھی تھیں..

جب میں نے گلاپ کے پھول سے نظریں ہٹا کر تمہیں دیکھا، تم میرے ان احساسات کو سمجھ گٸیں، اسی سمۓ تم نےمجھے  اپنی نرگسی أنکھوں سے دیکھ کر گلابی ہونٹوں پر دل آویزا تبسم بکھیر دیا تھا  اور میں نے تم سے کہا تھا
”مہلب! آج تم  موسم سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔ جان من میری زندگی کی ہر ایک ساعت تمہاری زندگی سے منسوب ہے۔ اگرچہ شادی سے پہلے کبھی بھی ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں تھا… مگر ہم اپنے دل میں زندگی کی ہمسفر کے جو عکس لیے خیالات کی دنیا میں سرگرداں تھے، تو مجھے اور تمہیں بذریعہ والدین اللہ نے ملا دیا۔
تمہیں یاد ہے ، سہاگ رات کو تمہارا گھونگھٹ اٹھانے کے بعد تمہیں اپنے سینے سے لگایا تھا، تم سمٹ رہی تھیں اور محبت سے دھڑکتے ہمارے دو دل جب ایک ہوۓ اور ہمارے جسم اس طرح گھل مل گۓ کہ ان دونوں میں ایک ہی روح گردش کرنے لگی۔  اسی لمحے تونے اپنی چھلکتی نظروں سے مجھے  پیار کا پیالہ پلا کر میری  تشنگی کو جو جلا بخش کر مجھے مدھوش کی وجدانیت میں رنگ دیا۔  ہماری اردگرد خاموشی چھا  ہوئی تھی۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رات کس طرح اپنے اختتام  کو پہنچی۔  صبح جب سورج نے نازک کرنوں کی روشن چادر زمین پر پھیلا دی، تم نے بیڈ پر میرے سرہانے بیٹھ کر میرے ہاتھ  پر اپنے نازک ہاتھ  رکھ کر ترنمی أواز میں کہا ”جی اٹھیں بھی تو“ میں نے انکھیں کھولیں… تمیاری زلفیں بھیگی ہوئی تھیں..

تمہارا ہاتھ میں نے اپنے ہاتھ میں تھام کر  تم سے ساحر لدھیانوی کے اس شعر سے مخاطب ہوا ”تیری زلفیں بکھریں تو رات ہے، تیری ہونٹ ترکیں تو صبح ہے“
یہ سن کر تمہاری آنکھیں روشن ہوئیں اور سرخی مائل ہونٹوں پر تبسم بکھر گیا، تم نے اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا.. مجھے یوں گمان ہوا کہ تونے میرے دل میں اپنے ہونٹوں کے تبسم کا پیوند لگا لیا ہو۔

اس نے  اک لمحہ واٹس اپ سے نظریں ہٹادیں…. کمرے میں رکھے ہوئے ڈریسنگ روم کے آئینے  میں خو کو دیکھا کہ اپ غمان غم کا برف اس کے ذہن کی وادیون سے  پگھل رہی تھی۔
چہرے میں تازگی اور خشک ہونٹوں پر گلابی رنگ پھوٹ رہا تھا۔ اسی غم نے رات بھر اس کی آنکھوں سے نیند کو شاخ پر بیٹھے بلبل کی طرح اڑایا تھا۔
اس نے اپنے بکھرے ہوۓ زلف اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے سنوارے، پھر انڈرائڈ موبائل پر اپنے شوہر کا طویل میسیج پڑھنے لگی۔
جان من معمول کی طرح رات کو تم واٹس اپ پر اپنی تصویر میرے طرف سینڈ کرتی ہو تو میں ہر صبح  تیری تصویر پر ایک  شعر لکھ کر تمہیں سینڈ کرتا ہوں،  مگر میری ھم نفس  رات کو  واٹس اپ پر بھیجی ہوئی تمہاری تصویر میں تمہاری نرگسی  آنکھیں نڈھال ہیں، گلابی ہونٹوں پر وہ تبسم نہیں ہے،  تمہاری زلفیں  پریشان ہیں، تمہاری اس پریشانی کا اندازہ میں نے وائس کال سے ہی لگایا تھا۔ تم بار بار وڈیو کال کرنے کے لیے اصرار کر رہی تھی۔ مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ تم میری طبیعت کے بارے میں  پوچھنے کی بات زبان پہ لانے سے کترا رہی تھیں۔ اپ انجانے خوف میں مبتلا ہو ۔آج مجھے کوارنٹائن میں چودھواں دن ہے.. میں کرونا کو شکست دے چکا ہوں۔ کوارنٹائن ہونے کی وجہ سے تجھے اور امی کو وڈیو کال نہ کرسکا، کہیں آپ لوگ گھبرا نہ جائیں. میں کل آنے سے پہلے تمہیں ویڈیو کال کرکے کراچی انے کی سفر کا أغاز کروں گا۔ اور ہاں جو تم نے معمول کی طرح رات کو  اپنی  تصویر سینڈ کی ہے  یہ تصویر تمہاری غم کی تشہیر کر رہی ہے۔  میں جانتا ہوں میری ھم نفس کہ  ایک تو  میری وقتی دوری نے تمہیں  افسردہ  کیا ہے. دوجہ  میرا کرونا میں مبتلا ہونا سن کر اپ اور امی دونوں ہمت ہار گٸی ہو۔ اج تمہیں لمبی میسیج میں الجھا دیا ہے نا!! اب اٹھو  ذہن کے دریچوں کو کھولنے کے ساتھ کھڑکی بھی کھول لو گلاب کے پودے پر نٸے پھول لگے ہونگے ان پھولوں کی مہک میں میری محبت کی مہک تمہیں محسوس ہوگی۔  مہکتی ہوا تیری نرم زلفوں کو چھوکر تیری بدن کی خوشبو کو سمیٹ کر   مجھ تک پہنچ جائےگی۔

اس نے اپنے شوہر کا طویل میسیج پڑھ کر  موبائل فون بیڈ پر رکھ دیا، کمرے میں رکھے ڈریسنگ روم کے آئینے میں خود کو دیکھا اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو انگلیوں سے سنوارا اور کھڑکی کی جانب بڑھ گئی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close