یہ سنہ 2010 کی بات ہے جب پنجاب پولیس کے افسر احمد عدنان طارق مجرموں کے خلاف ایک کارروائی انجام دیتے ہوئے ٹانگ میں گولی لگنے سے مفلوج ہو گئے اور گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔
وہ دن بھر فارغ رہتے۔ ایک روز دل میں نہ جانے کیا سوجی کہ بیٹے کو ساتھ لیا اور مختلف کتب خانوں کا رُخ کیا، جہاں سے بچوں کے لیے لکھی جانے والی کتابیں خریدیں اور یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا، جو ایک پولیس افسر سے ایک مصنف بننے کی دلچسپ داستان ہے
ان کے اندر ایک کہانی کار شروع سے ہی موجود تھا اور وہ بچپن میں بھی کہانیاں لکھتے رہے تھے، لیکن فرصت کے ان لمحات نے ان میں یہ شوق دوبارہ اجاگر کر دیا اور وہ اب بچوں کے ادب کا ایک معتبر حوالہ تصور کیے جاتے ہیں
بچوں کے لیے ادب پڑھنے اور تخلیق کرنے کا شوق ان کو اپنی والدہ سے وراثت میں ملا تھا، اور یہ بچپن کا خواب ہی تھا، جسے انہوں نے گھر میں اپنی بیماری کے دوران پورا کیا اور جب وہ پنجاب پولیس سے ایس ایچ او کے طور پر رواں برس جولائی میں ریٹائر ہوئے تو انہوں نے بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر پورا وقت صرف کرنے کا فیصلہ کیا
وہ اب تک تین ہزار پانچ سو کہانیاں تخلیق کر چکے ہیں جو ادبِ اطفال میں ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ ان کی کہانیوں میں موجود تنوع ان کو اپنے ہم عصروں سے منفرد بناتا ہے جب کہ وہ اپنے طور پر پانچ سو کے لگ بھگ اسکولوں میں بچوں کی لائبریریوں کی تزئین و آرائش کرنے کے علاوہ ان لائبریریوں کو کتابوں کا عطیہ بھی دے چکے ہیں
فیصل آباد میں پیدا ہونے والے احمد عدنان طارق پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے تھے اور بتیس برس کی ملازمت کے بعد ایس ایچ او کے عہدے پر ترقی پائی اور کچھ عرصہ قبل چھتیس برس تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے
گزرے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے احمد عدنان طارق بتاتے ہیں ”میرے بچپن کے دنوں میں کسی کسی گھر میں ہی ٹیلی ویژن سیٹ ہوتا تھا۔ ایک ٹیلی ویژن سیٹ ہمارے گھر میں اور دوسرا ایک اور پڑوسی کے گھر میں تھا، اُس وقت تعلیم یافتہ خاندانوں کے بچے مطالعہ کیا کرتے تھے اور بچوں کے لیے جو ادب تخلیق ہو رہا تھا وہ زیادہ تر تراجم پر مشتمل تھا۔ لکھنے والے نہایت پڑھے لکھے لوگ تھے جن میں پروفیسرز بھی شامل تھے۔ اس زمانے میں کتابوں کے کنٹینرز آتے تھے۔ پروفیسرز انہی کتابوں میں شامل کہانیاں ترجمہ کر دیتے تھے لیکن جیسے ہی وقت نے کروٹ لی تو یہ کنٹینرز آنا بند ہو گئے اور ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے لوگ ناپید ہونا شروع ہو گئے۔ وہ بچوں کے ادب کا سنہری دور تھا کیونکہ اس وقت بچوں کی ذہنی سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے ادب تخلیق کیا جا رہا تھا“
احمد عدنان نے اپنی پہلی کہانی اور مطالعے سے لگاؤ کے بارے میں بتایا ”میری والدہ ایک سرکاری اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، تو میں ان کے ساتھ جا کر اسکول کی لائبریری میں کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ میں جب چھٹی جماعت میں تھا تو اپنی پہلی تحریر لکھی، جو اُس وقت کے مشہور رسالے ’تعلیم و تربیت‘ میں شائع ہوئی۔“ ان کے بقول، وہ واحد مصنف ہیں، جو اس رسالے میں مسلسل ایک سو بیس ماہ تک لکھتے رہے
احمد عدنان بتاتے ہیں ”میں جب مفلوج ہوا تو مختلف اسکولوں کی لائبریریوں کا رُخ کیا، جن کی حالت خستہ ہو چکی تھی۔ ان اسکولوں کے حکام مجھے وہاں دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ ایک ایس ایچ او کا یہاں کیا کام ہے؟ وہ مجھے وزیر اعلٰی کی کسی ٹیم کا خفیہ رُکن خیال کیا کرتے، جس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے مجھے ان لائبریریوں تک مکمل رسائی دے دی“
اس کے بعد انہوں نے مختلف اسکولوں میں جا کر اپنے خرچے پر پانچ سو کے قریب لائبریریوں کی تزئین نو کی اور وہاں کتابیں بھی رکھوائیں۔ اس دوران وہ مختلف رسائل اور اخبارات میں کہانیاں بھی لکھتے رہے
احمد عدنان کہتے ہیں ”میں جب ادبِ اطفال سے متعلقہ کتابیں جمع کرنے کی غرض سے مختلف شہروں میں گیا تو اس دوران میرا مفلوج ہونے کا احساس بھی مکمل طور پر ختم ہو گیا اور میں نے سنہ 1916 سے اب تک بچوں سے متعلق تخلیق کیا جانے والا تمام ادب جمع کر لیا، جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہے“
وہ بتاتے ہیں ”میں نے 2013 سے باقاعدہ کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا اور وہ اب تک تین ہزار پانچ سو سے زیادہ کہانیاں تخلیق کر چکا ہوں۔ بچوں سے متعلق شاید ہی کوئی اخبار یا رسالہ ایسا ہو گا جس میں میری کہانی شائع نہ ہوئی ہو“
احمد عدنان طارق نے اپنی یاداشتوں کو بھی قلم بند کیا ہے، جس کے بارے میں انہوں نے بتایا ”بطور پولیس افسر میں نے جو کچھ دیکھا، ان یادداشتوں کو اپنی کتاب ’جرائم کی سچی کہانیاں‘ میں قلم بند کر دیا ہے“
وہ بتاتے ہیں ”میں نے بچوں کا ایک ناول بھی لکھا ہے۔ بچوں کے لیے نظمیں بھی لکھی ہیں جبکہ بچوں کی کہانیوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے، نیشنل بُک فاؤنڈیشن نے میری دس کے قریب کتابیں شائع کی ہیں۔ اس طرح کچھ اور پبلشرز نے بھی کئی کتابیں شائع کیں ہیں، آج کل میں مکتبہ جدید کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہا ہوں“
احمد عدنان نے اپنی گفتگو میں بتایا ”میری شخصیت اور ادب پر ایم فل کے تین مقالے لکھے جا چکے ہیں اور ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا گیا ہے۔ فیصل آباد آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر نے مجھے حال ہی میں آگاہ کیا ہے کہ وہ فیصل آباد میوزیم میں میرے نام سے ایک کارنر متعارف کروا رہے ہیں، جہاں میں کہانیاں سنایا کروں گا“
پنجاب پولیس کے اس سابق ایس ایچ او نے ادب اطفال کے مختلف ایوارڈز بھی اپنے نام کیے ہیں، جن میں یو بی ایل کا چلڈرن لٹریری ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا ”میں نے سنہ 2020 میں یو بی ایل چلڈرن لیٹریری ایوارڈ اپنے نام کیا جو پاکستان کا ادبِ اطفال کے تناظر میں سب سے گراں قدر ایوارڈ ہے۔ سنہ 2021 میں مجھے دوبارہ بھی اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اب تو میرا محکمہ بھی یہ سوچ رہا ہے کہ میرا نام ستارہ امتیار کے لیے تجویز کیا جائے“
احمد عدنان بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے حوالے سے کہتے ہیں ”بچوں کے لیے لکھنا آسان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ادب اطفال میں لکھاریوں کی تعداد بھی کم نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے سے پہلے خود بچہ بننا پڑتا ہے اور ایسی کہانی تخلیق کرنا پڑتی ہیں جن سے بچوں کی تربیت کی جا سکے“
احمد عدنان نے کئی ممالک کی سیاحت بھی کی ہے۔ وہ یورپ، ایشیا اور افریقہ گئے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوکر بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں لکھیں۔ اس طرح انہوں نے مختلف ممالک کی ایسی کہانیاں بھی لکھیں، جن سے ان ملکوں کے جغرافیے، زبان اور محل و وقوع کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ’سانپوں کا راجا‘ بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے، جس میں سارک ممالک کے موسم اور طبعی ماحول سے متعلق کہانیاں شامل ہیں
ان کے مطابق کچھ بچوں کی کہانیاں ان کی قانون سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے بھی لکھی ہیں، جن میں بچوں کو بتایا ہے کہ ٹیلی فون کال کس طرح اٹینڈ کرنی ہے، کس کی کال اٹھانی ہے اور کس کی نہیں
احمد عدنان طارق کا کہنا ہے ”مجھے گذشتہ دنوں ملتان ادبی کانفرنس میں بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے کہا کہ اب تو جن آزاد ہوا ہے۔ پہلے میں پندرہ گھنٹے کام کرتا تھا اور کچھ وقت بچوں کے ادب کو دیتا تھا، لیکن اب یہ معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔ اب میں پندرہ سے بیس گھنٹے کہانیاں لکھنے پر صرف کروں گا اور مزید کہانیاں تخلیق کروں گا۔“