فون بجنا شروع ہوا تو وہ تیزی سے، چپل، پاجامہ اور گاؤن میں ہی اسٹڈی روم سے باہر نکل آیا۔ دس بج چکے تھے، اس لیے کال اس کی بیوی کی ہی ہو سکتی تھی۔ جب وہ ٹاؤن سے کہیں باہر جاتی تھی، اسی طرح، ہر رات شراب پینے کے بعد فون کرتی تھی۔ وہ بزنس وومن تھی اور اس پورے ہفتے وہ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر تھی۔
”ہیلو۔“ اس نے کہا، ”ہیلو۔“ اس نے دوبارہ کہا
”کون بات کر رہا ہے؟“ ایک خاتون نے دوسری جانب سے پوچھا۔
”ارے بھئی آپ بتائیں، آپ کون ہیں؟“ اس نے کہا، ”آپ نے کس نمبر پر کال کی ہے؟“
”ایک منٹ۔“ خاتون نے کہا، ”میں نے ۲۷۳-۸۰۶۳ پر کال کی ہے۔“
”یہ میرا نمبر ہے۔“ اس نے کہا، ”آپ کو یہ نمبر کیسے ملا؟“
”مجھے نہیں معلوم۔ جب میں کام سے واپس گھر آئی تو مجھے یہ نمبر ایک کاغذ کی پرچی پر تحریر ملا تھا۔“ خاتون نے کہا
”نمبر کس نے لکھا تھا؟“
”میں نہیں جانتی۔“ خاتون نے کہا، ”شاید، بے بی سٹر نے۔۔ہاں، بالکل وہی ہوگی۔“
”مجھے نہیں معلوم آپ کی بے بی سٹر کو یہ نمبر کیسے ملا“ اس نے کہا، ”لیکن یہ میرا نمبر ہے.. اور اس کا تو ڈائریکٹری میں اندراج ہی نہیں ہے۔ اگر آپ اسے پھاڑ کر پھینک دیں تو میں آپ کا ممنون رہوں گا۔ ہیلو؟ کیا آپ کو میری آواز آ رہی ہے؟“
”جی ہاں، میں نے سن لیا۔“ خاتون نے جواب دیا
”اور کوئی بات؟“ اس نے کہا، ”کافی رات ہو چکی ہے اور میں مصروف ہوں۔“ وہ خاتون کو ٹکا سا جواب دے کے فون نہیں بند کرنا چاہتا تھا، لیکن کوئی رسک بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ فون کے ساتھ رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور کہا، ”میرا مقصد بے اعتنائی نہیں تھا۔ میرا مطلب بس یہ تھا کہ کافی دیر ہو گئی ہے۔۔ اور میں متفکر ہوں کہ آپ کو میرا نمبر کیسے ملا۔“ اس نے اپنی چپل اتار دی اور جواب کا انتظار کرتے ہوئے اپنے پیر کا مساج کرنے لگا
”میں بھی نہیں جانتی“ خاتون نے کہا، ”میں نے آپ کو بتایا نا کہ مجھے یہ ایک پرچی پر لکھا ہوا ملا تھا، اس کے ساتھ کوئی اور چیز یا ہدایت نہیں تھی۔ میں آپ کے آرام میں خلل ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن یہ مجھے ابھی ابھی نظر آیا ہے۔ میں کام سے واپس آنے کے بعد سے مسلسل باورچی خانے میں مصروف تھی۔“
”کوئی بات نہیں“ اس نے کہا، ”چھوڑیں نمبر کو.۔ پھینک دیں یا کچھ بھی کریں اور بھول جائیں اسے۔۔ کوئی مسئلے کی بات نہیں ہے، اس لیے پریشان نہ ہوں۔“ اس نے ریسور ایک کان سے دوسرے کی طرف منتقل کر لیا۔
”آپ اچھے انسان لگتے ہیں“ خاتون نے کہا۔
”کیا واقعی؟ بہت شکریہ، نوازش ہے آپ کی۔“ وہ جانتا تھا کہ اسے اب فون بند کر دینا چاہیے، لیکن اسے آواز سننا اچھا لگ رہا تھا، یہاں تک کہ اپنی آواز بھی، خاموش کمرے میں۔
”جی بالکل۔“ خاتون نے کہا، ”میں اندازہ لگا سکتی ہوں۔“
اس نے اپنے پیر کا مساج بند کر کے اس واپس نیچے فرش پر رکھ لیا۔
”اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں؟“ خاتون نے کہا۔
”میرا نام آرنلڈ ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
”اور آپ کا فرسٹ نام کیا ہے؟“ خاتون نے پوچھا۔
”آرنلڈ ہی میرا فرسٹ نام ہے۔“ اس نے کہا۔
”اوہ، معاف کیجیے گا۔“ خاتون نے کہا، ”اچھا آرنلڈ، آپ کا سیکنڈ نام کیا ہے؟“
”مجھے واقعی اب فون بند کر دینا چاہیے۔“ اس نے کہا۔
”آرنلڈ، خدا کے لیے، میں کلارا ہولٹ ہوں۔ پلیز اب تو آپ اپنا پورا نام بتا دیں، مسٹر آرنلڈ؟“
”آرنلڈ بریٹ۔“ اس نے جواب دیا اور جلدی سے مزید کہا، ”کلارا ہولٹ، اب مجھے واقعی فون منقطع کر دینا چاہیے۔۔مس ہولٹ، میں ایک فون کا انتظار کر رہا ہوں۔“
”معاف کیجیے گا، آرنلڈ۔ میں آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔“ کلارا نے کہا۔
”کوئی بات نہیں۔“ اس نے کہا، ”مجھے آپ سے بات کرنا اچھا لگا۔“
”بہت شکریہ۔۔ آ پ کی مہربانی ہے، آرنلڈ۔“
”کیا آپ ایک منٹ کے لیے ہولڈ کریں گی؟“ اس نے کہا، ”ایک چھوٹا سا کام کر کے ابھی آیا۔“ وہ سگار لینے کے لیے اسٹڈی روم میں گیا، سگار ڈیسک لائیٹر سے جلانے میں اسے ایک منٹ لگا، پھر اپنی عینک اتاری اور آتشدان کے اوپر آویزاں آئینے میں خود کو دیکھا۔ جب وہ واپس فون کے پاس آیا تو اسے ڈر تھا کہ کہیں کلارا نے فون منقطع نہ کر دیا ہو۔
”ہیلو۔“
”ہیلو، آرنلڈ۔“ خاتون نے کہا
”میں نے سوچا شاید آپ نے فون بند کر دیا ہے۔“
”ارے نہیں“ خاتون نے کہا
”اچھا، آپ کے پاس جو میرا نمبر ہے“ اس نے کہا، ”میرا خیال ہے اس کی وجہ سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس پھینک دیں اس کو۔“
”میں پھینک دوں گی۔“ عورت نے کہا۔
”اچھا، اب مجھے خدا حافظ کہنا چاہیے، پھر۔“
”جی، بالکل۔“ عورت نے کہا، ”میں بھی اب شب خیر کہوں گی۔“
اس نے عورت کی گہری سانسوں کی آوازیں سنیں۔
”میں جانتی ہوں کہ میں آپ کو زحمت دے رہی ہوں، آرنلڈ، لیکن آپ کا کیا خیال ہے، کیا ہم کہیں مل کر بات کر سکتے ہیں؟ صرف چند منٹ کے لیے؟“
”مجھے افسوس ہے کہ یہ ممکن نہیں۔“ اس نے کہا۔
”صرف ایک منٹ کے لیے، آرنلڈ۔ مجھے آپ کا نمبر ملنا اور سب کچھ، میں ان سب کے لیے بہت فکر مند ہوں، آرنلڈ۔“
”میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔“ اس نے کہا۔
”اوہ، نہیں ایسا نہیں ہے۔“ عورت نے کہا۔
”واقعی، میں بوڑھا ہوں۔“ اس نے کہا۔
”کیا ہم کہیں مل سکتے ہیں، آرنلڈ؟ دیکھیے، میں نے آپ کو سب کچھ نہیں بتایا ہے۔ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں۔“ عورت نے کہا۔
”کیا مطلب؟“ اس نے کہا، ”کیا کہنا ہے چاہتی ہیں آپ؟ ہیلو؟“
عورت نے فون بند کر دیا۔
جب وہ سونے کے لیے بستر تیار کر رہا تھا، اس کی بیوی کی کال آ گئی، وہ کچھ نشے میں تھی، وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ دونوں نے کچھ دیر باتیں کیں، لیکن اس نے عورت کی کال کے بارے میں بیوی کو کچھ نہیں بتایا۔ بعد میں، بیڈ شیٹ بچھاتے ہوئے، فون دوبارہ بجا۔
اس نے رسیور اٹھایا لیا، ”ہیلو۔ آرنلڈ بریٹ بات کر رہا ہوں۔“
”آرنلڈ، مجھے افسوس ہے کہ بات کے درمیان ہی لائن کٹ گئی۔ میں کہہ رہی تھی کہ ہمیں ملنا چاہیے۔“
اگلی دوپہر اس نے دروازے کے تالے میں چابی ڈالی ہی تھی کہ فون بجنا شروع ہو گیا۔ اس نے اپنا بریف کیس نیچے رکھا اور ہیٹ، کوٹ اور دستانے اتارے بغیر ہی میز کی طرف لپکا اور ریسیور اٹھا لیا۔
”آرنلڈ، معاف کیجیے گا میں نے آپ کو دوبارہ زحمت دی۔“ عورت نے کہا، ”آپ کو آج رات نو، ساڑھے نو بجے کے قریب میرے گھر آنا ہوگا۔ کیا آپ میرے لیے اتنا کر سکتے ہیں، آرنلڈ؟“
جب وہ اس کا نام پکارتی تھی، اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی محسوس ہوتی تھی۔ ”میں یہ نہیں کر سکتا۔“ اس نے کہا۔
”پلیز، آرنلڈ۔“ عورت نے کہا، ”ملنا بہت ضروری ہے ورنہ میں نہ کہتی۔ میں آج رات گھر سے نہیں نکل سکتی کیونکہ شیرل ٹھنڈ لگنے سے بیمار ہو گئی ہے اور اب میں لڑکے کی طرف سے پریشان ہوں۔“
”اور آپ کے شوہر؟“ اس نے جواب کا انتظار کیا۔
”میں شادی شدہ نہیں ہوں.“ عورت نے کہا، ”آپ آئیں گے نا؟“
”میں وعدہ نہیں کر سکتا۔“ اس نے کہا۔
”میں آپ سے آنے کی درخواست کرتی ہوں۔“ عورت نے کہا اور جلدی سے ایڈریس بتا کر فون بند کر دیا۔
’میں آپ سے آنے کی درخواست کرتی ہوں۔۔۔‘ اس نے ہاتھ میں رسیور پکڑے پکڑے ہی جملہ دہرایا۔ اس نے دھیرے سے اپنے دستانے اور پھر کوٹ اتار دیا۔ اس کو محسوس ہوا کہ اسے محتاط ہونا پڑے گا۔ وہ نہانے چلا گیا۔ اس نے آئینے میں چہرہ دیکھا تو ہیٹ اب بھی اس کے سر پر رکھا تھا۔ اس لمحے اس نے عورت سے ملنے کا فیصلہ کر لیا، اور اپنا ہیٹ اور عینک اتار کر منہ پر صابن ملنے لگا۔ اس نے اپنے ناخنوں کا معائنہ بھی لیا۔
”کیا تمہیں یقین ہے یہ وہی گلی ہے؟“ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔
”جی ہاں یہ ہی گلی ہے اور یہ رہی عمارت۔“ ڈرائیور نے کہا
”بس چلتے رہو،“ اس نے کہا، ”مجھے بلاک کے آخر میں اتاردو۔“
اس نے گاڑی سے اتر کر ڈرائیور کو پیسے ادا کیے اور عمارت پر نظر ڈالی۔ کھڑکیوں کے اوپر لگی لائیٹوں نے بالکنیوں کو روشن کیا ہوا تھا۔ جنگلے پر کچھ گملے لگے تھے اور ایک آدھ لان فرنیچر رکھا ہوا تھا۔ ایک بالکنی پر سویٹ شرٹ پہنا ہوا ایک آدمی بالکنی کے جنگلے پر جھکا ہوا اسے دروازے کی طرف جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
اس نے کلارا ہولٹ کی نام کی تختی کے نیچے لگا گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ گھنٹی بجی، دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہو گیا۔ وہ آہستہ آہستہ ہر منزل پر چند لمحے ٹھہر کر آرام کرتا پھر مزید سیڑھیاں چڑھتا۔ اسے لکسم برگ کا ایک ہوٹل یاد آیا، جہاں کئی سال پہلے اس نے اور اس کی بیوی نے پانچ منزلیں سیڑھی کے ذریعے چڑھیں تھیں۔ اس نے تصور کیا کہ اچانک اس کے پہلو میں درد اٹھا ہے، دل میں، اس کی ٹانگیں مڑ رہی ہیں، اور سیڑھیوں سے نیچے گر جانے کی آواز آئی ہے، دھڑام۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکال کر پیشانی پونچھی۔ اپنی عینک اتار کر اس کے شیشے صاف کیے اور اپنے دل کے قابو میں آنے کا انتظار کرنے لگا۔
اس نے راہداری پر نظر دوڑائی۔ منزل کافی خاموش تھی۔ وہ خاتون کے دروازے پر رک گیا، اپنا ہیٹ اتارا، اور آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کا ایک شگاف وا ہوا اور ایک فربہ سی چھوٹی لڑکی نے جھانکا، ”کیا آپ آرنلڈ بیریٹ ہیں؟“ بچی نے کہا۔
”ہاں، میں آرنلڈ ہوں۔“ اس نے جواب دیا، ”کیا آپ کی ممی گھر پر ہیں؟“
”ممی نے کہا تھا آپ کو اندر بلا لوں، ممی اسپرین اور کھانسی کا شربت لینے ڈرگ اسٹور تک گئیں ہیں۔“
اس نے اندر داخل ہو کر اپنی پشت پر دروازہ بند کر دیا۔ ”آپ کا نام کیا ہے؟ آپ کی ممی نے بتایا تھا، لیکن میں بھول گیا۔“
جب بچی نے جواب نہیں دیا تو اس نے دوبارہ با ت کرنے کی کوشش کی۔ ”آپ کا نام کیا ہے؟ شرلی؟“
”شیرل۔“ لڑکی نے کہا، "ش-ی-ر-ل!“
”اوہ ہاں، یاد آیا۔ یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ میں صحیح نام کے قریب ہی تھا۔“
بچی جاکر ایک کشن پر بیٹھ گئی اور اسے دیکھنے لگی۔
”کیا آپ بیمار ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
بچی نے نفی میں اپنا سر ہلا دیا۔
”بیمار نہیں ہو؟“
”نہیں۔“ اس نے جواب دیا
اس نے ارد گرد دیکھا۔ کمرا سنہرے فرشی لیمپ سے روشن تھا، جس کے پول کے ساتھ ہی ایش ٹرے اور میگزین ریک لگا ہوا تھا۔ دیوار کے ساتھ رکھا ہوا ایک ٹی وی چل رہا تھا، لیکن آواز کم تھی۔ ایک تنگ برآمدہ اپارٹمنٹ کے عقب کی طرف جاتا تھا۔ آتش دان تیز جل رہا تھا اور، فضا میں ہلکی سی دواؤں کی بو تھی۔ کافی کی میز پر بال پِن اور رولر رکھے ہوئے تھے، اور کاؤچ پر ایک گلابی باتھ روب پڑا تھا۔
اس نے بچی کو دیکھا، پھر باورچی خانے اور پھر اس کے شیشے کے دروازے کی طرف دیکھا جو بالکنی کی جانب نکلتا تھا۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، اور اس سے اندر آنے والی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے اسے سویٹ شرٹ والا بھاری بھرکم آدمی یاد آگیا۔
”ممی ایک منٹ کے لیے باہر گئیں ہیں۔“ بچی نے کہا، گویا اچانک جاگ گئی ہو۔
وہ اپنے ہاتھوں میں ہیٹ تھامے، پنجوں کے بل ذرا سا آگے جھکا اور بچی کو دیکھ کر کہا، ”میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔“
اسی دوران دروازے کے چابی قفل میں گھومی، دروازہ کھلا اور ایک چھوٹی، زرد اور جھائیوں زدہ چہرے کی عورت کاغذ کا تھیلا ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوئی۔
”آرنلڈ! آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی!“ خاتون نے اس پر تیزی سے اچٹتی نگاہ ڈالی، کچھ بے چینی سے، اور عجیب طرح سے ادھر ادھر سر ہلاتی ہوئی تھیلے سمیت باورچی خانے میں چلی گئی۔
اسے باورچی خانے میں کپ بورڈ کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ بچی اسے کشن پر بیٹھی دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنا وزن پہلے ایک ٹانگ پھر دوسری پر منتقل کیا، پھر ہیٹ سر پر رکھا اور پھر اسی انداز میں دوبارہ اتار دیا، جب عورت دوبارہ نظر آئی۔
”کیا آپ ڈاکٹر ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”نہیں،“ اس نے پریشانی سے کہا، ”نہیں، میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔“
”شیرل بیمار ہے۔ میں کچھ چیزیں خریدنے باہر گئی تھی۔۔۔“ پھر خاتون نے بچی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ”تم نے ان کا کوٹ کیوں نہیں لیا؟“
”پلیز اسے معاف کر دیں۔ ہمارا لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا نہیں ہے۔۔۔ میں رک نہیں سکتا۔“ اس نے کہا، ”مجھے واقعی نہیں آنا چاہئے تھا۔“
”پلیز بیٹھ جائیں۔“ خاتون نے کہا، ”ہم اس طرح بات نہیں کر سکیں گے۔ پہلے میں شیرل کو دوا لے لوں۔ تب ہم آرام سے بات کر سکتے ہیں۔“
”مجھے واقعی جانا چاہئے۔“ اسں نے کہا، ”آپ کے لہجے سے میں سمجھا کہ کچھ بہت ضروری معاملہ ہے۔۔ لیکن مجھے واقعی چلے جانا چاہئے۔“ اس نے نظر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور اسے احساس تھا کہ اس کا اصرار مصمم نہیں تھا۔
”پہلے میں چائے کا پانی رکھ دوں۔“ اس نے خاتون کو کہتے سنا، جیسے وہ اس کی بات سن ہی نہ رہی ہو، ”پھر میں شیرل کو دوا دوں گی۔ اور اس کے بعد ہم فرصت سے بات کریں گے۔“
وہ بچی کو کندھوں سے پکڑ کر باورچی خانے میں لے گئی۔ اس نے دیکھا کہ خاتون نے چمچہ اٹھایا، بوتل پر لگے ہوئے لیبل کا جائزہ لے کر اس کو کھولا اور دو قطرے چمچے پر ٹپکا لیے۔
”اب مسٹر بریٹ کو شب بخیر کہو اور اپنے کمرے میں جاؤ۔“
اس نے بچی کو سر ہلا کر شب بخیر کہا اور پھر عورت کے پیچھے باورچی خانے میں چلا گیا۔ وہ بجائے اس کرسی پر بیٹھنے کہ جس کی طرف خاتون نے اشارہ کیا تھا، وہ اس کرسی پر بیٹھ گیا، جس سے بالکونی، برآمدہ اور چھوٹا سا لیونگ روم نظر آتا تھا۔ ”آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں سگار پی لوں؟“ اس نے پوچھا
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ عورت نے کہا، ”مجھے نہیں لگتا کہ اس سے مجھے کوئی پریشانی ہوگی، آرنلڈ۔ پلیز پی لیجیے۔“
لیکن اس نے سگار پینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اور چہرے پر سنجیدگی طاری کر لی۔ ”یہ بات میرے لئے اب بھی معمہ ہے۔“ اس نے کہا، ”عموماً ایسا بالکل نہیں ہوتا، اس بات کا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔“
”میں سمجھ گئی، آرنلڈ۔“ خاتون نے کہا، ”آپ شاید یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مجھے آپ کا نمبر کیسے ملا؟“
”بالکل، میں جاننا چاہتا ہوں۔“ اس نے کہا۔
وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے پانی ابلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے ٹی وی چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس نے باورچی خانے میں ادھر ادھر دیکھا اور اور پھر باہر بالکنی سمت میں باہر دیکھنے لگا۔ پانی ابلنا شروع ہو گیا تھا۔
”آپ مجھے نمبر کے بارے میں بتانے والی تھیں۔۔“ اس نے کہا۔
”کیا، آرنلڈ؟ معاف کیجیے گا، میں نے سنا نہیں۔“ خاتون نے کہا۔
اس نے اپنا گلا صاف کیا، ”مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو میرا نمبر کیسے حاصل ملا؟“ اس نے کہا۔
”میں نے اینیٹ سے پوچھا تھا، بے بی سٹر – جسے کے بارے میں ظاہر ہے آپ جانتے ہیں۔ بہرحال، اس نے مجھے بتایا کہ جب وہ یہاں تھی تو کسی کا فون آیا تھا جو کہ مجھ سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے واپس کال کرنے کے لیے ایک نمبر دیا تھا۔۔ اور وہ آپ کا نمبر تھا جو اینیٹ نے کاغذ پر لکھ لیا تھا۔ میں بس اتنا ہی جانتی ہوں۔“ خاتون نے ایک کپ اپنے سامنے رکھ لیا، ”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو مزید کچھ اور نہیں بتا سکتی۔“
”پانی ابل رہا ہے۔“ اس نے کہا۔
عورت نے چمچ، دودھ، چینی ڈال کر بھاپ اڑاتا پانی ٹی بیگز پر انڈیل دیا۔
اس نے مزید چینی اپنی چائے میں شامل کر کے اس کو گھول لیا۔ ”آپ نے کہا تھا کہ میرا آنا بہت ضروری ہے۔“
”اوہ، وہ۔۔ آرنلڈ۔“ خاتون نے منہ پھیرتے ہوئے کہا، ”میں نہیں جانتی میں نے کیوں ایسا کیا؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اس وقت کیا سوچ رہی تھی۔“
”یعنی کوئی بات نہیں تھی؟“ اس نے کہا۔
”نہیں۔ میرا مطلب ہے ہاں۔“ خاتون نے سر ہلایا، ”آپ نے کیا کہا، میرا مطلب ہے۔ کچھ نہیں۔“
”سمجھا،“ اس نے کہا۔ وہ چائے میں چمچ چلاتا ہی گیا۔ ”عجیب بات ہے۔“ اس نے کہا، پھر کچھ توقف کے بعد گویا ہوا، تقریباً خود کلامی کے انداز میں ”بہت عجیب۔“ وہ دھیمے سے مسکرایا، پھر کپ ایک طرف رکھ کر نیپکن سے اپنے ہونٹ صاف کر لیے۔
”آپ جا تو نہیں رہے ہیں نا؟“ خاتون نے کہا۔
”مجھے جانا ہوگا۔“ اس نے کہا، ”گھر پر مجھے ایک کال آنے والی ہے۔“
”ابھی نہیں، آرنلڈ۔“ وہ اپنی کرسی کو پیچھے گھسیٹ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی ہلکی سبز آنکھیں، اس کے پیلاہٹ مائل چہرے پر پیوست اور کسی گہری شے سے گھری ہوئیں تھیں، جسے وہ پہلے میک اپ سمجھا تھا۔
خود سے خوفزدہ۔۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ خود اس حرکت پر نادم ہوگا، اس نے کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ بے ڈھنگے پن سے خاتون کی کمر کے گرد حمائل کر دیا۔ خاتون نے بوسہ لینے دیا، لرزتی پلکوں اور کچھ لمحوں کے لیے بند آنکھوں کے ساتھ۔
”دیر ہو چکی ہے۔“ اس نے خاتون سے الگ ہو کر مڑتے ہوئے کہا، ”آپ کی مہمان نوازی کا بہت شکریہ۔۔ لیکن مجھے اب جانا ہوگا، مسز ہولٹ۔ چائے کا شکریہ۔“
”آپ دوبارہ آئیں گے نا، آرنلڈ؟“ خاتون نے کہا۔
اس نے سر ہلایا۔
وہ اس کے پیچھے دروازے تک آئی، جہاں اس نے اپنا ہاتھ پکڑ لیا۔ اسے ٹیلی ویژن کی آواز آ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ آواز بڑھائی گئی تھی۔ اسے دوسرا بچہ یاد آ گیا – لڑکا ۔ وہ کہاں تھا؟
عورت نے اس کا ہاتھ لیا اور اسے جلدی سے اپنے ہونٹوں تک لائی۔ ”مجھے بھولنا نہیں ہے آپ نے، آرنلڈ۔“
”نہیں بھولوں گا۔“ اس نے کہا، ”کلارا۔ کلارا ہولٹ۔“
”ہمارے درمیان اچھی گفتگو ہوئی۔“ عورت نے اس کے کالر پر سے کوئی بال یا دھاگہ جھاڑ تے ہوئے کہا، ”مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ تشریف لائے۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ دوبارہ بھی آئیں گے۔“
اس نے غور سے خاتون کی طرف دیکھا، لیکن وہ اب اس کے کندھوں کے پیچھے کسی نا دیدہ شے کو اس طرح گھور رہی تھی، جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
”اب – شب بخیر، آرنلڈ۔“ اس نے کہا اور ساتھ ہی دروازہ بند کر دیا، جس میں تقریباً اس کا کوٹ پھنستے پھنستے رہ گیا۔
’عجیب بات ہے۔۔‘ اس نے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے کہا۔
اس نے فٹ پاتھ پر پہنچ کر ایک لمبی سانس بھری اور ایک لمحے کے لیے رک کر عمارت کو پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن وہ تعین نہیں کر پایا کہ کون سی بالکنی اس خاتون کی تھی۔ سویٹ شرٹ پہنا ہوا آدمی بالکنی کے جنگلے پر تھوڑا سا اور جھکا اور اسے دیکھنے لگا۔
اس نے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، چلنا شروع کر دیا۔ جب وہ گھر پہنچا، ٹیلیفون بج رہا تھا۔ وہ کمرے کے درمیان، ہاتھ میں چابیاں پکڑے، فون کی گھنٹی بند ہونے تک بالکل خاموشی سے کھڑا رہا۔ پھر اس نے نرمی سے ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، اور کپڑوں کے نیچے اپنا دھڑکتا دل محسوس کیا۔ کچھ لمحوں بعد اس نے سونے کے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا کہ اسی لمحے ٹیلیفون میں دوبارہ جان پڑ گئی، اور اس وقت اس نے فون اٹھا لیا، ”آرنلڈ۔ آرنلڈ بریٹ بات کر رہا ہوں۔“ اس نے کہا۔
”آرنلڈ؟ کیا ہم آج رات کچھ رسمی نہیں ہو رہے!“ اس کی بیوی نے کہا، اس کی آواز سخت اور طعنہ آمیز تھی، ”میں نو بجے سے فون کر رہی ہوں۔ تم باہر مزے کر رہے ہو، آرنلڈ؟“
وہ خاموش رہا اور بیوی کی آواز پر غور کیا۔
”بول کیوں نہیں رہے، آرنلڈ؟“ اس نے کہا، ”تم کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہو۔“
?Original Title: Are You A Doctor
By: Raymond Clevie Carver Jr.