اپنی کتاب ’سلاٹرڈ ود آؤٹ اے نائف‘ میں پاکستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اگست 2015ء میں اپنی حلف برداری کی تقریب کا احوال بیان کیا ہے۔ میں اس کتاب کے اقتباسات یہاں پیش کر رہی ہوں، جو کہ قارئین کو پُراثر لگیں گے اور کفایت شعاری اور دکھاوے کے بارے میں مصنف کے خیالات پر آپ ان کی تعریف بھی کریں گے:
’میری تقریبِ حلف برداری ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی۔ یہ 17 اگست 2015ء کی بات ہے۔ اس سے کچھ روز قبل ایک اسٹیل کا بکسہ میرے چیمبر میں پہنچایا گیا۔ اس میں عجیب و غریب لباس، دھاتی بکل والے جوتے، ایک وِگ اور دیگر سامان موجود تھا۔۔۔ جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال۔ اس عجیب و غریب لباس نے مجھے وہ وقت یاد دلا دیا، جب میں اُن دو چیف جسٹسز کی حلف برداری کی تقریبات میں شریک ہوا تھا، جنہوں نے مجھ سے پہلے عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے بھی ایسا ہی لباس زیبِ تن کیا تھا۔ میں نے اس لباس کو آزادی سے پہلے کے برطانوی دور کی ان متعصبانہ علامات سے مشابہہ پایا، جو آج بھی ہم پر غالب ہیں اور ہمیں مسحور کرتی ہیں۔
’یہی وجہ تھی کہ میں نے بکسے کو سامان سمیت واپس بھیج دیا۔ ہماری قوانین کی کتب میں ججوں کے لیے ڈریس کوڈ کا قانون موجود تھا۔۔۔ یہی میں نے اپنی حلف برداری کے وقت پہنا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوا کہ ہمارے یہاں روایت اور شخصیت سے زیادہ دکھاوے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس پوری تقریب کی شان و شوکت اور اخراجات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’جب ہماری حکومتیں سب کے سامنے کشکول پھیلا رہی ہوں، کیا ایسے میں ہمارا یہ رویہ درست قرار دیا جا سکتا ہے؟‘ یہ وہ سوال ہے، جس پر تمام سرکاری افسران کو عوام کی خاطر دیانت داری سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
’میں اپنے دوست اور ڈرائیور سردار علی حسن کے ساتھ اپنی سرکاری گاڑی جوکہ کچھ پرانی تھی، میں حلف برداری کے لیے ایوانِ صدر گیا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد جب میں ایوانِ صدر کے دروازے سے باہر نکلا تو مجھے بہت سے اہلکاروں نے گھیر لیا اور مجھے سردار علی حسن نہیں ملا۔
’میں نے ان اہلکاروں سے اپنی گاڑی کے بارے میں دریافت کیا تو مجھے ایک بڑی اور بہت مہنگی بلٹ پروف مرسڈیز بینز دکھائی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ اب یہ میری سرکاری گاڑی ہے۔ اس کے ساتھ گاڑیوں کا ایک قافلہ بھی تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں، ایک ایمبولینس، دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے اور ناکارہ بنانے والے آلات سے لیس گاڑی اور چند دیگر گاڑیاں شامل تھیں۔ چنانچہ ایوانِ صدر سے میری آمد اور روانگی کے درمیان دو گھنٹے کے اندر اندر، میں ایک بشر سے نیم دیوتا میں تبدیل ہوچکا تھا۔
’میں نے انچارج کو بتایا کہ مجھے یہ کار اور سیکیورٹی پروٹوکول نہیں چاہیے۔ لہٰذا سردار علی حسن میری گاڑی لے کر آئے، جس کے ذریعے میں سپریم کورٹ واپس آیا۔
’یہ گاڑیوں، قافلوں، پروٹوکول اور خوشامدی افسران جیسی چیزیں ہی ہیں، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کس طرح، کبھی کبھار، ایک عام اور سمجھ دار انسان بھی احساسِ برتری کا شکار شخص کی طرح برتاؤ کرنے لگتا ہے۔ میرے خیال میں ریاست کے خرچے پر اس طرح کے دکھاوے کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور کم خرچ میں ہونے والی تقریب حلف برداری بہتر اور زیادہ پُروقار ہوتی۔‘
جواد ایس خواجہ صاحب نے جس دکھاوے کے بارے میں لکھا ہے، وہ آج بھی اتنا ہی متعلق ہے، جتنا 2015ء میں تھا۔ معاشی بحران کی شدت کے پیشِ نظر ہمارے ملکی معاملات بدتر ہیں۔ معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کا خواب دیکھنے والوں کے لیے اس کا تصور اب یوٹوپیائی ہوچکا ہے۔ ایک طرف غریب و پسماندہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ حکمران اپنے سرپرستوں کو متاثر کرنے کے لیے دولت کی نمائش میں بڑے وفد کے ساتھ سرکاری خرچ پر سفر کر کے اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
آج جب ہمارے ملک میں مہنگائی تقریباً 30 فیصد کی غیرمعمولی سطح پر ہے تو اس وقت پاکستان کی درآمدات میں سب سے بڑا حصہ تیل کا ہے۔ اگر اسے ریگولیٹ کیا جائے تو اس کا ہماری معیشت پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیا سابق چیف جسٹس کے بیان کردہ یہ بڑے قافلے واقعی ضروری ہیں؟ کیا اعلیٰ سرکاری ملازمین کے لیے سیکڑوں لیٹر کے پیٹرول الاؤنسز (یا جسے ہمیں رشوت کہنا چاہیے) ضروری ہیں؟ سماجی کارکن اور میرے دوست نعیم صادق نے حساب لگایا ہے کہ ہمارے حکام سالانہ 216 ارب روپے کا پیٹرول استعمال کرتے ہیں۔ کیا اعلیٰ افسران کو ایک دفتر سے دوسرے دفتر پہنچانے کے لیے اتنا پیٹرول درکار ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا بے دریغ غلط استعمال ہوتا ہے۔
تقریباً تین دہائیوں قبل ایک وزیراعظم، جو ہمارے موجودہ سیاسی مباحث میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، انہوں نے سرکاری ٹرانسپورٹ میں کفایت شعاری کے معاملے کو اٹھایا تھا۔ وہ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو تھے۔ ان کا یہ جملہ بھی مشہور ہوا تھا کہ ’میں جرنیلوں کو بھی سوزوکی میں بٹھا دوں گا‘۔ البتہ وہ اس مشن میں کامیاب نہیں ہوئے اور اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
وقت بدل گیا ہے اور آج ہمیں ایک شدید بحران کا سامنا ہے۔ اس وقت ہماری انتظامیہ میں ایسے ذمہ دار لوگ ہونے چاہئیں جو بحران کے حوالے سے فکر مند ہوں۔ انہیں جواد ایس خواجہ صاحب کی تقلید کے لیے اخلاقی جرأت اور دیانت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جنہوں نے تعیشات کو ٹھکرا دیا اور پاکستانی عوام کے احترام اور پیار سے محروم ہوئے بغیر اپنی ذمہ داریاں مستعدی اور دیانت داری سے ادا کیں۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)