میر، غالب، مومن، جوش، اور جالندھری کی مقبولیت اور شاعری ہم نے سنی ہے، مگر ہمارے لئے چنبیلی کے منڈولے تلے اور عشق پیچاں کا وہ سنہرا دور جس میں تخلیقیت کا حسن درخشاں ہوا، جہاں زندگی کی حیات بخش صبحیں، دھنک رنگ شامیں اور تاریک راتیں کچھ سمجھ میں آنے لگیں، وہ دور مبارک قاضی کا تھا۔ ہمارے جون ایلیا، مبارک قاضی ہیں۔
ملینیئلز اور جنریشن زی بلوچ صرف مبارک قاضی کو جانتے، مانتے اور سنتے ہیں۔ استاد شفیع محمد، استاد ولی محمد اور استاد عبدالستار کے دور اختتام پر اور نور خان بزنجو، عارف بلوچ اور رسول بخش فرید کے دور دریافت میں ہمارے کان اور ذہن کی لکیریں بلوچی موسیقی کی جانب مرغوب ہونے لگیں۔ پھر عاصمی بلوچ، وہاب بلوچ، نعیم دلپل، اور عبداللہ ثناء آئے اور قاضی کی شاعری ہم تک پہنچاتے رہے۔۔ مگر جو اعزاز نور خان بزنجو کو حاصل رہا، وہ کوئی اور کلاکار حاصل نہیں کر سکے۔ بلوچی شاعری میں کل 15 ستمبر 2023 تک ہی نہیں بلکہ اگلے سو سالوں تک کوئی اور قاضی نہیں آئے گا۔
میں شاعری اور گائیکی کی باریکیوں سے قطعی طور پر واقف نہیں ہوں، مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ بلوچی غزل کو نیا رنگ مبارک قاضی نے دیا۔ قاضی کے موضوع محبوبہ، وفا، عشق نامکمل، درد اور محبت کی داستانیں ہیں۔ قاضی کی محبوبہ بلوچستان ہے۔ قاضی کو بلوچستان کے پہاڑوں، ندیوں، بارشوں، ہواؤں، سوغات، روایات، اور ثقافت سے عشق ہے۔ اپنی سرزمین سے عشق کرتے ہوئے، قاضی نے جتنے درد سہے اور برداشت کئے، ان کے قصے ہمیں قاضی کی شاعری میں ملتے ہیں۔
قاضی نے اپنے دورِ حیات میں کئی بار کہا تھا کہ میری قدر موت کے بعد ہوگی، کیونکہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔ قاضی، گھاس کی طرح مرکز کے اطراف پھیلنے کا ہنر نہیں جانتے تھے، وہ بس اپنی مستی میں زندہ رہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہے۔ قاضی کی زبان بے لگام تھی۔ وہ ظلم اور ظالم کو دو ٹوک انداز میں ظلم اور ظالم کہتے اور لکھتے رہے۔ قاضی کے قلم میں سیاہی کی بجائے بلوچستان کی محرومیوں کے آنسو تھے۔ وہ اپنے تصورات اور خیالات کو اپنے دکھوں اور غموں میں ڈبو کر اپنے قلم کی نوک سے کاغذ پر اور پھر اپنی یا نور خان اور عارف کی آواز میں ہم تک پہچانتے رہے۔
قاضی نے پی ایچ ڈی نہیں کی اور نہ ہی پاکستان کی آزادی کا خواب دیکھا۔ زندگی کے تلخ تجربات نے انہیں ایک کامل معلم بنا لیا۔ بلوچی زبان کے الفاظ قاضی کی شاعری میں استعمال ہونے کے لئے ترستے ہیں۔ ہم شاعری کرنے بیٹھیں تو الفاظ نہیں ملتے، اور ایک قاضی تھے جن کی شاعری میں الفاظ کو جگہ نہیں ملتی۔ قاضی کی شاعری ایک حکیمانہ مزاج رکھتی ہے۔ طرزِ ادا اور اسلوب بہت سلجھا ہوا، سجا سجایا اور پروقار ہے۔ قاضی کے اشعار کی شیرینی، گھلاوٹ اور درد لاجواب ہے۔ قافیوں میں ایک جادوئی گرمی، سوز اور کسک ہے۔
قاضی کو نہ تو سپاٹ اور بے رنگ ہونے سے ڈر لگتا ہے اور نہ وہ غزل کی تراش خراش، نفاست اور تعزل کے عام تصور سے مرعوب ہوتے ہیں۔ قاضی کے اشعار میں برداشت نہیں بلکہ مزاحمت اور انقلاب کے نشانات ملتے ہیں۔ قاضی کی خوبصورتی یہی ہے کہ ان کی شاعری کو روایت کے ہجوم میں الگ سے پہچانا جا سکتا ہے۔ قاضی ہمیشہ کہتے تھے کہ جسے لوگوں کا ہجوم کہہ رہا ہو وہ سچ نہیں ہو سکتا۔ سچ میری طرح صرف تنہا فرد کا ہو سکتا ہے۔ مجموعی رائی لامحالہ جھوٹی ہوگی۔
قاضی نمیران ہے۔ قاضی شاعری، موسیقی اور غزل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بقول قاضی کے،
ما کہ یک رندے چہ اے دنیا شتیں
مارا بیاریت اے زمانگ چہ کجا۔۔۔
(ہم اگر ایک بار اس دنیا سے چلے گئے، تو یہ پھر یہ زمانہ ہمیں کہاں سے لائے گا..)