مچھر کے کاٹے سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی سے بچاؤ کے لیے مریضوں کو مچھروں سے ہی کٹوانا۔۔ یا یہ کہ لوگ اپنے گھر کے صحنوں یا بیک یارڈ میں خود مچھروں کی افزائش کریں؟ یا پھر مچھروں کے مقابلے کے لیے لاکھوں مچھروں کو فضا میں چھوڑا جائے؟ ہے نا عجیب سا خیال!
یہ تصور کرنا مشکل تو ہے لیکن دنیا کے بہت سے ملکوں میں ڈینگی کے حوالے سے یہ تصورات اب ایک حقیقت بن رہے ہیں
مختلف اندازوں کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں سمیت دنیا بھر کے 130 ملکوں میں ہر سال لگ بھگ 400 ملین لوگ مچھروں سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں
اس وقت بھی بنگلہ دیش میں ڈینگی بخار ریکارڈ سطح پر پھیل رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مربوط کارروائیوں کے فقدان کے باعث مچھر سے پھیلنے والی یہ بیماری مزید اموات کا باعث بن رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں انتباہ کیا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سےمچھر سے پھیلنے والا ڈینگی ، زیکا ، چکن گونیا اور زرد بخار جیسے وائرس زیادہ تیزی اور وسعت سےپھیل رہے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال ڈینگی وائرس کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سامنے آنے والے خوفناک اثرات، ماحولیاتی آلودگی میں اضافے اور مستقبل میں مون سون موسم میں تبدیلی کی پیش گوئی کے پیش نظر پاکستان کے ان علاقوں میں بھی ڈینگی وائرس پھیلنے کے خطرات اور خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے جن علاقوں میں یہ وائرس پہلے کبھی نہیں پھیلا تھا
اس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر اب تک اس کا کوئی مستند علاج سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لیکن اب سائنسدانوں نے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب، انوکھا مگر ایک کامیاب طریقہ دریافت کیا ہے
ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے مقابلے کے لیے سائنسدان لیبارٹریوں میں مچھروں کی ایک خصوصی قسم کی نسل کو تیار کر رہے ہیں۔ اس نسل کی افزائش کے لیے دنیا بھر کے مختلف مقامات پر فیکٹریاں بنائی گئی ہیں، جہاں خصوصی لیبارٹری ماحول میں تیار کیے جانے والے مچھروں میں ایک بیکٹیریا داخل کر دیا جاتا ہے
’ولباکیا‘ کہلائے جانے والے اس بیکٹیریا کے بارے میں ریسرچز یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ ڈینگی کے مچھر کے کاٹے کے علاج میں مؤثر ہوتا ہے
دنیا بھر میں ولباکیا بیکٹیریا کے حامل زیادہ تر مچھر کولمبیا کے علاقے میڈیجین کے ایک گودام میں پیدا کیے گئے تھے، جہاں ورلڈ مسکیٹو پروگرام ایک فیکٹری چلاتا ہے جس میں ہر ہفتے تیس ملین مچھر پیدا کیے جاتے ہیں
ڈینگی کے خلاف لڑنے والے لاکھوں مچھروں کی اس نئی فوج کو ڈینگی کے پھیلاؤ والے علاقوں کی ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو کاٹ سکیں اور ان میں ڈینگی کو ختم کر سکیں یا انہیں ڈینگی کی بیماری میں مبتلا ہونے سے بچائیں
مچھروں کی اس نئی نسل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ولباکیا بیکٹیریا کو اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کر دیتی ہے جس کی وجہ سے ڈینگی کے مقابلے کی فوج میں کمی نہیں رہتی
اگرچہ یہ طریقہ علاج ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے لیکن ماہرین کے بقول دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں لیبارٹری مچھروں کی فوج ڈینگی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس بیماری کی شرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے
ڈینگی کے مقابلے کے لیے یہ حکمتِ عملی گزشتہ عشرے میں ’ورلڈ مسکیٹو پروگرام‘ نامی ایک غیرمنافع بخش عالمی منصوبے کے ذریعے شروع کی گئی تھی اور اب اسے ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں ٹیسٹ کیا جا رہا ہے
مسکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر اسکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ ڈینگی کے مقابلے کے لیے نئے طریقوں کی ازحد ضرورت ہے اور ان نئے طریقوں کی ایک صورت یہ ہے کہ ان خصوصی مچھروں کی افزائش میں ڈینگی کی متاثرہ کمیونٹیز کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے، جو اپنے گھروں کے صحنوں یا بیک یارڈ میں ان مچھروں کی افزائش میں مدد کرتے ہیں
او نیل کی مسکیٹو لیبارٹری نے اس تبدیل شدہ حکمتِ عملی کو پہلی بار 2011 میں آسٹریلیا میں ٹیسٹ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ورلڈ مسکیٹو پروگرام نے دنیا بھر کے چودہ ملکوں میں گیارہ ملین لوگوں پر تجربات کیے ہیں، ان میں برازیل، میکسیکو، کولمبیا، فجی اور ویتنام شامل ہیں
ماہرین کے مطابق، تحقیق کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ 2019 میں انڈونیشیا میں ایک بڑے علاقے میں کیے گئے ایک ٹرائل سے ظاہر ہوا کہ ولباکیا کے حامل مچھروں کے چھوڑے جانے کے بعد وہاں ڈینگی کے کیسز میں 76 فی صد کمی واقع ہوئی
تاہم مسکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر اسکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ تبدیل شدہ حکمتِ عملی عالمی پیمانے پر بھی مؤثر اور سستی ہوگی
اس وقت جب دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ڈینگی کے خطرے میں مبتلا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے کئی مقامات خاص طور پر وسطی امریکہ کے ملک ہنڈراس میں لیبارٹری میں تیار شدہ مچھروں کی اس فوج کو ڈینگی مچھر کی ایک مقابل فوج کے طور پر لانچ کر دیا ہے۔ جہاں ہر سال لگ بھگ دس ہزار لوگ ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں
گرم مرطوب رین فاریسٹ علاقے میں واقع ہنڈراس کے دارالحکومت ٹیگو سی گالپا میں گزشتہ ماہ درجنوں لوگوں نےاس وقت تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا، جب وہاں کے ایک رہائشی نے مچھروں سے بھرے ایک شیشے کے جار کو اپنے سر کے اوپر کھولا اور اس میں سے بھنبھناتے ہوئے مچھروں کو فضا میں چھوڑا
اگلے چھ ماہ میں، خصوصی طور پر پیدا کیے گئے لگ بھگ نوے لاکھ مچھروں کو ٹیگو سی گالپا میں چھوڑا جائے گا جہاں کے رہائشی ڈینگی سے بچاؤ کی حکمتِ عملی پر اعتماد کرنا سیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ طریقہ ہر اس طریقے کےخلاف ہے، جو وہ اب تک سیکھ چکے ہیں
ٹیگو سی گالپا میں تین سالہ ٹرائل پر نو لاکھ ڈالر یا ایک شخص پر کم و بیش دس ڈالر خرچ ہوں گے
ڈینگی سے ہلاکت کی شرح کم ہے لیکن اس کے پھیلنے سے صحت کے نظام بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں اور بہت سے لوگ کام اور دفتر سے غیر حاضر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کا علاج کیوں مشکل ہے؟
ایڈیس ایجپٹی مچھروں کی وہ قسم ہے، جو عام طور پر ڈینگی کو سب سے زیادہ پھیلاتی ہے۔ ان پر عام مچھر مار یا کیڑے مار اسپرے بے اثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ڈینگی وائرس چار مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے، اس لیے اس پر ویکسینز کے ذریعے قابو پانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔ل
ایڈیس ایجیپٹی Aedes aegypti مچھروں سے نمٹنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ وہ سب سے زیادہ سرگرم دن کے وقت ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن کو کاٹتےہیں اس لیے مچھر دانیاں ان کےخلاف زیادہ مدد گار نہیں ہوتیں
چونکہ یہ مچھر گرم مرطوب ماحول میں اور گنجان آباد شہروں میں پھلتے پھولتے ہیں، اس لیے آب و ہوا کی تبدیلی اور شہری آبادیوں میں اضافے سے ڈینگی کے خلاف لڑائی مزید مشکل ہو سکتی ہے
کیا ولباکیا ڈینگی کا ایک مستقل علاج ہے؟
ڈبلیو ایچ او کے ایک محقق رمن ولایودھن کہتے ہیں کہ ولباکیا یقینی طور پر ایک طویل المیعاد پائیدار حل ہے
تاہم سائنسدان ابھی تک یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ولباکیا ، وائرل ٹرانسمشن کو اصل میں کس طرح روکتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بکٹیریا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مساوی طور پر مؤثر ہوگا یا پھر کچھ اقسام پر یہ وقت گزرنے پر بے اثر ہو جائے گا
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ٹیم کےساتھ کام کرنےوالے ایک اور رضاکار تریسٹھ سالہ لورڈس بیٹن کورٹ، جو شروع شروع میں اس نئی حکمتِ عملی کے بارے میں مشکوک تھیں، لیکن کئی بار ڈینگی کا شکار ہونے کے بعد اب وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنے گھر کے صحنوں میں اچھے مچھروں کی افزائش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں
وہ کہتی ہیں ”میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں۔ یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، بھروسہ رکھیں، وہ آپ کو کاٹیں گے لیکن آپ کو ڈینگی نہیں ہوگا۔“