یو این ڈی پی (UNDP) کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ترین ملکوں میں ہوتا ہے، جس میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ (تقریباً 64%) نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان نے آبادی کے اس اہم جُز کو اچھے طریقے سے بروئے کار لایا تو پاکستان بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ ہم اپنے نوجوانوں کو انگیج نہ کر سکے تو آنے والا وقت وطنِ عزیز کے لیے مزید مشکلات لاسکتا ہے۔
دنیا کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے تمام ممالک جہاں غربت میں کمی، صحت کی بہترین سہولیات، امن، اچھا انفرااسٹرکچر، انصاف وغیرہ موجود ہیں، ان تمام ممالک نے تعلیم پر بہت زیادہ رقم خرچ کی ہے۔ جبکہ اس رپورٹ کا یہ انکشاف کہ 195 ممالک کی فہرست میں پاکستان 180ویں نمبر پر موجود ہے، جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے، جسے ہمارے حکمران مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق، جس رفتار سے ہمارے ملک میں آبادی بڑھ رہی ہے اور بچوں کی انرولمنٹ اسکولوں میں ہو رہی ہے، اس کے مطابق ہمیں ساٹھ سال کا عرصہ مزید درکار ہوگا کہ ہمارا کوئی بچہ بھی اسکول سے باہر نہ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری نوجوان نسل اتنی باشعور اور باصلاحیت ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا کر سکے؟ اس سوال کا جواب ہر نوجوان کی صحیح سمت کے تعین میں پنہاں ہے۔
آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی بدولت آج فاصلے ختم ہو گئے ہیں اور دنیا کو ایک گلوبل ولیج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں آپ سیکنڈز میں انفارمیشن ایک دوسرے سے شیئر کر سکتے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق آج کے انٹرنیٹ میں اسمارٹ فون کا حصہ تقریباً 60 فیصد ہے۔ آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے ہیں اور اب کچھ ایسا لگتا ہے کہ شاید ساری قوم اور خصوصاً نوجوان نسل نومو فوبیا (Nomophobia )کا شکار ہو رہی ہے۔
نومو فوبیا ایک ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص موبائل فون کے بغیر اپنے آپ کو خوف زدہ یا بے حد بے چین محسوس کرے۔ نوموفوبیا کی شکار نوجوان نسل ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے مسائل اور مصائب کا شکار ہو رہی ہے، جیسے کہ وقت کا زیاں، بے مقصدیت، ذہنی انتشار، چڑچڑا پن اور اخلاقی بے راہ روی وغیرہ۔
تعلیم کے حصول کے لیے موبائل فونز کا استعمال قطعی طور پر غیر مناسب نہیں ہے لیکن اس کا بے جا اور غلط استعمال ہماری نوجوان نسل کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ایک خطرناک رجحان، جو آج کے والدین میں بھی دیکھا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں جن کی عمریں سات سال سے بھی کم ہوتی ہیں، اُن کے ہاتھ میں بھی یہ اسمارٹ فونز دے دیتے ہیں اور فخر سے دوسرے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اُن کے بچے اسمارٹ فونز آپریٹ کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے والدین بھی نئی نسل کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔
جہاں انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے فاصلے کم کیے ہیں، وہیں ہمارے رشتوں میں فاصلے بہت طویل کر دیے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہر دوسرا شخص اپنے فون میں مصروف رہتا ہے اور آپس میں بیٹھ کر بات کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ذرا غور کیجئے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اس موبائل فون نے ہمیں اور خاص طور پر نئی نسل کو اپنی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اصولاً ہمیں موبائل فون کو آپریٹ کرنا چاہیے لیکن اب آپ ذرا غور کریں گے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ موبائل ہمیں آپریٹ کر رہا ہے۔
نوموفوبیا کی شکار نوجوان نسل، جس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، وہ بہت تیزی سے ایک ایسی سمت کی طرف جا رہی ہے، جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہو سکتا لیکن کسی بھی چیز کا غلط استعمال اُسے بربادی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔ اگر آج ہم یہ طے کرلیں کہ کسی طرح ہم نے اپنے نوجوانوں کو ملک کے لیے مفید بنانا ہے تو والدین اور اساتذہ کو خود رول ماڈل بننا ہوگا ورنہ ’’تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
ایک استاد اپنے شاگردوں کےلیے رول ماڈل ہوتا ہے اور یہ بات ہمارے پیارے نبی محمدؐ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا۔ ویسے تو آپؐ کی معلمانہ طریقوں کی ایک بہت بڑی فہرست ہے لیکن میرے خیال میں اگر آج کا معلم صرف آپؐ کی صرف ایک صفت یعنی ’’علم و عمل‘‘ کو اپنالے تو وہ وطنِ عزیز میں بہترین افرادی قوت مہیا کرنے میں اپنا اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ہر علم جس پر عمل نہ ہو وہ وبال ہے‘‘۔ ایسا معاشرہ جس میں علم کی فراوانی ہونے کے باوجود عمل کی کمی ہو، وہ سماج کبھی بھی پرسکون نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک ہمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا کرے۔ (آمین)۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز