پاکستانی معاشرے کو بہت ہوشیاری سے پریشر کُکر کی طرح بنا دیا گیا ہے۔ اندر سب پک رہے ہوتے ہیں لیکن پریشر کُکر کے اوپر لگی سیٹی اس پکنے والے معاشرے کی بھاپ وقتاً فوقتاً نکالتی رہتی ہے اور اس طرح نہ پوری طرح ابال آتا ہے اور نہ ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے۔
لیکن سب سے بڑی چیز جو ہم نے ایک معاشرے کی طور پر تسلیم کر لی ہے، وہ یہ ہے کہ حکمران جو بھی ہو، وہ ہم کو نادان سمجھ کر حکمرانی کرتا ہے۔
چند روز قبل کچھ نوجوانوں کے ساتھ ایک بیٹھک ہوئی۔ ان میں غصہ اور مایوسی دونوں ہی تھے۔ یہ سب بچے ابھی یونیورسٹی سے نکلے ہیں اور ملازمتوں یا آگے پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
کسی ایک نے بھی سیاست دانوں یا اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ سیاست دان لوٹ گیا، مار گیا یا اسٹیبلشمنٹ نے حکومت چلنے ہی نہیں دی، جس کی وجہ سے جمہوریت اس ملک میں جڑیں مضبوط نہ کر سکی۔ ان سب نے ہم سب کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
ان سب کا ایک بات پر اتفاق تھا کہ تبدیلی ہمیشہ مشکل ہوتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تبدیلی بھی آئے تو اس کو ہمیشہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے اٹھائے گئے نکات بہت اہم تھے۔ ایک نے سوال کیا کہ ذخیرہ اندوزوں اور ڈالروں کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کو اتنا بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟
کیا یہ کام معمول کا نہیں کہ جو لوگ ایسے جرائم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے؟ یہ ایک ادارے یا ایک فرد کی کامیابی کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟
دوسرے نے سوال کیا کہ اگر ایران کا پٹرول اسمگل ہو رہا ہے اور افغانستان سے منشیات اسمگل ہو رہی ہیں تو کیا اس کے لیے بھی کوئی اوپر سے احکامات کا انتظار کرنا ہوتا ہے یا یہ بھی ایک معمول کی بات ہے کہ اسمگلنگ نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن سب سے اہم نکتہ جو اٹھایا گیا وہ ایک سوال تھا۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ کہہ دینا کتنا آسان ہے کہ کوئی بھی سیاست دان اس ملک سے وفادار نہیں لیکن کیا ہم نے بطور قوم اپنے اپنے گریبانوں میں کبھی جھانکا کہ ہم میں سے کون ملک سے وفادار ہے؟
ہم میں سے کون ہے جو اپنے اپنے حلف کو پورا کرتا ہو؟ ہم میں سے کون ہے جو ٹیکس دیتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے گوشوارے بھی جمع کراتا ہو؟
ہم میں سے کوئی بھی ملک سے وفادار نہیں۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ ٹیکس چوری کرتا ہے، جس کا جہاں بس چلے وہاں چوری کرے گا اور جس کا جہاں بس چلے وہ کرنسی کی اسمگلنگ اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کرے گا۔
آخر وجہ کیا ہے؟ وجہ بہت ہی آسان سی ہے، وہ یہ کہ اس ملک میں نہ تو نظام بنایا گیا اور نہ ہی بنانے کی کوشش کی گئی کیوں کہ ایک سسٹم کی موجودگی میں ہمارے پکڑے جانے کا خدشہ ہوتا ہے اور ایک سسٹم بنا کر ہم اپنے پیر پر کلہاڑی کیوں ماریں۔
بدعنوانی پر صرف ہم پاکستانیوں کے ہی کاپی رائٹس نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں لوگ کرپشن یا چوری کرنے کا سوچتے ہیں لیکن پاکستان کے برعکس ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سسٹم موجود ہے اور آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے۔
سسٹم کے شکنجے میں آنے کے قوی امکانات ان لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔
ملک سے وفادار تو شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں لیکن مختلف درجے بن گئے ہیں اور ان درجوں میں کون کب آتا ہے، وہ اس وقت کا بیانیہ فیصلہ کرتا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)