ڈپریشن کا پتا چلانے والا بلڈ ٹیسٹ ایجاد کرلیا گیا

ویب ڈیسک

آن لائن ریسرچ جرنل ’’مالیکیولر سائکیاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں
ایک نئی تحقیق کی مکمل تفصیلات شائع ہوئی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم چار سال تحقیق کے بعد خون میں ایسے مادّے دریافت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسی خطرناک نفسیاتی بیماریوں کی واضح علامت ہوتے ہیں
سائنسدانوں نے ان مادّوں یعنی ’’بایومارکرز‘‘ کی بنیاد پر وہ بلڈ ٹیسٹ بھی وضع کر دیے ہیں، جو فی الحال تجرباتی مراحل میں ہے
تفصیلات کے مطابق، انڈیانا یونیورسٹی میں نفسیاتی معالج اور اعصابیات کے ماہر، ڈاکٹر الیگزینڈر بی نکولس کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے چار سال پہلے شروع ہونے والی تحقیق میں 1600 سے زائد ایسے مطالعات کا تجزیہ کیا جن میں کسی خاص ذہنی یا نفسیاتی بیماری سے متعلق مادّوں (بایومارکرز) کی خون میں موجودگی کی نشاندہی ہوئی تھی
اس کھوج میں اُن پر ایسے 26 بایومارکرز کا انکشاف ہوا جو ڈپریشن، بائی پولر ڈِس آرڈر (ڈپریشن سے ملتی جلتی ایک اور بیماری) اور دیوانگی سے تعلق رکھتے ہیں اور خون میں پائے جاتے ہیں
مزید تحقیق کے بعد ان میں سے بھی صرف 12 بایومارکرز ایسے رہ گئے جنہیں پورے اعتماد سے ڈپریشن، بائی پولر ڈِس آرڈر اور دیوانگی (مینیا) کی تشخیص میں استعمال کیا جاسکتا تھا
اگلے مرحلے میں ان بایومارکرز سے وابستہ جین دریافت کرنے کے علاوہ ایک بلڈ ٹیسٹ بھی وضع کیا گیا جس کے ذریعے بطورِ خاص ڈپریشن اور بائی پولر ڈِس آرڈر کی نشاندہی کی جاسکتی ہے
ڈاکٹر الیگزینڈر کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے دوران صرف بایومارکرز ہی کی نشاندہی نہیں ہوئی بلکہ ممکنہ طور پر ایسی دوائیں بھی سامنے آئی ہیں جو آج کل ڈپریشن یا اس جیسے دوسرے نفسیاتی امراض و کیفیات کے علاج میں استعمال تو نہیں کی جاتیں لیکن شاید ان کے استعمال سے مریضوں کو افاقہ ضرور ہوسکتا ہے
یہ ٹیسٹ کب تک عوام کےلیے دستیاب ہوگا؟ اس بارے میں ڈاکٹر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ اس کےلیے بڑے پیمانے پر آزمائشوں کی ضرورت ہے تاکہ نفسیاتی معالجین اس بلڈ ٹیسٹ کو موجودہ تشخیصی طریقوں کے متبادل کی حیثیت سے قبول کرلیں اور یہ رائج بھی ہوسکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close