دانشور اور سرپرستی

ڈاکٹر مبارک علی

اہلِ علم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ علم کو قابل فروخت شے اور اسے اپنی روزی کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اس کے ذریعے معاشرے میں شعور اور آگاہی پیدا کریں۔

سُقراط اِس کے سخت خلاف تھا کہ علم کو بطور پیشہ استعمال کر کے اُس کا معاوضہ وصول کیا جائے۔ اُس کا روزمرّہ کا اُصول تھا کہ وہ صبح سویرے ایتھنز کے بازار میں ایک چوک پر آ جاتا تھا اور یہاں نوجوانوں کو پکڑ کر اُن سے سوال و جواب کرتا تھا۔ اس طریقے سے وہ اپنے علم کو لوگوں تک پہنچاتا تھا۔

اس کے مقابلے میں سوفطائیوں کا طبقہ تھا، جو اُمرا کے لڑکوں کو معاوضے کے عوض تعلیم و تربیت دیتا تھا۔ ایتھنز کی جمہوریت میں سیاست دانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مؤثر انداز میں عوام سے خطاب کر سکیں، اس لیے سوفطائی انہیں خطابت اور زبان دانی کا دَرس دیا کرتے تھے۔

سُقراط کے شاگرد اَفلاطون کو معاوضے کی اس لیے ضرورت نہیں تھی کہ اُس کا تعلق اَمیر خاندان سے تھا۔ بعد میں اُس نے تعلیم کے لیے اکیڈمی قائم کی۔ شاید وہ بھی اُس کی آمدنی کا ذریعہ ہو۔ اَرسطو اسکندر کا اُستاد تھا اور مسیوڈونیا کا بادشاہ اُس کا سرپرست تھا۔ اُس نے Lyceum کے نام سے تعلیمی ادارہ کھولا تھا، مگر مخالفت کی وجہ سے وہ ایتھنز کو چھوڑ کر مقدونیا چلا گیا۔ یونان کے دوسرے فلسفی بھی سادہ زندگی گزارتے تھے اور کسی سرپرستی کے محتاج نہیں تھے۔

رُومی سلطنت میں حکمرانوں نے اہلِ علم کی سرپرستی کرنا شروع کر دی، مثلاً رُوم کے مشہور مؤرخ رُومی سلطنت کے نمائندے تھے، اس لیے ان کی تاریخ نویسی میں رُومی سلطنت نیکی اور اخلاقی قدروں کی علامت ہے۔ رُومی شہنشاہ Augustus نے مشہور شاعر Virgil سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ قدیم یونانی شاعر ہومَر کی طرز پر رُومی سلطنت کی تاریخ کو منظوم کرے۔ اُس کی یہ طویل نظم اُس کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکی، اس لیے مرنے سے پہلے اُس نے وصیّت کی کہ اس نظم کو جلا دیا جائے، مگر اس پر عمل نہ ہوا اور اُس کی نظم “Aeneid” کے نام سے محفوظ رہی۔

رُومی سلطنت کے زوال کے بعد عہدِ وسطیٰ میں دانشوروں کی سرپرستی حکمرانوں اور چرچ نے کی۔ اس لیے اس عہد کے ادب، تاریخ اور فلسفے میں یا تو بادشاہوں کی تعریف ہے یا مذہبی عقیدے کو سچا ثابت کیا گیا ہے۔ اس ماحول میں کسی آزاد خیال دانشور کا کوئی کردار ادا کرنا مشکل تھا۔

دانشوروں کی زندگی میں اُس وقت تبدیلی آئی، جب پندرہویں صدی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور عام لوگوں میں تعلیم کے حُصول کا آغاز ہوا۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے تعلیمی اداروں نے تعلیم یافتہ طبقہ پیدا کیا، پبلشنگ ادارے قائم ہوئے اور کِتابوں کی دُوکانیں جگہ جگہ کھُل گئیں۔ دانشوروں نے اس بات کی کوشش کی کہ شاہی سرپرستی کی جگہ عوام میں مقبولیت حاصل کر کے اپنی کِتابوں کی آمدنی سے آزادانہ زندگی گزار سکیں اور بغیر پابندیوں کے نئے اَفکار پیدا کر سکیں۔

چنانچے ابتدا میں یہ دستور تھا کہ مُصنف اپنی کتاب کا اشتہار دے کر خریدار بناتا تھا اور پھر اپنی کتاب شائع کر کے اُس کی آمدنی سے گزارا کرتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی پیشے کے ذریعے روزی کما کر سادہ زندگی گزارتا تھا اور بقیہ وقت وہ اپنے علم و ادب کی خدمت کرتا تھا۔ جیسے مشہور ولندیزی فلسفی باروخ اشپینوزا عینکوں کے شیشے صاف کر کے روزی کماتا تھا اور بقیہ وقت فلسفے کے مطالعے میں صَرف کرتا تھا۔

یورپ کے دانشوروں کو شاہی سرپرستی سے اُس وقت نجات مِلی، جب تعلیم یافتہ طبقے میں اُن کی کِتابوں کی فروخت ہونے لگی اور پبلشرز نے اُنہیں کِتابوں کی رویالٹی (Royalty) دینا شروع کی۔

اب یہاں ہم مُسلم دنیا کے دانشوروں کے بارے میں ذِکر کریں گے۔ مسلمان بادشاہوں کا یہ دستُور تھا کہ وہ اپنے دربار میں مشہور شاعر مؤرخ مصوّر اور موسیقاروں کو جمع کرتے تھے، تا کہ اُن کی سرپرستی کر کے اپنے دربار کی شان و شوکت کا اظہار کریں۔ محمود غزنوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اہلِ علم کو زبردستی اغوا کراتا تھا تاکہ وہ اُس کے دربار میں رہیں۔

فلسفی اِبنِ سِینا نے محمود غزنوی کے دعوت نامے کو رَد کر دیا اور اُس کی پہنچ سے دُور ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پناہ لیتا رہا۔ مُغل بادشاہ اکبر کا بھی یہ دَستُور تھا کہ جب بھی وہ کسی مشہور اہلِ علم کے بارے میں سُنتا تھا تو اُسے دعوت دے کر اپنے دربار میں بلاتا تھا اور اُس کو خطابات اور تحفے تحائف سے مالا مال کر دیتا تھا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ ایران وسطِ ایشیا اور ایران کے مُختلف علاقوں سے اہلِ علم اور جنگ کے ماہرین مُغل دربار میں اکٹھا ہو گئے تھے۔ اور یہ وہ زمانہ ہے کہ جب تاریخ شاعری، مُصوّری اور موسیقی کے اعلیٰ فن پارے تخلیق ہوئے۔

دانشوروں کی یہ سرپرستی اُس وقت ختم ہونا شروع ہوئی، جب مُغل زوال نے دربار کی مالی حالت کو خستہ و کمزور کر دیا اور مُغل بادشاہ اس قابل نہیں رہا کہ اہلِ علم کی سرپرستی کر سکے۔ لہٰذا یہ دانشور سرپرستوں کی تلاش میں کبھی آود گئے، کبھی مُرشد آباد اور کبھی حیدرآباد دکن، یہ دانشور جو اب تک ایک جگہ جمع تھے، اب بِکھر کر رہ گئے۔

جب ہندوستان میں برطانوی حکومت کا اقتدار قائم ہوا تو سرپرستی کی یہ روایت بھی ختم ہو گئی اور اب دانشوروں کو اپنی روزی کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کرنا پڑے۔ اگرچہ لکھنو، دہلی اور لاہور میں کئی پبلیشنگ ادارے قائم ہوئے جو محدود تعداد میں کتابیں شائع کرتے تھے۔ لیکن مُصنّف کو رویالٹی (Royalty) دینے کا رواج نہ تھا بلکہ اکثر حالات میں مصنّف اپنے ذاتی خرچے پر کتابیں شائع کراتا تھا۔

وقت کے ساتھ جب کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا تو مشہور مصنّفِین کو رویالٹی (Royalty) دی جانے لگی یا پھر وہ مصنف کامیاب ہوئے، جنہوں نے جاسوسی، رومانوی اور تاریخی ناول لکھے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں سنجیدہ ادب پیدا نہیں ہوگا تو لوگ ذہنی طور پر پسماندہ رہیں گے۔

یہی سب کچھ اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ سنجیدہ ادب کی کمی ہے۔ موسیقی ادب اور شاعری مقبول ہے۔ کتابوں پر رویالٹی (Royalty) دینے کا رواج نہیں۔ اس صورت میں وہی علم کی خدمت کر سکتے ہیں، جو یا تو صاحبِ جائیداد ہوں یا جن کا تعلق اشرافیہ سے ہو۔ مُتوسط طبقے کے لیے علم کو روزی کا ذریعہ بنانا بہت مشکل ہے، اس لیے ذہین ادیب و شاعر مؤرخ و فلسفی غربت و مُفلسی کی حالت میں رہے اور معاشرے نے اُن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔

لہٰذا ایک زوال شدہ معاشرہ نہ اہلِ علم پیدا کرتا ہے اور نہ ہی سطحی علم کے ذریعے اُس کی ذہنی حالت بدلتی ہے۔ یہ وہ اَلمیہ ہے، جس سے پاکستانی دانشور دوچار ہو رہا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close