نئے لڑکوں کو ہو کیا گیا ہے؟

حسنین جمال

میرے لیے سب سے حیران کن وہ بچے ہوتے تھے، جنہیں چاکلیٹ پسند نہیں تھی، جو آئس کریم میں کوئی ایک خاص فلیور کھاتے تھے یا جنہیں قلفی آفر کی جاتی تو وہ انکار کر دیتے۔

زید ہے فرض کیا، زید کو میں کہتا کہ یار پستہ آئس کریم کھا لو تو وہ انکار کر دیتا۔ مفت میں بھی نہیں کھانی؟ اس کو صرف اسٹرابیری آئس کریم کھانی ہوتی تھی۔ کم نہ زیادہ! وہ اپنی ڈیمانڈ میں بالکل کلیئر تھا اور میں اس کو حیرت سے دیکھا کرتا کہ بھئی ہماری اماں تو مینگو ملک شیک جما دیں، ہم اسے بھی آئس کریم سمجھ کر کھا جاتے ہیں اور تُو اصلی والی پستہ آئس کریم نہیں کھاتا؟

تو، ہوتے تھے، ایسے لڑکے خال خال ہوا کرتے تھے ہمارے زمانے میں، جو باقاعدہ نخرے کیا کرتے تھے ہر چیز پر۔ خود میں زیادہ گوشت نہیں پسند کرتا تھا یا ٹینڈے سمجھ نہیں آتے تھے، لیکن بس اسی حد تک! اور ہم سب ایسے ہوتے تھے، کسی ایک آدھ معاملے میں نازک پنا اور باقی ستے خیر۔

ابھی ایک وڈیو دیکھی جیمز گریگری صاحب کی، امریکی کامیڈین ہیں وہ، تو بس وہ مذاق اڑا رہے تھے کہ نئے بچے بہت نازک ہو گئے ہیں اور زندگی میں پہلی بار مجھے لگا کہ ہاں یار۔۔۔ یہاں پانی سر سے گزر گیا ہے، کافی حد تک اپنے یہاں بھی ایسا ہو چکا ہے۔

پچیس سال کی عمر تک مجھے یاد ہے، پوری دنیا میں صرف ایک انسان کو میں جانتا تھا، جسے دودھ زیادہ سوٹ نہیں کرتا تھا، ہمارے ابا کو، لیکن وہ پھر بھی روزانہ دودھ پی کر سوتے تھے، آج تک پیتے ہیں۔ ابھی ہر تیسرا بچہ لیکٹوز ان ٹولرینٹ ہے، بولے تو دودھ سے الرجک؟ مطلب واقعی؟ وہ کیا پیتے ہیں؟ بادام کا دودھ؟ آلمنڈ ملک؟ بادام سے کیا دودھ نکلے گا بھائی؟ نیٹ پر جائیں دیکھیں تو بھی اس دودھ میں صرف دو سے دس فیصد ’آلمنڈ ملک‘ ہوگا

اب ہمارے بچے فیشل کرانے لگے ہیں۔ مینی پیڈی کا نام ہم کو ایف اے بی اے میں پتہ لگا تھا اور علم ہوا کہ پارلر میں لڑکیاں یہ کرواتی ہیں، سوچتے تھے کہ یار جھانویں سے پاؤں رگڑنے کے بعد کیا عیاشی بچ سکتی ہے؟ اب۔۔۔ بچے یہ بھی کرواتے ہیں۔

موزے ہمارے زمانے میں گھٹنے تک ہوتے تھے، چڈی اگر گھٹنوں سے اوپر ہے تو باآسانی اوپر تک کھینچ کے معاملہ حل ہو جاتا تھا۔ اب ایک تو جرابوں کا ڈیفالٹ سائز کم ہو چکا ہے، یعنی ٹخنوں سے تھوڑا اوپر تک اور سب سے بڑا غضب یہ ہوا کہ وہ ہیئر بینڈ جتنے موزے آ گئے ہیں۔ لایلئننگ سوکس۔۔۔ سمجھ نہیں آتی کہ موزے زندگی میں اتنے غیر ضروری تھے تو ہمیں پہنائے ہی کیوں گئے؟ خواتین کی جرابیں ہوتی تھیں اسکن کلر کی، باریک سی، اب سرے سے جراب ہی نہیں باقی، ہر جگہ اسکن کلر ہے!

یہ لوگ تین ہزار روپے میں بال کٹواتے ہیں اور واپسی پہ بال بالکل ویسے ہوتے ہیں، جیسے نائی کے پاس جاتے وقت تھے۔ اب یہاں بھی پیکج آ چکے ہیں۔۔۔ چہرے پہ تین کریمیں لگوائیں اور ’اسکن پالش‘ ہو جائے گی، روپیہ سات ہزار لگے گا مگر ساتھ آپ کی شیو اور کٹنگ بھی ہو جائے گی۔ سات ہزار؟؟؟ اور آپ نے مہینے میں دو بار یہ سب کچھ کروانا بھی ہے ورنہ ’پورز‘ بند ہو جائیں گی۔

اسے جینڈر فلوئیڈٹی کا ایک مظہر سمجھ لیں، سافٹ میسکولینیٹی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ ہاتھوں میں کڑے، سر پہ لمبے بال، کانوں میں ایک سائیڈ پہ بالی، اپنے زمانے میں یہ سب کسی چھٹے ہوئے بدمعاش کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ وہ بے چارے بدمعاش ابھی ٹائم مشین سے کسی طرح ہمارے دور میں آ جائیں تو انہیں کسی نے پوچھنا ہی نہیں، ہاتھ سے پکڑ کے مزار پہ چھوڑ آئیں گے آج کل کے بچے، کہ جاؤ بابا ادھر جا کے ملنگیاں کرو۔

آج کل تو کالجوں یونیورسٹیوں کے بدمعاش بھی کلین شیو ہوتے ہیں یا نستعلیق سا خط بنوا لیا، نزاکت اب نئی مردانگی ہے اور یہی سافٹ میسکولینیٹی ہے۔

روایتی مرد وہ سارے اعتراض اٹھائیں گے جو کچھ میں اب تک کہہ چکا، لیکن دنیا بدل چکی ہے بھائی۔۔ اب تو شلوار قمیض میں کلف اور وہ اکڑے ہوئے کالر تک خال خال نظر آتے ہیں، دنیا واش اینڈ ویئر ہے، ٹراؤزر ہے، شرٹ ہے اور سب کچھ جینڈر نیوٹرل ہے۔

کیا یہ ٹھیک ہو رہا ہے؟ اصل میں یہی بتانے کے واسطے آپ کو یہاں تک لایا گیا ہے۔ نئی دنیا یہی ہے! فلاں کام مرد کرے گا، فلاں عورت کرے گی، یہ تقیسم ہٹانے کی شعوری کوشش ہو رہی ہے۔

اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ممکنہ طور پر ایک خواتین دوست بلکہ تمام جینڈر فرینڈلی معاشرہ بنے گا۔ جو چیز پہلے مردانہ پن کہلاتی تھی، اب اسے حقارت سے یا پھر کم از کم ایسی نظروں سے دیکھا جائے گا، جیسے ہم کسی پینٹنگ میں سترھویں صدی کے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہو رہا ہے یا غلط، آپ کو اچھا لگتا ہے یا برا، اس سوال کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا بھر کے موجودہ معاشی نظام یعنی کیپٹلزم میں اس سے آئیڈیل صورت حال نہیں ہو سکتی۔ مرد اب ایک نیا گاہک ہے اور خواتین کے لیے پہلے ہی مارکیٹ میں موجود ہر چیز قابلِ خریداری ہے۔

صابن، پرفیوم، شیمپو، خوشبودار آئل، بالوں کے اسپرے، آلمنڈ ملک، فروزن کھانے، کپڑے، موبائل، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، ہیڈ فون، گاڑیاں۔۔۔ سب کچھ زیادہ تر یونی سیکس بن رہے ہیں، یعنی مرد یا عورتیں دونوں انہیں استعمال کر سکتے ہیں، مطلب گاہک بڑھ رہے ہیں۔۔۔ خریدار بڑھیں گے تو پیداوار بڑھے گی، چیزیں فروخت ہوں گی تو کارخانوں کے مالک پیسہ کمائیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا!

ہم کیا کریں گے؟ یہی سوچیں گے کہ آج کل کے لڑکوں کو ہو کیا گیا ہے۔ سمپل!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close