ہم اس وقت ٹیکنالوجی کے جدید دور میں جی رہے ہیں ، جس میں ہر کوئی اپنی زندگی میں اتنا مصروف ہوگیا ہے کہ اس کے پاس قریبی رشتے داروں سے میل ملاپ کے لیے بھی وقت نہیں، ایسے میں والدین بھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اپنی اولاد سے سے متلق لاپروائی برتتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے ذہنی مسائل کا شکار رہتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں جاننا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں تعلیمی پسماندگی عام ہے، وہاں یہ مسائل مزید پیچیدہ ہیں لیکن امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ صرف چالیس فی صد والدین ہی اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں پریشان دکھائی دیے
پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی ذہنی صحت والدین کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جبکہ پینتیس فی صد والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کے ساتھ اسکول یا کام کی جگہ پر ناانصافی کی جا رہی ہے، یہی نہیں بلکہ بچوں کے اغوا ہونے، منشیات اور جنسی زیادتی جیسے واقعات کے حوالے سے بھی والدین تشویش میں مبتلا تھے
رپورٹ کے مطابق 2022 میں ایسے 3 ہزار 757 امریکی والدین سے سروے لیا گیا، جن کے بچوں کی عمر اٹھارہ سال سے کم تھی
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بچوں اور نوعمروں میں دماغی صحت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے
ماہرِ اطفال اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کی ترجمان ڈاکٹر کیتھرین ولیمسن کہتی ہیں ”میں پچھلے دس سال سے ماہرِ اطفال کے طور پر کام کر رہی ہوں، اس دوران میں نے ڈپریشن کے مریضوں اور اس کی تعداد میں اچانک تبدیلی دیکھی ہے اور والدین کا اس بارے میں فکرمند ہونا ایک اہم مسئلہ ہے“
انہوں نے کہا ”اگرچہ کووڈ-19 سے پہلے دماغی صحت کے مسائل سے نمٹنے والے بچوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، تاہم کووڈ-19 کے بعد اس تعداد میں دگنا اضافہ دیکھا گیا ہے“
امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق کووڈ-19 کے دوران دس سے چودہ سال کے بچوں میں خودکشی موت کی دوسری بڑی وجہ تھی، اس دوران ذہنی مسائل کا شکار ہونے والے پانچ سے گیارہ اور بارہ سے سترہ سال کے نوجوانوں میں بھی بالترتیب 24 فی صد اور 31 فی صد اضافہ ہوا تھا
بہت سے والدین اس وقت بے بسی محسوس کرتے ہیں، جب ان کے بچوں کو دماغی صحت کے مسائل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس معاملے میں بچوں کی مدد نہیں کر پاتے
فیملی انسٹیٹیوٹ کی ایک فیملی تھراپسٹ ایلن کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو اپنے اسکول کے گریڈ یا دیگر مسائل سے متعلق عام چیلنجز کا سامنا ہے تو وہ ان جیسے ذہنی مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں کر سکتے
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے والدین جو دوسروں اور خود کے جذبات اور احساسات کو سمجھ سکتے ہیں، وہ اس بارے میں بچوں کی زیادہ اچھے طریقے سے مدد کرسکتے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے بارے میں کیا درست ہے
جب بچوں میں اضطراب اور ڈپریشن کی بات آتی ہے تو ماہرینِ اطفال کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کی شخصیت میں آنے والی تبدیلی پر غور کریں مثال کے طور پر بچوں کی کام میں دلچسپی کم ہو جانا، خود اعتمادی اور مزاج، بھوک یا نیند میں تبدیلی آنا شامل ہے
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوشل میڈیا یا موبائل فون استعمال کرنے کے وقت پر نظر رکھیں کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے بھی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں
اسٹینفورڈ میڈیسن چلڈرن ہیلتھ کے ماہر امراض ڈاکٹر میگی سمیل کا کہنا ہے کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگ ڈپریشن جیسے مسائل کو اہم سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے ذہنی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی تھی
ڈاکٹر کیتھرین ولیمسن کا کہنا ہے کہ بچوں کے کامیاب اور خوش رہنے میں ایک شخص کا اہم کردار ہوتا ہے جو اس بچے کے ساتھ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے
ان کا کہنا تھا ”لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو یا کھیل، جسمانی طور پر ہو یا جذباتی طور پر ہر بچہ اپنی منفرد جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، والدین کا بچوں کی زندگی میں کردار انہیں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے، والدین کو چاہیے کہ بچوں کی صلاحیتوں کی تعریف کریں۔“