آپ میں سے بہت سے لوگوں نے چمبل کے ڈاکوؤں کے بارے میں سنا ہوگا اور ان کے دہشت انگیز کارناموں سے بھی تھوڑی واقفیت رکھتے ہوں گے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ چمبل کیا ہے اور اس کی بھی اپنی کوئی کہانی ہے؟
اگر آپ نے اس حوالے سے کچھ نہیں سنا تو پھولن دیوی کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے؟ جی ہاں، چمبل کے نام سے پھولن دیوی، پان سنگھ تومڑ اور ڈاکو مان سنگھ جیسے نام جڑے ہوئے ہیں
پھولن دیوی سماج کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ڈاکو بنیں، وہ ایک زمانے تک خوف و دہشت کی علامت سمجھی جاتی رہیں، بعد ازاں وہ سیاست میں آئیں اور رکن پارلیمان بنیں
پھولن دیوی کی زندگی کے بارے میں مشہور فلم ’بینڈت کوئن‘ بھی بنی ہے، جو اپنے زمانے میں کافی مقبول ہوئی تھی اور اداکارہ سیما بسواس نے پھولن دیوی کا کردار ادا کیا تھا
اسی طرح پان سنگھ تومر پولیس میں تھے، جو اسٹیپل چیز ریس کی کئی نیشنل چیمپئن شپ جیتنے کے بعد ڈاکو بننے پر مجبور ہوئے تھے۔
ان پر بھی فلم بن چکی ہے اور ان کا کردار معروف اداکار عرفان خان مرحوم نے ادا کیا تھا، اس فلم نے کئی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے
اس سلسلے میں سب سے خطرناک ڈاکو مان سنگھ کا نام آتا ہے، جن پر ایک ہزار سے زیادہ ڈاکے ڈالنے یا ڈیڑھ سو سے زیادہ قتل کے الزامات لگائے گئے، ان میں دو درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں کا قتل شامل ہے۔ انہیں گورکھا فوجیوں نے گولی مار کر ان کا قصہ تمام کر دیا تھا
یہی وہ کردار ہیں جن کی وجہ سے چمبل کا نام سن کر ’ڈاکو‘ کا لفظ ذہن میں آ جاتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ وہ کن حالات سے گزرنے کے بعد ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے تھے
ہندو روزنامہ بھاسکر کے مطابق ڈاکو ملکھان سنگھ کے داہنے ہاتھ کہے جانے والے مننا سنگھ نے بتایا کہ کس طرح ایک ٹیچر کا بیٹا ڈاکو بنا اور اس نے کن مشکلات کا سامنا کیا
ان کے مطابق بیابان کی زندگی نہ تو پرکشش ہے اور نہ ہی آسان ہے۔ مننا سنگھ کے مطابق وہ دن میں صرف ایک بار کھانا پکاتے اور رات میں اپنی حفاظت کے لیے بیڑی تک نہیں جلاتے تھے۔ وہ نہانے دھونے کا کام رات میں کرتے تھے یا پھر اپنی جگہ بدلنے کا کام بھی رات میں ہی کرتے تھے۔ اگر وہ ان پر سختی سے عمل پیرا نہیں ہوتے تو ممکنہ طور پر پولیس کی گولی کا شکار ہو سکتے تھے
وہ پولیس جیسی وردیاں پہنتے تھے تاکہ اس علاقے کے گاؤں میں رہنے والے ان کی پولیس کو مخبری نہ کر دیں۔ وہ ایک اصول اور ضابطے کے تحت مختلف علاقوں میں رہتے اور ان کے گروہوں کے علاقے بٹے ہوئے تھے، یہاں تک کہ ان کے گروہ کا کوڈ بھی ہوتا تھا، جس سے ان کی شناخت ہوتی تھی
ناشتے میں خشک میوہ جات کھاتے تھے جبکہ عام طور پر روٹی بناتے تھے۔ چونکہ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ روٹی بنانے کے لیے توا اپنے بیگ میں رکھتے تھے
ان کے پاس سبزی بنانے کے لیے بھگونا بھی ہوتا تھا جس میں دس لوگوں کے لیے سالن بن جاتے تھے اور کبھی کبھی وہ چاول بھی بناتے تھے۔ ان کے پاس ایک کٹوری ہوتی تھی، جس میں سب اپنے اپنے لیے آٹا گوندھتے تھے۔ چوبیس گھنٹے میں وہ صرف ایک بار کھانا کھاتے تھے
مننا سنگھ بتاتے ہیں کہ ہر ڈاکو کے بستے میں راشن سے زیادہ گولیاں ہوتی تھیں، جو روٹی بچ جاتی اسے بیگ میں رکھ لیتے، راشن کسی مخبر کی مدد سے حاصل کرتے تھے۔
وہ راشن کی سو گرام کی پوٹلی بناتے اور آپس میں تقسیم کر لیتے اور ہر ایک ڈاکو کی پیٹھ پر ان کا ہفتوں کا راشن ہوا کرتا تھا
ان کا کہنا ہے کہ کبھی اگر ان کے کسی ساتھی کو گولی لگ جاتی تو ڈاکٹر بلا لیتے تھے۔ وہ سب جنگلوں میں سوتے تھے اور ان کے اوپر سے سانپ بھی گزر جاتے تھے لیکن ان کے مطابق کبھی سانپ نے کسی کو کاٹا نہیں۔ اگر وہ بیمار ہوتے تو دیسی دوا سے اپنا علاج کرتے تھے
ان کا یہ اصول تھا کہ کسی گاؤں میں نہیں ٹھہرنا ہے۔ کسی بہن بیٹی کے زیور نہیں اتارنے ہیں۔ لوگوں کی حیثیت کے مطابق ہی ان سے تاوان وصول کرتے تھے۔ جسے اغوا کرتے تھے، اسے نہیں مارتے تھے بلکہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور خاطر کرتے تھے۔ وہ تاوان بیس ہزار سے پچاس ہزار روپے تک وصول کرتے تھے
کسی خاتون کی عزت سے کھیلنے کا نتیجہ موت تھی یعنی گروہ کے ایسے شخص کو خود ہی گروہ والے گولی مار دیتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ گاؤں والے ان کے خلاف نہیں جاتے تھے
پولیس کا کہنا ہے کہ اگر گاؤں والوں کی انہیں مدد نہیں ہوتی تو یہ گروہ ان علاقوں پر اتنے زمانے تک راج نہیں کر سکتے تھے
مننا سنگھ نے بتایا کہ ان کے وقت میں سب سے بڑا گینگ ملکھان سنگھ کا تھا، لیکن اس کے علاوہ بھی گینگ تھے جو شہرت رکھتے تھے اور سرگرم عمل تھے۔ ان گروہوں میں گھنشیام سنگھ، نربھے گرجر، پھولن دیوی، صوبیدار پان سنگھ تومر، بلونت سنگھ تومر اور سیما پریہار وغیرہ کے گینگ بھی بہت زیادہ سرگرم تھے اور پولیس سے ٹکر لے رہے تھے
مننا سنگھ بتاتے ہیں کہ 17 جون 1982 کو انہوں نے اور ان کے گینگ نے ہتھیار ڈالے تھے اور تقریباً دس سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد 1993 میں رہا ہوئے اور اس کے بعد ہی اپنے گھر لوٹ سکے
بہرحال۔۔ ڈاکو اور چمبل میں انڈیا اور برصغیر کے لوگوں کی کافی دلچسپی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پر فلم ’شعلے‘ سمیت متعدد کامیاب اور بلاک باسٹر فلمیں بن چکی ہیں۔
چمبل کا علاقہ اپنے آپ میں پراسراریت لیے ہوئے ہے۔ یہاں کی سیر کرنے والی صحافی سواتی چمبل کا تعارف یوں کراتی ہیں ”چمبل کا نام ہی ایک ایسی سرزمین کی تصویر کشی کرتا ہے جو کسی کے قابو سے باہر ہو، جس کی تسخیر نہ کی گئی ہو اور جو اپنے اندر سحر انگیز طاقت رکھتی ہو“
چمبل کا علاقہ جنوب مشرقی راجستھان اور جنوب مغربی اترپردیش اور شمالی مدھیہ پردیش کے علاقے پر پھیلا ہوا ہزاروں مربع کلومیٹر پر محیط تہذیبی اور جغرافیائی علاقہ ہے۔ یہ دریائے چمبل اور جمنا دریا کے علاقے میں پھیلا ہوا دشوار گزار علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پانچ لاکھ ہیکٹر کی خراب اور ناہموار زمین ہے، جس پر کاشت کاری تقریباً ناممکن ہے
فطرت سے محبت کرنے والے لوگوں کے لیے متنوع اور منفرد ماحولیاتی نظام کے ساتھ چمبل کی گھاٹی میں بہت کچھ دیکھنے کے لیے ہے۔ بھرپور تاریخ اور ورثے کے ساتھ وادیِ چمبل کے پاس اپنے دلکش مناظر، دیہی ماحول، غیر آلودہ فطرت، دلفریب کھنڈرات اور بہت ساری داستانیں ہیں
اس کے علاوہ چمبل بہت سارے نایاب اور کمیاب جانوروں کے علاوہ جنگلی اور حیاتیات کا مقام بھی ہے اور اسی لیے انڈین نے وہاں ان کے لیے محفوظ پناگاہیں بھی بنائی ہیں
یہاں بہتے چمبل دریا کی تخلیق یا معرض وجود میں آنے کی بھی اپنی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اسے اکثر شراپت یعنی ملعون دریا کہا گیا ہے کیونکہ ہندو اساطیر کے مطابق رنتی دیو نے ہزاروں جانوروں کو قربان کیا تھا اور پنڈتوں کی دعوت کی تھی
ہندو اساطیر میں بیان کی گئی روایت میں بتایا گیا ہے کہ رنتی دیو نے اتنے جانور ذبح کیے تھے کہ ان جانوروں کے خون سے یہ دریا بہہ نکلا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس دریا کو چرماوتی ندی کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس کا معروف رزمیہ مہابھارت سے بھی تعلق ہے
رزمیہ کے مطابق مہابھارت میں کورووں اور پانڈووں کے درمیان پاسے ڈالنے کا کھیل اسی دریا کے کنارے کھیلا گیا تھا اور اس میں اس کا ذکر چرماوتی کے نام سے ملتا ہے۔
جب پانسے کے کھیل کے نتیجے میں دروپدی کی بے عزتی ہوتی ہے تو وہ اس دریا پر لعنت بھیجتی ہیں، جو اس ہولناک واقعے کی گواہ تھی۔ ان کی بددعا تھی کہ جو کوئی بھی اس دریا کا پانی پیے گا وہ انتقام کی پیاس سے بھر جائے گا، جو کبھی نہیں بجھے گی
بہرحال دروپدی کی لعنت کے اس افسانے نے لوگوں کو طویل عرصے تک اس دریا یہاں تک کہ اس علاقے سے دور رکھا اور یہ بیابان جنگل اور دشوار گزار علاقہ بنا رہا
یہ دریا پہلے دریائے جمنا میں ملتا ہے جو دہلی اور آگے سے بہتا ہوا اِلہ آباد (اب پریاگ راج) میں ہندوؤں کے نزدیک مقدس سمجھے جانے والے دریا گنگا میں مل جاتا ہے
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد یہ علاقہ باغی راجپوتوں کی جائے پناہ بن گیا تھا، جوکہ شاہی فوجیوں سے چھپ کر رہتے یا گاہے بگاہے ان سے ٹکر لیتے
سلطنت اور مغل دور کی تاریخوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ان کو کچل کر لَوٹنے کے بعد ابھی واپس پہنچے بھی نہ ہوتے تھے کہ اس علاقے میں پھر سے بغاوت شروع ہو جاتی تھی
ہندوستان پر جب انگریزوں کا تسلط ہوا تو انہوں نے اس علاقے اور باقی جگہوں پر ٹھگی اور ڈکیتی جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک مخصوص محکمہ قائم کیا، لیکن پھر 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد باغی سپاہیوں کے روپ میں وہاں ڈکیتوں کے گینگ پلنے بڑھنے لگے اور برٹش حکومت کے ہندوستان چھوڑنے تک بھی ان پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا
آزادی کے بعد بھی وہاں ایسے گروہوں کا ڈیرا اور تسلط رہا جو سماجی یا سیاسی تعصبات کا شکار ہوئے تھے اور انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے
پھر بیسویں صدی کے آخر میں ان گروہوں کی بحالی کے کئی پروگرام سامنے آئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پے در پے کوششوں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کے نتیجے میں 1970 کی دہائی میں سابق ڈاکوؤں نے بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈال دیے۔ تاہم وہاں اس کے بعد بھی باغی جمع ہوتے رہے اور یہ یاد دلاتے رہے کہ یہ ان کے لیے کسی پناہ گاہ سے کم نہیں
رواں سال یہاں چمبل سفاری کا آغاز ہوا ہے، جس کے تحت سیاحوں کو اس دور افتادہ اور دور رس مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے، جہاں ڈاکوؤں کا ایک سلسلہ زمانہِ قدیم سے اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے تھا
اس سفاری کا آغاز 7 مئی 2023 کو کیا گیا، جس میں سیاحوں کے لیے جہاں اس علاقے کی خوبصورتی اور دلکشی قابل دید ہو سکتی ہے، وہیں وہ علامتی طور پر ان چيزوں کا تجربہ بھی کر سکیں گے، جس کے لیے وہ علاقہ اب تک جانا جاتا ہے
مقامی میڈیا کے مطابق پہلے دن اس سفاری کے لیے ایک سو سے زیادہ سیاح پہنچے تھے اور انہوں نے اس سیر کا لطف اٹھایا کیونکہ ان کے لیے وہاں ایسی ہی چیزیں فراہم کی گئی ہیں
اس سفاری میں ایک انوکھی چیز بھی شامل ہے ، اور وہ ہے سیاح کے لیے ڈاکو بننے کا تجربہ۔۔ چمبل سفاری میں جانے والوں کو ڈاکوؤں کا لباس اور انہیں نقلی بندوقیں دی جائیں گی اور اس کے ساتھ وہ فوٹو شیشن بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں وہاں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں اور ان کے اہل خانہ سے ان کی زبانی ان کے قصے سننے کا موقع ملے گا، جو اپنے آپ میں ایک نادر موقع ہوگا
کبھی طاقت ور طبقے اور اشرافیہ کے مظالم سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھانے والے باغیوں کی پناہگاہ بننے والے
چمبل کے جنگلات سب سفاری کے لیے آنے والے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اب جگہ جگہ لاج اور ریستوراں قائم کیے گئے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہ اقدام مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنے گا اور ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔