پچاس برس پرانا تازہ زخم

وسعت اللہ خان

جنوبی امریکا کے ملک چلی میں دنیا کی پہلی منتخب مارکسٹ حکومت کو ٹھیک پچاس برس پہلے (گیارہ ستمبر انیس سو تہتر) آزادی اور جمہوریت کے عالمی چیمپئن امریکا نے پرتشدد انداز میں ختم کرایا۔ اس ڈرامے کے سب کلیدی کردار سوائے ڈاکٹر ہنری کسنجر مر چکے ہیں۔ تب ہنری کسنجر کی عمر پچاس برس تھی۔ آج وہ ایک سو برس چار ماہ کے ہیں۔ چلی میں سلواڈور آلندے کی سوشلسٹ پارٹی چار ستمبر انیس سو ستر کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ اکتوبر میں چلی کی کانگریس نے نومنتخب آلندے کی صدارت کی پینتییس کے مقابلے میں ایک سو تریپن ووٹوں سے آئینی توثیق کر دی۔ مخالفت میں پینتیس اور حق میں ایک سو تریپن ووٹ آئے، مگر پولنگ سے پہلے ہی واشنگٹن میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ بھلے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے آلندے کو صدر نہیں بننے دینا اور بن بھی گیا تو ٹکنے نہیں دینا۔

اگر ایک بار یہ مثال قائم ہو گئی تو پھر سرد جنگ کا یہ بنیادی نظریہ عام آدمی کی نگاہ میں بے وقعت ہو جائے گا کہ کیمونسٹ انقلاب صرف بندوق کی نالی سے جنم لے سکتا ہے۔

ووٹ کے ذریعے کیمونسٹ کامیابی کی مثال سے جنوبی امریکا کی دیگر امریکا نواز ریاستوں میں بھی یہ نظریات قومی دھارے کا ایک نارمل حصہ سمجھے جانے لگیں گے، لہٰذا آلندے کو ناکام بنا کے یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ پرامن انداز میں عوام کے ووٹوں سے حکومت کرنا کیمونسٹوں کے بس کا کام نہیں۔ قومی انتخابات سے پہلے آلندے کے حامیوں نے بلدیاتی انتخابات میں بھی اکثریت حاصل کر لی، چنانچہ قومی انتخابات سے ایک ماہ پہلے ڈاکٹر کسنجر نے محکمہ خارجہ کو اس بابت ورکنگ پیپر تیار کرنے کا حکم دیا کہ آلندے کی ممکنہ صدارتی کامیابی سے چلی میں کون کون سے فوری اور طویل المیعاد امریکی مفادات متاثر ہوں گے۔

چلی کی معیشت میں کانکنی کی صنعت بالخصوص تانبے کی پیداوار معیشت کا بنیادی سہارا تھا اوراس شعبے پر امریکی کمپنیوں کی اجارہ داری تھی۔ آئی ٹی ٹی، دوپاں کیمیکلز اور اینا کونڈا جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چلی کی معیشت پر پنجے گاڑ رکھے تھے۔ آلندے کے انتخابی منشور کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ برسرِ اقتدار آتے ہی غیر ملکی کمپنیوں سے برابری کی بنیاد پر حصہ داری مانگی جائے گی اور اگر انصاف نہ ہوا تو پھر کلیدی صنعتوں کا انتظام حکومت سنبھالے گی۔ یعنی غیر ملکی سرمایہ کارانہ مفادات کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا، چنانچہ چار ستمبر انیس سو ستر کو جب یہ خبر آئی کہ صورت سے کسی سرکاری کالج کے پرنسپل نظر آنے والے سلواڈور آلندے چلی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں تو اگلے دن واشنگٹن میں قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے صدر نکسن کو دلاسہ دیا کہ کسی ملک کے عوام نادانی میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کیمونسٹ کو منتخب کر لیتے ہیں تو ہمیں خاموش تماشائی بننے کی ضرورت نہیں۔ آلندے کی صدارت اس خطے میں امریکا مخالف قوتوں کا جمہوری سیاست کے بھیس میں مداخلت کا دروازہ کھول دے گی۔ بارہ ستمبر کو ڈاکٹر کسنجر نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز سے چلی کے حالات پر تبادلہِ خیالات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چلی کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔

پندرہ ستمبر کو وائٹ ہاﺅس میں کسنجر اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز کی صدر نکسن سے ملاقات ہوئی۔صدر نے حکم دیا کہ چلی کی معیشت کا ناطقہ بند کر دیا جائے۔ اس کے بعد عوام خود ہی کیمونسٹوں سے نپٹ لیں گے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر سے دارلحکومت سانتیاگو میں امریکی سفارت خانے کو تار بھیجا گیا کہ مقامی حالات کو دیکھتے ہوئے مناسب حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔ چوبیس اکتوبر کو چلی کی کانگریس کی جانب سے آلندے کی صدارت کی آئینی توثیق کے اگلے دن بری فوج کے سربراہ جنرل رینے شنائیڈر کو گھر سے دفتر جاتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ جنرل شنائیڈر کی شہرت یہ تھی کہ وہ ایک بااصول اور آئین پسند سولجر ہیں۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سی آئی اے نے انھیں راہ سے ہٹانے کے لیے دو جونئیر جنرلوں کو توڑا۔ان کا کورٹ مارشل بھی ہوا۔

ساتھ ہی ساتھ چلی کی معیشت کا دم گھونٹنے کے منصوبے پر عمل شروع ہوا۔ طفیلی مزدور تنظیموں، دائیں بازو کی پارٹیوں اور ہم خیال مقامی میڈیا میں رقومات بٹنی شروع ہوئیں تاکہ بدامنی، ہڑتالوں کا سلسلہ، معاشی عدم استحکام، پیداوار میں اتار چڑھاﺅ اور پرتشدد مظاہروں کو فروغ دے کر حکومت کو طاقت کے استعمال پر مجبور کر کے ایسی سازگار فضا بنائی جائے کہ عام لوگوں کا آلندے حکومت پر سے اعتماد اٹھتا جائے اور اس حکومت کے پاس اپنے معاشی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی سیاسی گنجائش نہ رہے، مگر تین برس کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود آلندے حکومت کو کمزور نہ کیا جاسکا کیونکہ ٹریڈ یونین تحریک اور ثقافتی شعبوں میں بائیں بازو کی تحریکی جڑیں کرائے کی قیادت کے مقابلے میں خاصی گہری تھیں۔ اگست انیس سو تہتر میں صدر آلندے نے بظاہر اپنے کام سے کام رکھنے والے جنرل آگستینو پنوشے کو بری فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا۔ پنوشے سے بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں نے حکومت کی تبدیلی کے لیے سانٹھ گانٹھ شروع کر دی۔

پنوشے کو ابتدا میں اندازہ نہیں تھا کہ بحریہ اور فضائیہ کی اعلیٰ قیادت میں امریکی سی آئی اے سیندھ لگا چکی ہے۔ سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق پہلے پہل تو پنوشے نے اس منصوبے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا مگر جب انھیں نئی حکومت کی پیش کش کی گئی تو وہ انکار نہ کر سکے۔ یہ بات اس لیے سمجھ میں آتی ہے کہ گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو بحریہ اور فصائیہ نے ایک ساتھ ایکشن کیا۔ بحریہ نے سانتیاگو کا عارضی محاصرہ کر لیا اور فضائیہ نے صدارتی محل پر بمباری کی اور بری فوج نے زمینی سپورٹ فراہم کی۔ سیاسی کارکنوں کی فہرستیں بنانے میں امریکیوں نے مقامی طالع آزماﺅں کی مدد کی۔ جس طرح انیس سو پینسٹھ میں انڈونیشیا میں جنرل سہارتو کی مدد کی گئی تھی یا جس طرح انیس سو تریپن کے ایران میں محمد مصدق کی حکومت کی برطرفی کے موقعے پر شاہ پرست فوجی قیادت کی مدد کی گئی تھی۔

سلواڈور آلندے کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ آلندے کا جواب تھا کہ باغی فوجی ہتھیار ڈال دیں، بصورتِ دیگر میں اپنے عوام کی انتخابی امانت کے تحفظ کے لیے آخری وقت تک لڑوں گا، اگرچہ مجھے شہید بننے کا کوئی شوق نہیں۔ جب فوجی دستے تباہ شدہ محل میں داخل ہوئے تو آلندے نے خود کو حوالے کرنے کے بجائے اپنی جان خود لے لی۔ یوں چلی پر اگلے سترہ برس کے لیے فاشسٹ راج مسلط ہو گیا۔

چلی کے انقلابی گیت نگار اور تھیٹر ڈائریکٹر وکٹر ہارا کو سانتیاگو کے مرکزی ایستادیو اسٹیڈیم میں پوچھ گچھ کے لیے ہزاروں سیاسی قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور تین روز بعد ان کی لاش سرکاری اسپتال کے مردہ خانے میں ملی۔ چوالیس گولیاں ماری گئی تھیں اور گٹار بجانے والی انگلیاں مسلی ہوئی تھیں۔

بیسویں صدی کا سب سے بڑا ہسپانوی شاعر پابلو نیرودا آلندے کی برطرفیانہ موت کے گیارہویں دن اپنے گھر میں مر گیا۔ روایت ہے کہ نیرودا کو زہریلا انجکشن لگایا گیا مگر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کوئی حتمی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا۔

انیس سو اسی میں شکاگو گروپ کے نیو لبرل معاشی ماہرین کی مدد سے نیا آئین تیار ہوا، جس میں نجکاری اور کھلی معیشت کو ترقی کا محور قرار دیا گیا۔ چلی میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاصا اضافہ ہوا، مگر ترقی کے آنکڑوں تلے یہ حقیقت چھپائی جاتی رہی کہ سترہ برس کے دوران چلی سب سے تیز رفتار ترقی دکھانے کے باوجود ایک ایسا ملک بن گیا جہاں معاشی عدم مساوات پورے براعظم امریکا میں سب سے زیادہ دیکھی جا سکتی تھی۔

جون انیس سو چھہتر میں ہنری کسنجر نے چلی کا پہلا دورہ کیا اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو خالص کیمونسٹ پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ جب کہ دو ماہ بعد اگست میں کسنجر نے پاکستان کا دورہ کیا اور بھٹو حکومت کو دو ٹوک دھمکی دی کہ ایٹمی طاقت بننے کا انجام اچھا نہ ہوگا۔

پنوشے نے دو ہزار نوے میں اس شرط پر صدارت چھوڑی کہ کوئی بھی سویلین حکومت آئے، وہ انیس سو اٹھانوے تک بری فوج کے سربراہ رہیں گے۔ سبکدوشی سے پہلے پنوشے کو تاحیات سینیٹر بنا دیا گیا تاکہ وہ کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے محفوظ رہیں۔دس دسمبر دو ہزار چھ میں پنوشے کا انتقال ہوا۔ وہ سیکڑوں مقدمات کے باوجود ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں بھیجے جا سکے۔

پنوشے کے دور میں پچاس ہزار شہری اپنے سیاسی نظریات کے سبب گرفتار ہوئے۔ انھیں یا ان کے لواحقین کو اب سرکار کی جانب سے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ان میں سے انتالیس ہزار شہریوں پر ریاستی خفیہ اداروں نے طرح طرح کا جسمانی ٹارچر کیا۔ ساڑھے تین ہزار سیاسی کارکن مارے گئے۔ ڈیڑھ ہزار اب تک لاپتہ ہیں۔

ہر منتخب حکومت فوجی قیادت سے پوچھتی ہے کہ ان کے ریکارڈ میں لاپتہ شہریوں کے بارے میں اگر کوئی معلومات ہیں تو انھیں حکومت سے شیئر کیا جائے، مگر فوجی قیادت اس بابت مسلسل خاموش ہے، چنانچہ پچاس برس پرانا زخم آج بھی ہزاروں خاندانوں کے لیے ہرا ہے۔

گیارہ ستمبر انیس سو تہتر دراصل پہلا نائن الیون تھا، جس نے ثابت کیا کہ جمہوریت بھی اگر طاقت ور کی مرضی کے خلاف ہو تو اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اس عملی مثال نے لاشعوری طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروہوں کو انتہا پسندی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ شاید اسی رجحان کی انتہا دو ہزار ایک کا نائن الیون تھا۔

بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close