چالیس برس کا ہونے پر مرد کے دماغ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟

ویب ڈیسک

عمر بڑھنے کے ساتھ مرد کی عادات و اطوار میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ یہ درست نہیں کہ جو سوچ بیس برس کی عمر میں ہو، وہ تیس یا چالیس سال کا ہونے پر بھی ویسی ہی رہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر پریشان ہوا جائے، کیونکہ عمر کے مختلف حصوں کی مختلف خصوصیات اور تقاضے ہوتے ہیں، اس لیے بڑھتی عمر کے ساتھ عادات اور سوچ میں تبدیلی ایک فطری امر ہے

جب انسان اپنے عروج یعنی مکمل شباب پر ہوتا ہے تو اس کی حالت قدرے مختلف ہوتی ہے، تاہم بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اعصابی خلیے سکڑتے ہیں اور چالیس تک پہنچنے کے بعد ہر دس برس بعد انسانی دماغ کا حجم پانچ فیصد کم ہو جاتا ہے

اس صورت میں نیند میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ ادھیڑ عمری میں ذہنی صلاحیتیں بھی کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی ہو، لیکن عمومی طور پر یہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں

اس حوالے سے عربی میگزین ’سیدتی‘ میں ان طریقوں کو بیان کیا گیا ہے، جن پر عمل کرتے ہوئے عمر کے اس حصے کو بہتر طور پر گزارتے ہوئے زندگی کے اگلے مرحلے یعنی بڑھاپے سے صحت مند طریقے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے

دماغی ساخت اور اس کا عمل
دماغ اعصابی خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خلیات ایک دوسرے کے ساتھ نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر رابطہ رکھتے ہیں اور ان کا عمل اور ردعمل بھی مخصوص ہوتا ہے

 دماغ میں تبدیلیاں

دماغ کی ساخت میں مختلف تبدیلیاں ذہنی یا نفسیاتی تبدیلیوں سے قبل واقع ہوتی ہیں، جو عمر کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں

اعصابی خلیات کی بتدریج موت یا سکڑنے کے نتیجے میں دماغ کا سائز اور اس کا وزن چالیس برس کی عمر کے بعد کم ہونے لگتا ہے۔ یہ کمی چالیس برس کی عمر کا ہونے کے ہر دس برس بعد پانچ فی صد کے تناسب سے واقع ہوتی ہے

ایسا نہیں کہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو روکا نہ جا سکے، بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس شرح سے دماغ کی ساخت اور حجم میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، انہیں اومیگا تھری سپلیمنٹس لینے یا ان سے بھرپور غذائیں کھانے سے روکا یا اس کے تناسب کو کم کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اومیگا تھری سے بھرپور غذا دماغ کی حالت کو بہتر رکھنے میں کافی معاون ثابت ہوتی ہے، جس سے ان خلیات کی اصلاح بھی ہوتی ہے، جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مردہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں

ذیل میں ہم چالیس برس کا ہونے کے بعد مرد کے دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں پر مزید روشنی ڈالتے ہیں اور ان اسباب کو تلاش کرتے ہیں، جو اس عمل کا سبب ہیں

1- پروسیسنگ کی رفتار کا کم ہونا:
دماغ کے حسیاتی خلیات فوری طور سے ہمیں ردعمل دیتے ہیں، جو ان تک پہنچتے ہیں یعنی صوتی، بصری یا لمس کے اثرات فوری طور پر مخصوص خلیات کے ذریعے دماغ کے اس حصے تک پہنچتے ہیں، جو انہیں شناخت کرنے کے لیے مخصوص ہوتے ہیں

کسی بھی عمل پر دماغ کی جانب سے ردعمل بھی فوری طور پر ہوتا ہے، جسے ’پروسیسنگ اسپیڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ردعمل فطری طور پر عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے لگتا ہے، تاہم اس عمل کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی سپلیمنٹس (جن میں لیوٹین اور زیکسینتھین شامل ہیں) لیے جا سکتے ہیں، جس سے اس ردعمل کی رفتار یعنی ’پروسیسنگ اسپیڈ‘ کی کمی کو دور کیا جا سکتا ہے

2۔ حافظے کی کمزوری:
عام طور پر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مرد کے حافظے میں کمی چالیس سال کا ہونے پر نہیں، بلکہ پینتالیس سے انچاس کی عمر میں واقع ہونا شروع ہوتی ہے

دماغ کے مختلف حصوں میں حافظے یعنی میموری کی مختلف اقسام موجود ہیں، جن میں سب سے نمایاں ’ہیپوکیمہس‘ ہے۔ اس حصے کے خلیے عمر کے ساتھ ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے یادداشت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے، تاہم یہ ایک قدرتی عمل ہے مگر بعض اوقات یہ کمی ’الزائمر‘ کی بیماری کا سبب بھی بن سکتی ہے

بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کے خراب ہونے کی ایک وجہ ’ڈوپامائن‘ کی سطح میں کمی کا واقع ہونا بھی ہے۔ یہ ہر دس برس بعد دس فی صد کے تناسب سے کم ہونے لگتی ہے، جس کا آغاز جوانی سے ہونے لگتا ہے

ڈوپامائن کی سطح کو مساج تھراپی کے ذریعے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ ڈوپامائن کی پیداوار میں اکتیس فی صد تک اضافہ کیا جانا ممکن ہے، جو اومیگا تھری سے کیا جا سکتا ہے

3۔ کم خوابی:
دماغ کی صحت کا گہرا تعلق نیند سے ہے۔ نیند کی کمی کی علامات صرف دن میں ہی سونے تک محدود نہیں بلکہ ان میں ذہنی دباؤ یا یاداشت کی کمزوری اور ارتکاز کی کمی بھی شامل ہے

بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ نیند کے دورانیے میں بھی کمی واقع ہونے لگتی ہے، جس سے تکان اور ڈپریشن جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بے خوابی یا کم خوابی سے درمیانی عمر یعنی ادھیڑ عمر کے افراد متاثر ہوتے ہیں، جس سے ان میں نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے

اس صورت میں زنک کا استعمال پُرسکون نیند کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس صورت حال میں کسی ماہر معالج سے بھی رابطہ کرنا ضروری ہوتا ہے

4- ٹیسٹوسٹیرون ہارمون میں تبدیلی:
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی کمی تیس سے چالیس برس کی عمر سے شروع ہونے لگتی ہے، جو ہر برس ایک سے دو فی صد تک ہوتی ہے، تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ درمیانی عمر کے مردوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انہیں ٹیسٹوسٹیرون ہارمون کی کمی کی وجہ سے ڈپریشن اور تھکان کے علاوہ حافظے کی کمزوری بھی ہو سکتی ہے

تجویز کیا جاتا ہے کہ ٹیسٹوسٹیرون کی کمی دور کرنے کے لیے کسی ماہر سے رجوع کیا جانا ضروری ہے، تاہم ٹیسٹوسٹیرون کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے جسمانی ورزش اور وزن میں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب اور اچھی نیند کا حصول معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی دباؤ سے بھی اجتناب کرنا اہم ہے۔

 چالیس برس کی عمر کے بعد دماغی صحت کو کیسے بہتر بنایا جائے

اس حوالے سے ماہرین کی جانب سے بعض نکات بیان کیے گئے ہیں، جن پر چالیس برس کی عمر میں پہنچنے کے بعد عمل کرنے سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں

صحت مندانہ خوراک کی عادت کو اپنائیں، جو چالیس برس کے بعد زیادہ ضروری ہوجاتی ہے

جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش کی عادت کو اپنایا جائے کیونکہ صحت مند دماغ کے لیے صحت مند جسم کا ہونا ضروری ہے

جسم میں خون کے بہاؤ اوردماغ کو مناسب مقدار میں آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ’کارڈیو‘ مشقیں یا بریدنگ ایکسر سائز (سانس کی ورزش) ضرور کریں، جو اعصابی خلیات کی تشکیل اور دماغ کے سائز کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close