پاکستان سیاسی، سماجی اور قومی سطح پر بلیک پراپیگنڈا کا شکار ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اور تحقیق کی عادت بیدار کرنا ہوں گی۔ بنا تحقیق بات آگے بڑھا دینا بھی بلیک پراپیگنڈا کی ہی ایک شکل ہے۔
انسانی ارتقا نے منظم معاشروں کو جنم دیا اور انہی منظم معاشروں نے ریاست تشکیل دی۔ ریاست میں موجود ہر معاشرتی گروہ نے اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرنا شروع کر دیا۔ ہر گروہ خود کو اچھا اور دوسرے کو برا کہنے لگا۔ نظریات کے اسی پرچار کے ذریعے پراپیگنڈا وجود میں آیا، جس کے ذریعے کمیونٹیز اور گروہ اپنے مفادات کو تکمیل تک پہچانے لگے۔
اگر اسی بات کو آسان الفاظ میں دیکھا جائے تو پراپیگنڈا اپنے نظریات و خیالات اور سوچ کو عوام کے سامنے لانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظریات اور خیالات مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی، یعنی یہ کسی کا امیج بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اس میں کسی بھی ایک مخصوص گروہ کو ایک مخصوص بات کے لیے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
اس کی تاریخ میں اگر مثال ڈھونڈی جائے تو نازی جرمنی (45ء-1933ء)، اٹلی میں فاشزم (43ء-1922ء)، کمیونسٹ سوویت یونین (خاص طور پر 1924ء سے 1953ء کے درمیان)، کمیونسٹ چین (1966ء سے 1976ء کے درمیان ثقافتی انقلاب کے دوران) اور تھیوکریٹک ایران (1980ء کی دہائی میں) میں ریاست اور حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پراپیگنڈا شامل ہے۔ اسی طرح کا پراپیگنڈا غیر آمرانہ حکومتوں میں بھی کیا گیا اور ایسا خاص طور پر دوسری عالمی جنگ (1945ء-1939ء) کے دوران ہوا۔
اس مقصد کے لیے پہلے تو اخبار، پمفلٹ، جلسے جلوس اور مظاہرے استعمال کیے جاتے تھے، مگر جیسے جیسے دور جدید ہوتا گیا، پراپیگنڈا پھیلانے کے ذرائع بھی بدلتے چلے گئے۔ اب اس کے لیے مین اسٹریم میڈیا یعنی ٹی وی، ریڈیو کے علاوہ سوشل میڈیا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
پراپیگنڈا انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ترغیب دینا، افواہ پھیلانا یا دروغ گوئی کرنے کے ہیں۔ کسی زمانے میں جنگیں تیر، تلوار اور نیزے سے لڑی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ ترقی کے بعد ان کی جگہ بندوق، ٹینک نے لے لی۔ اسی طرح کسی زمانے میں مخالفین سے جنگ زبانی کلامی لڑی جاتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کی جگہ پراپیگنڈا نے لے لی۔ اس میں وسائل کم استعمال ہوتے ہیں اور اس سے فوائد زیادہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
پراپیگنڈا کی 3 اقسام ہیں، جو اس کو پھیلائے جانے کے مقصد اور نظریہ کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ ان میں وائٹ، گرے اور بلیک پراپیگنڈا شامل ہیں۔ سفید پروپیگنڈا میں اس کے پھیلائے جانے کی وجوہات اور اس کے ماخذ کے بارے کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی تجارتی کمپنی خود کو ملنے والے کسی ایوارڈ کا اعلان کر دے، جو اس کو اس کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ملا ہو، حالانکہ در حقیقت اس طرح کے ایوارڈ خریدے جاتے ہیں، لیکن ان کا مقصد تجارتی ادارے کو بہترین ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے پراپیگنڈا کو مثبت بھی کہہ سکتے ہیں، حالانکہ اس کی بنیاد ایک غلط بیانی ہوتی ہے۔
گرے پراپیگنڈا کی شناخت مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس کا مقصد تو واضح ہوتا ہے، مگر اس کا ماخذ واضح نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے کسی مخصوص موضوع پر لکھے مضامین کا پرچار کرنا، جس کو بظاہر غیر جانبدار لوگ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود وہ لوگ، جن کو غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے، ان سے کسی بات کو بار بار کروانا یا کسی چیز کے فوائد بار بار گنوانا تاکہ اس کی مشہوری ہو سکے۔
1940ء سے 1960ء کے درمیان سگریٹ بنانے والی کمپنیز نے اسی اپروچ کو اپنی پروموشن کے لیے استعمال کیا تھا کہ سگریٹ اتنی بری چیز نہیں ہے، جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے اس دور میں سگریٹ اسٹیٹس سمبل کے طور پر پی جاتی رہی یا پھر جیسے آج کے دور میں ٹیٹرا پیک دودھ کی کمپنیز کھلے دودھ کے نقصانات گنواتی نظر آتی ہیں تاکہ وہ اپنی سیل بڑھا سکیں۔ اس کو ہم پلانٹڈ پراپیگنڈا بھی کہہ سکتے ہیں۔
بلیک پراپیگنڈا سب سے خطرناک قسم ہے۔ اس کا ماخذ اور منبع معلوم نہیں ہوتا ہے، مگر اس میں کی جانے والی باتیں غلط معلومات پر مبنی ہوتی ہیں، جس کا مقصد ہدف کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ہدف کوئی شخص، حکومت یا پھر کوئی ملک بھی ہو سکتا ہے۔ بلیک پراپیگنڈا ایسا بیانیہ گھڑ سکتا ہے، جو کسی ملک کے مفادات کے خلاف ہو کیونکہ اس کا ماخذ معلوم نہیں ہوتا، اس لیے اس کو کسی بھی فریق سے منسوب کر کے طوائف الملوکی پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اسی سال کے اوائل میں ایک عام ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پاکستان کی کسی تالا بند قبر کی تصویر شیئر کر کے کہا گیا کہ یہ کسی خاتون کی قبر ہے اور اس پر تالا ’نکروفیلیا‘ (لاشوں کی بے حرمتی) کے ڈر سے لگایا گیا ہے۔ اس عمل سے ساری دنیا پر ایک انتہائی منفی تاثر ڈالا گیا کہ پاکستان میں قبر میں بھی لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ حالانکہ حقیت کچھ اور تھی۔
پاکستان آج کل بلیک پراپیگنڈا کا شکار ہے۔ اگرچہ اس کی تردید جلد ہی ہو جاتی ہے لیکن یہ ملکی صورت حال کو خراب بنانے کے لیے کافی ہے۔ بلیک پراپیگنڈا کے پھیلنے اور پھیلانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ تحقیق کی عادت کھو چکے ہیں اور یہ زیادہ انہی ذہنوں کو ہدف بناتا ہے، جو سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہتھیاروں سے جنگ لڑنا پرانا ہو چکا ہے۔ اب ففتھ جنیریشن وار کا دور ہے اور بلیک پراپیگنڈا اس میں ایک اہم ہتھیار ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی نے خاص طور سے سوشل میڈیا کی ترقی اور تیزی نے بلیک پراپیگنڈا کے پھیلانے اور اثرانداز ہونے کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)