بیماریوں کی تشخیص کے لیے مہنگے ٹیسٹوں کے نتائج پر کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

ہم اچھی بھلی زندگی جی رہے ہوتے ہیں کہ اچانک روز مرہ کے معمولات کو نمٹانے کے دوران ہمیں اپنی طبیعت ناساز لگتی ہے تو ایسے میں ہم علاج اور طبیعت میں بہتری کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں

مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر ہم سے کچھ سوالات پوچھتے ہیں اور مزید جانچ پڑتال کے لیے خون کا تجزیہ یا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کی رپورٹس ملنے کے بعد ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ آپ کو فلاں بیماری کی تشخیص ہوئی ہے

لیکن اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ ہمیں عام سی تشخیص کے لیے واقعی ان ٹیسٹوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور ان کا نتیجہ اتنا ہی درست بھی ہوتا ہے؟

اس سوال کا جواب حیرت انگیز طور پر بہت ہی کم اثبات میں ملتا ہے

طبی موضوعات پر لکھنے والے مصنفین ایڈرین بارنیٹ اور نکول وائٹ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ان میں سے محض چند طبی ٹیسٹ سو فیصد درست ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ فطری طور پر متغیر مزاج ہوتے ہیں، تاہم بہت سے طبی ٹیسٹ بھی مریضوں کے محدود نمونوں پر مبنی ہوتے ہیں۔۔ اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بعض محققین جان بوجھ کر نئے ٹیسٹوں کی تاثیر کو بڑھا چڑھا کر بیان کر سکتے ہیں

لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان مثالوں کو آگے لے کر بڑھیں، آپ سب سے پہلے تو اس مضمون سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہ کریں کہ ہمیں کسی مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹوں پر انحصار کرنا چھوڑ دینا چاہیے

لیکن اگر ہم ان کو دانشمندی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو جہاں ان کے موثر ہونے سے متعلق جاننا ضروری ہے وہیں ان کی کمزوریوں یا خامیوں سے آگاہی بھی ضروری ہے۔

فالس پازیٹیو ٹیسٹ

تو اب آتے ہیں ہم ایسے ہی ٹیسٹوں کی چند مثالوں کی جانب

بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے ٹیسٹ کی ایک مثال پروسٹیٹ سپیسیفیک اینٹیجن (پی ایس اے) سکریننگ ٹیسٹ ہے جس سے خون میں ایک خاص پروٹین کی سطح سے پروسٹیٹ کینسر (مثانے کے کینسر) کی تشخیص میں مدد لی جاتی ہے

اس ٹیسٹ سے 93 فیصد تک کینسر کی تشخیص میں مدد مل سکتی ہے، تاہم اس میں غلط تشخیص (false positive) ہونے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ مثبت نتائج کے ساتھ تقریباً 80 فیصد مردوں کو درحقیقت کینسر نہیں ہوتا

ان 80 فیصد لوگوں میں جن میں کینسر کے مثبت آنے کی جھوٹی شرح سامنے آتی ہے ان میں نتیجتاً غیر ضروری تناؤ پیدا ہوتا ہے اور اس دوران ان کو بائیوپسی سمیت کئی تکلیف دہ ٹیسٹوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ یہ کلیئر ہو سکے کہ کینسر ہے بھی یا نہیں

کووڈ 19 کے لیے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے ریپیڈ اینٹیجن ٹیسٹ بھی ایک مثال ہیں، جن میں (فیک پازیٹیو رزلٹ) گمراہ کرتا ہے

ان ٹیسٹوں کے جائزے سے پتا چلا ہے کہ علامات کے بغیر لیکن مثبت ٹیسٹ آنے والے افراد میں سے صرف 52 فیصد کو کووڈ تھا

کووِڈ کی علامات اور مثبت نتیجے والے افراد میں جانچ کی درستگی کا تناسب 89 فیصد تک بڑھ گیا تھا

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کس طرح ٹیسٹ کی کارکردگی کو کسی ایک عدد میں نہیں سمویا جا سکتا بلکہ یہ ہر شخص کی انفرادی کنڈیشن پر منحصر ہے

تو آخر اتنے مقبول اور مہنگے تشخیصی ٹیسٹ سب کے لیے یکساں درست (کامل) کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف مزاج یا حالات میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیسٹ کرواتے وقت آپ کے جسم کا درجہ حرارت زیادہ ہو سکتا ہے، جبکہ کسی دوسرے شخص کا نارمل ہو سکتا ہے جو اسی وقت ٹیسٹ کروا رہا تھا۔ یہ وہ عوامل ہیں جو نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں

خون کے ٹیسٹ میں بہت سے دیگر عوامل بھی نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں، جیسا کہ دن کا وقت یا آخری بار جب آپ نے کھانا کھایا تھا

یہاں تک کہ ہر جگہ بلڈ پریشر ٹیسٹ بھی غلط ہو سکتا ہے۔ نتائج اس بات پر منحصر ہو سکتے ہیں کہ بریسلیٹ ( بلڈ پریشر ناپنے کے لیے بازو پر باندھنے والا آلہ) آپ کے بازو پر کتنی اچھی طرح فٹ بیٹھتا ہے یا یہ کہ اس وقت آپ ٹانگیں کراس کر کے بیٹھے تھے یا پُرسکون انداز میں، یا کہیں ٹیسٹ ختم ہونے تک آپ باتوں میں تو مشغول نہیں تھے

ہر شخص کے مختلف مزاج اور حالتیں ٹیسٹ کے نتائج تک کو متاثر کرتے ہیں

چھوٹے پیمانے پر لیے گئے نمونے اور ڈیٹا میں دھوکہ دہی

نئے تشخیصی ماڈلز پر بڑے پیمانے پر تحقیق کا مواد بھی موجود ہوتا ہے۔

نئے ماڈلز اکثر ’طبی پیش رفت‘ کے طور پر سرخیاں بناتے ہیں، جیسا کہ آپ کی ہینڈ رائٹنگ پارکنسز (رعشہ) کی بیماری کا پتہ کیسے لگا سکتی ہے، خواتین کا فارمیسی کسٹمر کارڈ ان کے اووریز کے کینسر کا پہلے کیسے پتہ لگا سکتا ہے، یا آنکھوں کی حرکت سے شیزوفرینیا کا پتہ کیسے چل سکتا ہے۔

بہت سے تشخیصی ماڈل چھوٹے نمونے کے سائز کی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے سے پتا چلا ہے کہ نصف تشخیصی مطالعات میں نمونے کے لیے صرف 100 سے زیادہ مریضوں کا ڈیٹا لیا جاتا ہے۔

ایسے چھوٹے نمونوں سے تشخیصی ٹیسٹ کی درستگی کی صحیح تصویر حاصل کرنا مشکل ہے۔

درست نتائج حاصل کرنے کے لیے ٹیسٹ کا استعمال کرنے والے مریضوں کو اس کی نشوونما کے لیے استعمال کیے جانے والے مریضوں کی طرح ہونا چاہیے۔

مثال کے طور پر دل کی بیماری کے زیادہ خطرے والے لوگوں کی شناخت کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا فریمنگھم کارڈیو ویسکولر رسک سکیل امریکہ میں تیار کیا گیا تھا اور یہ جانا جاتا ہے کہ آسٹریلیا اور ٹورس سٹریٹ آئی لینڈ کے باشندوں میں اس کے نتائج درست نہیں پائے جاتے۔

اسی طرح کے نقص پولیجینک رسک سکورز کی درستگی میں پائے گئے ہیں۔

یورپی باشندوں کے مطالعات سے بیماری کے خطرے کی پیشن گوئی کرنے کے لیے یہ ٹیسٹ ہزاروں مختلف جنیات (genes) کے بارے میں معلومات کو یکجا کرتے ہیں تاہم اس کے نتائج غیر یورپی آبادی میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے پائے گئے۔

حال ہی میں ایک اور بڑے مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایسے محققین بھی ہیں جنھوں نے خصوصی جرائد میں اشاعت حاصل کرنے کے لیے کچھ ماڈلز کی درستگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

ٹیسٹ کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر حاصل شدہ نمونوں میں سے ایسے مریضوں کی معلومات ہٹا دینا جن کے مرض کے خطرے کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہو۔

کچھ ٹیسٹ بھی صحیح معنوں میں مرض کی پیشین گوئی میں ناکام رہتے ہیں جن میں مستقبل سے متعلق معلومات کا فقدان موجود ہوتا ہے جیسا کہ پیش گوئی کرنے والا انفیکشن ماڈل جس میں یہ تعین کرنا بھی شامل ہے کہ آیا مریض کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئی تھیں یا نہیں۔

شاید تشخیصی ٹیسٹ کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی سب سے بڑی مثال تھیرانوس سکینڈل تھی جس میں انگلیوں کو چبھونے کے بعد خون کے ٹیسٹ سے متعدد صحت کی حالتوں کی تشخیص کی گئی تھی اور اس میں سرمایہ کاروں سے کروڑوں ڈالرز وصول کر لیے گئے تھے۔

اس جھوٹ کا سامنے آ جانا بہت نتیجہ خیز رہا تھا جس میں اس کے ماسٹر مائنڈ کو دھوکہ دہی کا قصوروار ٹھہرایا گیا۔

تشخیصی ٹیسٹ کیا مکمل اور سو فیصد درست ہوتے ہیں؟

درست ادویات اور بڑے ڈیٹا کے اس دور میں مرض کی انتہائی درست پیشین گوئیوں کے لیے مریض کے بارے میں درجنوں یا سینکڑوں معلومات یکجا کرنا پرکشش لگتا ہے جس میں مشین لرننگ یا مصنوعی ذہانت تک کا استعمال بھی کیا جاتا ہے تاہم اب تک یہ وعدہ حقیقت سے بہت قریب نہیں۔

ایک مطالعے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 1995 سے 2020 کے درمیان80 ہزار نئے ایسے ماڈلز سامنے لائے گئے جس سے مرض کی درست تشخیص میں مدد مل سکے۔ یہ تعداد ہر ماہ تقریباً 250 نئے ماڈلز کی بنتی ہے۔

کیا یہ ماڈل صحت کی دیکھ بھال کی صورتحال کو تبدیل بھی کر رہے ہیں؟ ہمیں اس کی کوئی خاص علامت تو نظر نہیں آتی اور اگر وہ واقعی میں بڑا اثر ڈال رہے ہوتے، تو یقیناً ہمیں نئے ماڈلز کے اس طرح کے مسلسل بہاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بہت سی بیماریوں کے لیے اعداد و شمار کے مسائل ہیں جنھیں کوئی بھی جدید ترین ماڈل حل نہیں کر سکتا جیسے کہ پیمائش کی غلطیاں یا گمشدہ ڈیٹا جو درست پیش گوئیاں ناممکن بنا دیتے ہیں ۔

کچھ بیماریاں فطری طور پر بے ترتیب ہونے کا امکان رکھتی ہیں جن میں واقعات کی پیچیدہ زنجیریں شامل ہوتی ہیں جنھیں کوئی مریض بیان نہیں کر سکتا اور کوئی ماڈل درست پیش گوئی نہیں کر سکتا۔

ان کی مثالوں میں پرانی چوٹیں یا بیماریاں شامل ہو سکتی ہیں جو کئی دہائیوں پہلے کسی مریض کو ہوئی تھیں، جنھیں وہ یاد نہیں رکھ سکتے اور جو ان کی میڈیکل ہسٹری (طبی تاریخ) میں موجود ہی نہیں ہوتیں۔

تشخیصی ٹیسٹ کبھی بھی مکمل درست نہیں ہو سکتے۔ اپنی خامیوں کو پہچاننا ڈاکٹروں اور ان کے مریضوں کو اس بارے میں باخبر بحث کرنے کی اجازت دے گا کہ نتیجہ کا کیا مطلب ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close