قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حضور نبی کریم ﷺکو رحمت للعالمین کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ تو اس ربیع الاول میرے ذہن میں یہ سوال سر اٹھایا کہ کیا ان کی تعلیمات آج کے انسان کے لئے بھی اسی طرح رحمت ہیں اور کیا وہ ذات مسلمانوں کے لئے ہی رحمت ہے یا غیر مسلم بھی ان کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں جب علم و آگہی نے ترقی کے اتنے مدارج طے کر لیے ہیں۔ جب انسان نے عقل و خرد اور تدبر و شعور کی اتنی گتھیاں سلجھا لی ہیں
جب عالی دماغوں نے بیٹھ کر انسانی حقوق کے چارٹر، قواعد و ضوابط اور اصول و قوانین لکھتے ہوئے کتابوں کے ورق کالے کر دیے ہیں۔ ایک ایک نکتے پر اتنی عرق ریزی کر رہے ہیں کہ زندگی کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑ رہے تو کیا اب بھی ہمیں اس محسنِ انسانیت اور چشمہ علم و حکمت سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک ذاتی تجربہ بتاتا ہوں
یورپی ممالک میں اگر آپ فوج پولیس یا دیگر سرکاری محکموں میں جاب کرنا چاہیں تو آپ کی علمی قابلیت، کریکٹر سرٹیفیکیٹ، میڈیکل کنڈیشن اور جسمانی ساخت کے علاوہ ایک اور شرط کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے جو بظاہر معمولی سے لگتی ہے لیکن یہ معمولی سے شرط بنیادی حیثیت رکھتی ہے اس اکیلی شرط کے پورے نہ ہونے کی صورت میں آپ کی درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔ اس شرط کا تعلق جسم کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لئے اس پر بنائے گئے نقش و نگار یعنی ٹیٹوز ہیں۔ سرکاری محکموں میں پولیس اور فوج کی بھرتی میں ان کی اپنی ٹیٹو پالیسی ہوتی ہے۔ مجھے ایک ایسے ہی سرکاری محکمے کے ریکروٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب میں نے ان کی ٹیٹو پالیسی کی گائیڈ لائن پڑھی تو دل ہی دل میں ایسی پالیسی بنانے والوں کے علم و حکمت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
اس پالیسی کے تحت اگر کسی امیدوار نے اپنے جسم کے کسی بھی حصے پر پر کوئی ایسا ٹیٹو بنوا رکھا ہے جس میں خنجر، تلوار، پستول، بندوق یا کسی بھی قسم کے اسلحے کا نقش گدوایا ہوا ہے تو اس کی درخواست مسترد ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ وہ کوئی امن پسند شہری نہیں ہے۔ اگر کسی نے کوئی خون آشام بھوت یا چڑیل، یا پھر خالی لہو کے دھبے وغیرہ بنوائے ہوئے توبھی اس کی درخواست بھی مسترد ہو جائے گی۔ یہ نقش ظاہر کرتا ہے کہ وہ متشدد یا اذیت پسند شخص ہے۔
اگر کسی نے اپنے جسم پر کسی برہنہ مرد یا عورت کا نقش یا جنسی طور پر بھڑکیلا نقش بنوا رکھا ہے تو بھی اس کی درخواست مسترد ہو جائے گی کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شخص اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ اگر کسی نے اپنے جسم پر کوئی ایسی عبارت دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھوا رکھی ہے جو دنیا کی کسی بھی قوم، مذہب، نسل یا نظریے کے خلاف نفرت انگیز ہے توبھی اس کی درخواست مسترد ہو جائے گی کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امیدوار متعصب ہے یہ نقش و نگار چاہے جسم کے ان حصوں پر ہی کیوں نہ موجود ہوں جو لباس سے ڈھکے رہتے ہیں تو بھی نا قابل قبول ہیں۔ البتہ ہاتھ، منہ یا گردن جیسے ظاہری حصے پر کسی بھی قسم کا ٹیٹو ناقابل قبول ہوتا ہے
متعلقہ ادارے کی ٹیٹو پالیسی بنانے والوں نے بڑے تدبر و تفکر اور ماہرین نفسیات سے راہنمائی لے کر ایسی پالیسیاں بنائی ہیں جو انسانی رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی ایسے بھی امیدوار کو اپنی فوج، پولیس یا محکمے میں نہیں بھرتی کرنا چاہتے جو ممکنہ طور پر مستقبل میں ان کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ریکروٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں جاب کے دوران مجھے ایسی ہزاروں درخواستوں کو ایک ایک کر کے دیکھنا پڑا۔
اور ان ہزاروں درخواستوں میں سے سینکڑوں درخواستیں صرف ان وجوہات کی بنا پر مسترد کرنی پڑیں کہ ان میں سے کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے جوانی کے جوش میں ایسے ٹیٹو بنوائے ہوئے تھے جو مندرجہ بالا کیٹگریز میں آ جاتے تھے۔ میں جب ان امیدواروں کا سی وی، ان کی ذہنی قابلیت، ان کا تعلیمی ریکارڈ دیکھتا تو مجھے ان کی درخواست صرف ٹیٹو پالیسی کی بنا پر مسترد ہوتے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا کہ ایک اتنا اچھا امیدوار صرف جسم پر موجود ایک نقش کی وجہ سے اتنی اچھی نوکری سے محروم رہ گیا۔
ایک دن ایک رپورٹ تیار کرتے ہوئے میں ان لوگوں کی ہزاروں درخواستوں کا ڈیٹا دیکھ رہا تھا جن کی درخواستیں ٹیٹو کی وجہ سے مسترد ہوئی تھیں تو میں نے نوٹ کیا کہ اس میں ایک بھی درخواست کسی مسلمان امیدوار کی نہیں تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے جسم پر ٹیٹو ہوتے ہی نہیں۔ کیوں نہیں ہوتے؟ کیونکہ وہ اس چشمہِ علم و حکمت ﷺکی بات پر عمل کرتے ہیں جو آج سے کئی صدیاں پہلے جزیرہ عرب کے نخلستانوں میں ربیع الاول کے مسعود ساعتوں میں پیدا ہوئے۔
جن کے پیدائش سے پہلے ان محکموں کا وجود بھی نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو ان میں بھرتی ہونے کی شرائط نہیں بنی تھیں ریکروٹمنٹ پالیسیاں مرتب نہیں ہوئی تھیں۔ پالیسی سازوں کی کمیٹیاں نہیں بیٹھی تھیں۔ صاحب علم و فراست نے سائیکالوجی اور نفسیات کی وہ پرتیں نہیں کھولی تھیں جن میں بتایا جاتا کہ جسم پر گدوائے گئے نقش و نگار فرد کے رجحانات کی عکاسی کر سکتے ہیں اور رجحانات عمل میں بدل جائیں تو بھرتی کیے جانے والا ملازم انسانوں کے لئے باعث آزار بن سکتا ہے۔
ابھی ایسے نشانات کی تصاویر اور ڈیزائنوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا مرحلہ نہیں آیا تھا، ابھی ایک ایک ڈیزائین اور ایک ایک نقش پر بحث کرنی والی کمیٹیاں بھی تشکیل نہیں پائی تھیں۔ کہ اس نبی رحمت ﷺنے انسانوں کو بس ایک چھوٹا سا اصول دے دیا کہ اپنے جسم پر کوئی نقش نہ گدواؤ۔ بے شک یہ حکم کسی ادارے کی ٹیٹو پالیسی سے متعلق نہیں تھا لیکن نبی آخر الزماں ﷺ کی نگاہِ بصیرت یہ جان گئی تھی کہ کچھ ایسے بھی ہوں گے، جن کے ٹیٹو ان کے جسم کو اذیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ دوسری جانب ان کی اچھی سرکاری نوکری کی خواہش پر بھی گہری ضرب لگائیں گے۔
اس نگاہ عنایت پہ لاکھوں سلام۔۔
بشکریہ: ہم سب۔