لاہور: امیر والدین کا لاڈلہ بیٹا، جو ان ہی کا قاتل بن گیا!

ویب ڈیسک

لاہور – یہ رمضان کے مہینے کی ایک معمول کی صبح تھی جب زیادہ تر لوگ سحری اور فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جاتے ہیں۔ صبح کے تقریباً 7:30 بجے کا وقت تھا، جب لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں ایک سبزی فروش سبزی منڈی جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سبزی فروش نے بتایا ”جب میں اپنی دکان سے سبزی منڈی کے لیے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ پندرہ سالہ ہمایوں اپنے بہن بھائیوں سمیت اپنے اکلوتے ماموں کے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے گاڑی میں بٹھا رہا تھا“

ہمایوں نے بچوں کو اسکول چھوڑا اور واپس آکر اپنے نانا کے کمرے میں ہی کچھ دیر کے لیے سو گیا

ہمایوں کی والدہ پینتیس برس کی راحیلہ اپنی بھابھی کے ساتھ چند گھروں کے فاصلے پر واقع اپنی نانی کے گھر سے دودھ لینے گئی ہوئی تھیں کہ اچانک بندوق کی گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ راحیلہ کے بھائی نے کچھ ہی دیر میں اپنی بہن سمیت چار لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا

غم سے نڈھال اس خاندان کے زندہ بچ جانے والے فرد محمد حسین نے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”راحیلہ گولیوں کی آواز سن کر گھر کی طرف دوڑیں اور ابھی مرکزی دروازے پر ہی پہنچی تھیں کہ ان کا آمنا سامنا ان کے اکلوتے بھائی عابد حسین سے ہوا، جس کے ہاتھ میں بندوق تھی“

محمد حسین کے مطابق ملزم عابد حسین نے اپنے گھر میں سوئے ہوئے اپنے والد غلام حسین، والدہ آسیہ بی بی اور بھانجے ہمایوں کو قتل کر دیا

یہ ایک تین منزلہ مکان تھا جس کے گراؤنڈ فلور پر یہ تمام قتل کیے گئے تھے۔ اس کے بعد جب عابد حسین باہر دروازے پر پہنچا تو اس کا سامنا اپنی بہن راحیلہ سے ہوا۔ عابد حسین کی اپنی بہن سے اس موقع پر تلخ کلامی ہوئی، جس کے نتیجے میں اس نے اپنی بیوہ بہن کو بھی دروازے کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا

جبکہ ملزم عابد حسین کی اہلیہ فائرنگ کی آواز سن کر چھپ گئیں اور جان بچانے میں کامیاب رہیں

دوسری طرف سبزی فروش نے بتایا کہ جب وہ ساڑھے نو بجے کے قریب دکان پر واپس آئے تو علاقے میں ہر طرف پولیس ہی پولیس دیکھ کر وہ حیران رہ گئے

انہوں نے کہا ”جب یہ واقعہ ہوا تو اس وقت دکان پر میرا بھائی بیٹھا ہوا تھا اور انھوں نے ملزم عابد حسین کے گھر سے گولیوں کے چلنے کی آوازیں سنی تھیں لیکن کسی نے بھی ہمت نہیں کی کہ آگے بڑھ کر گھر کے اندر دیکھا جائے کہ ہوا کیا ہے“

محمد حسین کے مطابق ‘ملزم عابد حسین اپنے قریبی چار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اپنی کار میں بیٹھا اور چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اپنے سسرال کے گاؤں باگڑیاں چلا گیا۔‘

ملزم عابد حسین نے وہاں سسرال کے گھر میں گھس کر اپنے سسر اسلم، ساس رانی بی بی اور ان کی بہن شگفتہ بی بی پر گولیاں چلائیں۔ فائرنگ کے نتیجے میں شگفتہ بی بی دم توڑ گئیں جبکہ ملزم کے سُسر اسلم اور ساس رانی بی بی کو لاہور کی جناح ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کے سسر کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے

ملزم عابد نے چند لمحوں میں پانچ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جبکہ دو کو شدید زخمی کر یا

ایس ایچ او گرین ٹاؤن بتاتے ہیں ”ہمیں صبح نو بجے کے قریب اس واقعے کی اطلاع 15 پر دی گئی تھی اور ڈولفن ٹیم فوری طور پر موقع پر پہنچی تھی“

ایس ایچ او کے مطابق ابھی ان کی ٹیم گرین ٹاؤن میں واقع شیراز ٹاؤن جائے وقوعہ پہنچی ہی تھی کہ ملزم اپنی کار میں سسرال کی طرف سے واپس اپنے گھر کی طرف آیا، جسے وہیں حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس نے ملزم سے بندوق اور واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا

ملزم عابد حسین کے خلاف قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت دو الگ الگ کیسز تھانہ گرین ٹاؤن میں درج کر لیے گئے ہیں

گرفتار ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یہ تمام قتل اس لیے کیے تھے، کیونکہ یہ سب لوگ اس کے بچوں کو بلاوجہ ڈانٹتے تھے

پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملزم عابد حسین آئس کے نشے کا عادی تھا

ملزم عابد حسین کے ماموں ذوالفقار علی نے بھی بتایا کہ اس کا اکلوتا بھانجا پچھلے دس بارہ سال سے آئس کے نشے کی لت میں مبتلا ہے۔ ذوالفقار علی کے مطابق ملزم عابد حسین چونکہ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، اس لیے سب اسے بہت لاڈ پیار کرتے تھے

انہوں نے بتایا ”عابد نے اگر اپنے والد کو کہا کہ ابا نشہ ختم ہو گیا ہے یا کچھ کھانا ہے تو وہ اسے پچاس، پچاس ہزار روپے تک ایک وقت میں دے دیتے تھے کہ جاؤ بیٹا کھاؤ پیو“

ذوالفقار علی کے مطابق ملزم عابد حسین کے والد غلام حسین محکمہ سوئی گیس میں ملازم تھے اور ساتھ میں پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتے تھے اور کروڑوں روپے کی اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے، اس لیے اپنے اکلوتے بیٹے سے بہت پیار کرتے تھے

ذوالفقار علی نے مزید بتایا ”جب ملزم عابد حسین کی نشے کی وجہ سے طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو اسے ٹھوکر نیاز بیگ کے ایک نجی کلینک کے علاوہ شہر کے چند ایک اور اچھے کلینکس میں علاج معالجے کے لیے لے جایا جاتا تھا۔ عابد کم از کم بھی کوئی سو مرتبہ تو اس طرح کی ہسپتالوں میں داخل رہا ہوگا۔ کئی مرتبہ دماغی ہسپتال کے عملے کو گھر بھی بلانا پڑتا تھا کہ آ کر اسے لے جائیں، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں“

ذوالفقار علی کے مطابق باپ بیٹے میں اتنا پیار تھا کہ عابد حسین چند دن ہسپتال میں رہنے کے بعد فون کرتا کہ ابا جی اب وہ ٹھیک ہے اور گھر واپس آنا چاہتا ہے اور اسے واپس آنے کی اجازت مل جاتی تھی

ذوالفقار علی کے مطابق ملزم عابد اس واردات سے محض چند روز قبل ہی ہسپتال سے یہ کہہ کر واپس آیا تھا کہ اب وہ ٹھیک ہے

مقتول غلام حسین کے بھائی محمد حسین نے بتایا کہ ملزم عابد حسین کی تین شادیاں کی گئیں تھیں، جس میں سے ایک ہنجروال، دوسری پانڈوکی اور یہ تیسری شادی باگڑیاں میں کی گئی تھی. پہلی دونوں بیویاں اس کے رویے کی وجہ سے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھیں

محمد حسین کے مطابق ملزم عابد حسین کی تیسری شادی سے ہی اس کے تین بیٹے تھے اور اس وقت اسکول میں ہونے کی وجہ سے وہ تمام کے تمام محفوظ رہے

محمد حسین کے مطابق ‘ان کے بھائی نے ایک پستول اور ایک گن گھر پہ رکھی تھی، جن کا لائسنس بھی تھا کیونکہ دشمنی بھی تھی اس لیے اپنی حفاظت کے لیے سب رکھا ہوا تھا۔‘

پولیس ایک ہی خاندان میں بیک وقت اتنے قتل کے محرکات جاننے کے لیے تفتیش کو مختلف پہلوؤں سے آگے بڑھا رہی ہے

ملزم عابد حسین کے بہنوئی مظہر حسین کہتے ہیں کہ انھیں شک ہے کہ ملزم پب جی گیم کھیلتا تھا اور جس انداز سے اس نے یہ واردات انجام دی ہے اس کے پیچھے یہی خطرناک گیم ہو سکتی ہے، جو اب تک کئی لوگوں کی جان لے چکی ہے

مظہر حسین کے مطابق اس کے علاوہ ملزم کے پاس اتنی تعداد میں خاندان کے لوگوں کو قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا

مظہر حسین کے مطابق پولیس یقیناً اس پہلو کو بھی دیکھے گی کہ آخر ملزم کس بات کو لے کر اتنے زیادہ قتل کرنے کی طرف مائل ہوا کیونکہ کوئی معاشی مسئلہ بھی نہیں لگتا کیونکہ کروڑوں روپے کی جائیداد وغیرہ کا مالک تو ملزم خود ہی تھا

تاہم ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان کا کہنا ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے ملزم عابد حسین کے پب جی گیم کی وجہ سے یہ تمام قتل کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے

شہزادہ سلطان کے مطابق پب جی گیم ٹین ایجرز کی گیم ہے اس لیے نہیں لگتا کہ ملزم عابد حسین یہ تمام قتل پب جی گیم کی وجہ سے کیے ہیں، لیکن پھر بھی ہم اس پہلو کو دیکھ رہے ہیں

ڈی آئی جی کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ وہ آئس کے نشے کا عادی تھا اور واردات کے دن بھی اس نے کافی مقدار میں آئس کا نشہ کیا ہوا تھا، جس کے بعد اس نے اپنے گھر سے اپنے والد کی بندوق لی اور سب لوگوں کو قتل کر دیا جس پر وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے

شہزادہ سلطان نے مزید بتایا کہ دوران تفتیش ملزم عابد حسین نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا ہے کہ انھیں ایک ‘بزرگ’ نے بتایا تھا کہ تیسرے بچے کی پیدائش کے دوران اس کے جڑواں بچے پیدا ہوئے تھے، لیکن اسے آج تک اس کے دوسرے بچے کے متعلق نہیں بتایا گیا، اس لیے اس نے اس شبہ میں ان سب کو قتل کر دیا ہے کہ انھوں نے مل کر اس کا دوسرا بچہ مار دیا تھا

شہزادہ سلطان کے مطابق پولیس ملزم کے اس دعوے کی تصدیق کے لیے مذکورہ ‘بزرگ’ کو بھی تلاش کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی بیوی سے بات بھی کرے گی

ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور نے بتایا کہ ملزم بے شک نشے کا عادی تھا، لیکن اس نے اپنی بیوی یا بچوں کو قتل نہیں کیا

انھوں نے مزید بتایا ”تمام امکانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تفتیش ہو رہی ہے اور اب تک کی تفتیش میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم عابد حسین نے آئس کے نشے سے متاثر ہو کر اور پیسوں کے مطالبے کی وجہ سے ہونے والی چپقلش کے نتیجے میں ہی یہ تمام قتل کیے ہیں.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close