بلوچی ’سواس‘ ، اسپین میں دریافت ہونے والے ’چھ ہزار سال پرانے‘ گھاس سے بنے جوتے اور جوتے پہننے کی تاریخ

ویب ڈیسک

مغربی ملک اسپین کے جنوب میں سائنسدانوں نے ایسے جوتے دریافت کیے ہیں، جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ یورپ کی جوتوں کی سب سے قدیم جوڑی ہے۔ انہیں یہ جوتے غاروں کے ایک ایسے سلسلے سے ملے، جہاں چمگادڑوں کا بسیرا تھا

اندلس میں کیوا ڈی لوس مرسیلاگوس یا چمگادڑوں کے غار میں گھاس سے بنے جوتوں کی دریافت نے محققین کو حیران کر دیا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ یہ جوتے تقریباً چھ ہزار سال پرانے ہو سکتے ہیں

جب کان کنوں نے انیسویں صدی میں غار میں کھدائی شروع کی تو انہوں نے ایک گیلری دریافت کی، جس میں جزوی طور پر حنوط شدہ لاشیں، جنگلی سور کے دانت اور سونے کا ایک منفرد تاج موجود تھا۔ اسپین کے سائنسدانوں نے اب باقی ماندہ چھہتر نوادرات کا تجزیہ کیا ہے

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین کے جنوبی شہر غرناطہ کے قریب موجود غار سے انیسویں صدی میں دریافت ہونے والی ٹوکریاں، آلات اور جوتے تعین کردہ دور سے زیادہ پرانے ہیں

ان 76 اشیاء کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ ان اشیاء میں ٹوکریاں اور مخصوص قسم کی گھاس سے بنائے گئے بائیس جوتے بھی شامل ہیں

قدیم انسان گھاس کو بُن کر ٹوکریاں، بستے اور جوتے بناتے تھے۔ اشیاء بنانے سے قبل گھاس کو بیس سے تیس دن تک سکھایا جاتا تھا، جس کے بعد چوبیس گھنٹے تک دوبارہ گیلا کیا جاتا تھا

تحقیق کی شریک مصنف ماریا ہیریرو اوتل کا کہنا ہے ”یہ اشیا جنوبی یورپ میں پودوں کے ریشوں پر مشتمل مادوں کا سب سے قدیم اور بہترین انداز میں محفوظ شدہ کا مجموعہ ہیں۔ ان سے مختلف قسم کی ٹیکنالوجی اور خام مال کو کام میں لانے کے طریقوں سے قدیم برادریوں کی مہارت پر روشنی پڑتی ہے“

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پتھر کے دور کے آخری حصے سے تعلق رکھنے والے جوتے جزیرہ نما آئبیریا (سپین اور پرتگال) اور یورپ دونوں میں قدیم ترین ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ ماقبل تاریخی دور میں مختلف قسم کے جوتے استعمال کیے جاتے تھے

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ غاروں میں کم نمی کی وجہ سے جوتے اچھی حالت میں محفوظ رہے

مذکورہ غار تک پہلی بار 1831ع میں آس پاس کی زمینوں کے مالک نے رسائی حاصل کی تھی اور کھاد کے لیے ان کے مرکزی حصے میں بڑی مقدار میں چمگادڑوں کی بیٹ سے بنی کھاد جمع کی

اس پناہ گاہ کو بکریاں پالنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں 1857ع میں کان کنی کی ایک کمپنی نے یہاں خام سیسہ دریافت کیا اور کان کنی شروع کی

دریافت اور اس کے بعد ہونے والی لوٹ مار کے دس سال بعد آثار قدیمہ کے ماہر مینوئل ڈی گونگورا وائی مارتنیز نے غار کا دورہ کیا اور نوادرات کے بارے میں کان کنوں کی شہادتیں جمع کیں۔ انہوں نے آثارِ قدیمہ کی باقیات کو اکٹھا کیا اور ان کے بارے میں تفصیلات شائع کیں

قدامت کے تعین کے لیے استعمال ہونے والی تکنیک میں تیزی سے ہونے والی ترقی کی بدولت پتہ چلا کہ یہ نوادرات اس سے دو ہزار سال قدیم ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا

یاد رہے کہ اسی طرح کے جوتے آرمینیا میں بھی پائے گئے تھے، جو اندازاً ساڑھے پانچ ہزار سال پرانے ہیں جبکہ اوٹزی دی آئس مین (1991 میں اٹلی سے دریافت ہونے والا قبل از تاریخ آدمی) کے جوتے پانچ ہزار تین سو سال پرانے ہیں

اس حوالے سے مارٹینیز سیویلا کا ایک نیوز ریلیز میں کہنا تھا کہ ٹوکری بنانے کے عمل کا معیار اور تکنیکی پیچیدگی سائنسدانوں کے ذہن میں جنوبی یورپ میں زراعت آنے سے قبل انسانی معاشروں کے متعلق سوال اٹھاتی ہے

دریافت ہونے والے جوتوں میں تسمے نہیں ہیں لیکن کچھ کے درمیان میں ایک بُنی ہوئی لٹ جڑی ہوئی تھی، جس کو جوتے پہننے والے ٹخنوں پر باندھ سکتے تھے

گھاس سے بنی بلوچی چپل سواس

اسپین سے دریافت ہونے والے گھاس سے بنے جوتے، بلوچی ’سواس‘ سے کافی مشابہت رکھتے ہیں، جو ’مرزی‘ (پِیش) سے بنائے جاتے ہیں

’’مزری‘‘ یا پِیش بلوچستان کے پہاڑی علاقوں اور پہاڑی ڈھلوانی و میدانی علاقوں میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ مزری سے بنی دستکاریاں بلوچستان کی قدیم ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔ پِیش کی شکل کھجور کے پتوں کی مانند ہوتی ہے۔ ’مزری‘ یا پیش کو سائنسی زبان میں (Nonnorrhopsritchieana) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا خودرو پودا ہوتا ہے جو رحمت باران سے پہاڑوں میں اگتا ہے

جب بلوچ قوم نے سونے اور بیٹھنے کے لیے بستر اور قالین کی ضرورت محسوس کی تو پیش سے چٹائی بناکر اُسے بچھانا شروع کر دیا۔ جب اُس نے رہنے کے لیے گھر کی ضرورت محسوس کی تو لکڑیوں کے ساتھ چٹائی باندھ کر اور اُس کی چھت پر پیش ڈال کر اپنا گھر تعمیر کر لیا۔ جب بلوچ قوم نے اپنے پیروں کی حفاظت کے لیے پہناوے کی ضرورت محسوس کی تو پیش سے چپل بنا کر پہننا شروع کر دیی۔ یہ چپل انتہائی دیدہ زیب ہے مگر یہ بلوچی چپل بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں اور ان کی مدت انتہائی قلیل ہوتی ہے

بلوچستان، جسے ثقافتوں کا امین بھی کہا جاتا ہے، تو اس مزری کا استعمال ثقافتی طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ ’’مزری‘‘ سے نت نئی چیزیں بناتے ہیں، جن میں چٹائی، جھاڑو، ہاتھ کے پنکھے، جائے نماز، ٹوپیاں، ٹوکریاں (سپت)، رسی وغیرہ شامل ہیں۔ بلوچی چپل ’سواس‘ اسی پودے سے وجود پاتی ہے جبکہ بلوچستان کے وہ دہقان جو محنت کش طبقہ ہے ’سواس‘ کو شوق سے استعمال کرتا ہے، کیونکہ یہ نرم اور نازک ہوتے ہیں۔ سواس چپل پہاڑی علاقوں میں بہت پہنی جاتی ہے، جہاں یہ چپل مہینے میں ایک سے دو بار ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی مدت انتہائی کم ہوتی ہیں اس لیے اکثر علاقوں میں اس چپل کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ آج بھی مستعمل ہے

انسانوں نے جوتے پہننا کب شروع کئے؟

جوتے اور چپلیں زمانۂ قدیم سے ہمارے پیروں کے بہترین محافظ ہیں، جو ابتدائی شکل میں محض گھاس پھونس یا زیادہ سے زیادہ خام چمڑے کی تھلیاں تھے

انسانی ارتقا کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیروں کی حفاظت کی اہمیت کا ادراک بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ قوی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ چمڑے کے ذریعے پیر کے تلوے محفوظ رکھنے کی ترکیب ہمارے ابتدائی آباھ و اجداد کی سب سے پہلی دریافتوں میں سے ایک ہے۔

یقیناً وہ ضرورت ایجاد کی ماں کے مترادف نوک دار چٹانوں، جلتی ریت اور خار دار جھاڑیوں سے اپنے پیروں کے بچاؤں کا طریقہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوئے ہوں گے

اپنی ابتدائی شکل میں جوتے محض گھاس پھونس کی گتھی ہوئی شکل یا خام چمڑے کا ٹکڑا تھے، جنہیں بیل یا چرمی فیتے سے پیر پر باندھ لیا جاتا تھا۔ مصری تہذیب کی قدیم دریافتوں میں پیپیرس کے پتوں سے تیار کیا گیا چپلوں کا جوڑا بھی شامل ہے، جسے نہایت خوب صورتی اور فن کارانہ مہارت سے کی گتھائی کر کے بنایا گیا

تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ چپل سازی اس ملک کی ابتدائی تاریخ میں ایک مقبولِ عام فن کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ فرعون طوطنخ آمن کی لگ بھگ 1325 قبل مسیح کی دریافت شدہ چپلیں دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں

یونانی ڈیزائن اور دلکشی پر زور دیتے تھے، جبکہ رومیوں نے ایک حربی طرز کی چپل تیار کی تھی، جو انہیں دنیا بھر میں پیدل پیش قدمی کے قابل بنا سکے۔ رومی سلطنت کے زیادہ پُرتعیش دور میں چپلوں کو سونے کے زیورات اور قیمتی جواہر سے سجایا جاتا تھا

قدیم مصر میں پیپیرس کے علاوہ کھجور کے پتوں سے بھی چپلیں بنائی جاتی تھیں، جبکہ افریقہ کے مسائی قبائل میں خام چمڑے، ہندوستان میں لکڑی، چین اور جاپان میں چاول کی پچھالی استعمال کی جاتی تھی

جنوبی امریکہ کے باسی سیسل کے پیڑ کے پتوں سے بٹی ڈوریوں سے چپل تیار کرتے تھے، جب کہ میکسیکو کے مقامی باشندے ’یوکا‘ کے پیڑ کا استعمال کرتے تھے

جاپان میں زمانۂ قدیم سے مختلف طبقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے الگ الگ طرح کی مخصوص چپلوں کا رواج ہے اور پہننے والی چپل اس کے سماجی مرتبے کی عکاس ہوتی ہے اور ان پر پہلی نظر پڑتے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پہننے والا شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا تاجر، یا پھر وہ معلم اور فن کار وغیرہ ہے۔

انسانوں کی چمڑے سے باقاعدہ جوتے بنانے اور استعمال کرنے کی تاریخ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ 2008ء میں آرمینیا کے غاروں سے گائے کے خام چمڑے کے جوتوں کا ایک جوڑا انتہائی عمدہ حالت میں ملا تھا

جوتوں کے اس جوڑے کا سائز لگ بھگ خواتین کے جوتوں کے امریکی سائز نمبر 7 کے مساوی ہے اور اصل شکل میں رکھنے کے لیے ان میںگھانس پھونس ٹھونسی گئی ہے

اسے چمڑے کے ایک سالم ٹکڑے سے تیار کیا گیا۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے، جو موجودہ دور میں "Whole Cut” کہلاتی ہے اور اس تکنیک کے ذریعے تیار شدہ جوتے انتہائی منہگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔

اس سے قبل چمڑے کے جوتوں کا ایک اور قدیم جوڑا بھی دریافت کیا گیا تھا جسے ’برفانی آدمی اوٹزی‘ کے جوتے کہا جاتا ہے، 3300 قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے ان جوتوں کا تلوا بھورے ریچھ کی کھال اور اوپری حصہ ہرن کی کھال سے بنایا گیا تھا، جبکہ فیتے درخت کی چھال سے بنائے گئے تھے۔

تاہم اندازہ لگایا گیا ہے کہ جوتوں کا استعمال اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ جدید دور کے محققین کے مطابق انسانی پیر کے انگوٹھے کے مقابلے میں باقی انگلیوں کے چھوٹے ہونے کا قدرتی عمل لگ بھگ 26000 تا 40000 سال پہلے شروع ہوا، جسے ماہرین چمڑے کے تنگ خول نما جوتوں کے استعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں

قدیم زمانے کے جوتوں کی ساخت بہت سادہ ہوا کرتی تھی، بلکہ اگر انہیں جوتوں کے بجائے چمڑے کی تھیلیاں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کا اصل مقصد پیروں کو نوکیلے پتھروں، کانٹوں، ہڈیوں اور شدید موسمی اثرات سے بچانا تھا

شمالی امریکہ کے قدیم باشندے بھی اسی طرز کے جوتے پہنا کرتے تھے، جنہیں ’موکیشن‘ کہا جاتا ہے۔ تنگ فٹنگ اور نرم تلے والے یہ جوتے عموماً جنگلی بھینسے کی کھال سے تیار کیے جاتے تھے۔ بہت سے موکیشن جوتے موتیوں اور دیگر آرائشی اشیا سے بھی سجائے جاتے تھے۔ تاہم یہ جوتے صرف سردیوں کے موسم میں پہنے جاتے تھے۔ برسات اور گرمیوں کے موسم میں باشندے ننگے پیر رہنا پسند کرتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close