”تم جانتے ہو؟“ سندھو نے مجھ سے پوچھا اور حسب عادت میرا جواب سنے بغیر ہی وہ بتانے لگا؛ ”نواب صاحب نے اس جہاز کو حکومت کے حوالے کیا تو اس کا کنٹرول محکمہ شاہرات حکومت پنجاب کو ملا۔ یہ خراب ہوا تو اس کے پرزے بھی لوگ چوری کرنے لگے۔ ہمیں تو بس موقع ملنا چاہیے۔ وہ تمہارا دوست ہے نا قاسم منظور۔ اس کے والد محترم چوہدری منظور صاحب نے حکومت پنجاب کے حکم پر تھوڑے سے بجٹ میں اس جہاز کو مرمت کر کے اصل حالت میں بحال کیا تھا۔ اس کا پروپیلر بھی چلنے لگا تھا۔“
میں نے قاسم سے اس بات کی تصدیق کی تھی جو درست نکلی۔ چوہدری منظور صاحب اپنے محکمے کے نہایت ایماندار اور قابل رشک افسر تھے۔ ان دنوں میں وہ بطور ایس ڈی او ڈیرہ غازی خان تعینات تھا۔ (محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سے بطور سیکرٹری ریٹائر ہوئے تھے۔ قاسم نے مجھے بتایا تھا؛ ”بچپن میں میں کئی بار اس جہاز پر اس نے سندھو کی سیر بھی کی تھی)۔“ یہ جہاز 1996ء تک لوگوں کو سندھو کی سیر کرواتا رہا ہے پھر اس میں آگ لگی اور جہاں جلا تھا، وہیں ریت میں دھنسا سب کا منہ چڑا رہا ہے۔ اس کا ڈھانچہ اپنی بربادی کی کہانی دکھی انداز میں بیان کر رہا ہے۔
ہم کشتی سے اترے اور درختوں کے جھنڈ سے لمبی واک کرتے باہر نکلے ہیں۔ پانی کی دنیا سے خشکی کی دنیا پر۔۔ اطراف میں حدِ نظر گندم اور سرسوں کے کھیت ہیں۔ کچے گھروندے، ٹوٹی جھونپٹریاں، چرتے مویشی اور ان کے گلے سے لٹکے ٹل کی آواز سنائی دے رہی ہے۔راستے میں شکاریوں کے بنائے گئے گڑھے (جن کو مقامی زبان میں ’اودیاں‘ کہتے ہیں) سادہ زبان میں ہرن کو شکار کرنے کے مورچے۔ کہیں جلی گھاس کیمپنگ کے نشان چھوڑ گئی ہے۔ کبھی سندھ کے بیلے ہرنوں سے بھرے تھے، آج قسمت سے ہی کوئی ہرن نظر آتا ہے۔ اب یہ بیلے سوروں (وائلڈ بور) یا ڈاکوؤں کی آ ماجگاہ ہیں۔
ہم سیدھے خواجہ فرید ؒ کی درگاہ پر چلے آئے ہیں جہاں ہر وقت زائرین کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ ان میں دریائی علاقوں کے بسنے والے بھی ہیں، صحرائی بھی اور کوہستانی بھی۔ خواجہ فرید ؒ سے ان صحرائی لوگوں کی بہت گہری نسبت ہے کہ انہوں نے ان کے بیچ روہی میں دو دہائیاں گزاریں۔ وہ ان کی جھوکوں، اُن کے ٹوبھوں، اُن کے ٹیلوں، اُن کی ڈاہروں، اُن کے دکھوں، اُن کے سکھوں اور اُن کی جفاکشی، اُن کہ مہمان نوازی سے واقف اور اُن کے راز دان ہیں۔ سندھو کی بھی اُن سے خاص نسبت ہے کہ اس کے ایک کنارے پہ وہ پیدا ہوئے اور اسی کے دوسرے کنارے آسودۂ خاک ہیں۔ اپنی زندگی میں وہ کئی بار سندھو کے پانیوں سے گزرے ہوں گے۔ اپنے کسی گیت کے کسی شعر میں انہوں نے سندھو کا تذکر ہ بھی کیا ہوگا۔ پھر سندھو نے پٹھانے خاں کی آواز کو وہ وردان دیا کہ اس کا طوطی اس ملک میں سر چڑھ کر بولا۔ پٹھانے خاں نے خواجہ فرید کی کافی ’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، میڈا دین وی توں میڈا روح وی توں‘ گا کر خواجہ فرید ؒ کو اور خود کو بھی امر کر دیا ہے۔ صحرا کے چرند پرند، کوے، فاختائیں، مور، ہرن، پیلو، لانے، پھوگ، رسم و رواج، اُن کے غم اور خوشیوں کو انہوں نے اپنی شاعری سے زندہ جاوید کر دیا ہے۔
یہ رات خواجہ فرید ؒ کی عشق، محبت، بھائی چارے کی دھرتی میں گزار کر صبح اگلی منزل ’کشمور‘ رواں ہوں گے۔ کشتی میں سفر کی آخری منزل۔
شام بیت گئی ہے۔ رات اترنے کو ہے۔ دریائی لوگوں کے کھانے کا وقت ہے۔ کھانا تیار فرشی دستر خوان پرچن دیا گیا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو پھر سے موسیقی کی محفل سج چکی ہے۔ آج کی محفل میں ایک مقامی لوک فنکار بھی مدعو ہے، سائیں اللہ بخش۔ عمر پینتیس چالیس برس، سانولا رنگ، چھوٹی کالی رنگی ہوئی داڑھی، گہری آنکھیں، درمیانہ قد۔ وہ خواجہ فریدؒ کی کافیاں اور لوک گیت بڑے دل اور سوز سے گاتا سماں کھینچ دیتا ہے۔ جمعرات کا دن ہے اور مزار پر عقیدت مندوں کی بھیڑ ہے۔ شام کے وقت بھیڑ کچھ کم ہوئی ہے لیکن مغرب کی نماز کے بعد محفل سماع سجنے کو ہے۔ کچھ دیر اس سے لطف اٹھا کر دوست سونے کے لئے چلے آئے ہیں۔
خواجہ فریدؒ کا سرائیکی کلام ہو یا سچل سرمستؒ کا سندھی دوہڑہ، سسی پنوں کا لوک گیت ہو یا شاہ عبداللطیفؒ کی کافی۔ یہ ملاح بڑے شوق، جوش اور من سے گاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر دریائی آلاتِ موسیقی کمال سماں باندھتے ہیں۔ اس دریائی موسیقی کا لطف دریا کے کنارے ہی ہے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ محفل ختم ہوئی تو چاند اپنا کافی سفر طے کر چکا ہے۔ ستاروں کی محفل ابھی جاری ہے۔ وہ چندا ماموں کو گھیرے اسے لوریاں سنارہے ہیں۔ سبھی سونے کو جا چکے ہیں۔ دن بھر کی تھکاوٹ نے انہیں جلد ہی نیند کی دنیا میں اتار دیا ہے۔
چاندنی رات میں سندھو پرسکون ہے۔ ایسا کم کم ہی ہوتا ہے کہ قدرت نے چاندنی راتوں میں پانی میں مدو جزر رکھ دیا ہے۔ چاندنی پانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں لہروں کو منچلا بنا دیتی ہیں۔ دوسری جانب اللہ نے رات انسان کے آرام کے لئے بنائی ہے۔ تاروں سے بھرے آسمان پر بادل کا ایک شرارتی ٹکرا آسمان کہ کہکشاں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں لگا ہے۔ مدھم ہوا خنک ہے۔ قریب جلتے الاؤ نے خنکی کا اثر کم کر رکھا ہے اور پھر آگ کسی جانور کو بھی قریب نہیں آنے دیتی کہ تمام جانور آگ سے گھبراتے ہیں۔ مجھے لگا سندھو کے پانی میں ہلچل سی ہے۔ ہم ڈر کے ذرا پیچھے ہٹے۔ ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو ڈولفن کا ایک جوڑا شرارتیں کر رہا ہے۔ اکٹھے پانی سے ابھرتے ہیں اور ساتھ ہی پانی میں غوطہ لگاتے ہیں اور ان کے قہقہے خاموشی کو توڑتے ہیں۔ خوشی بھی عجیب چیز ہے ہر طرف قہقہوں کی کہکشاں بکھیر جاتی ہے۔ میرے نظر نین پر پڑی وہ ڈولفن کے جوڑے کی شرارتوں سے محظوظ ہو رہی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔