جب پنکج اداس نے ’چٹھی آئی ہے‘ نہ گانے کی ٹھان لی۔۔

سفیان خان

پنکج اداس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بڑے بھائی منوہر کو کیسے فون پر سمجھائیں۔ منوہر کا کہنا تھا کہ پنکج کی وجہ سے انہیں اداکار راجندر کمار سے کیا کچھ سننے کو نہیں ملا۔

راجندر کمار نے یہاں تک طعنہ دیا کہ گلوکار پنکج کو تہذیب اور تمیز چھو کر نہیں گزری اور ان کا رویہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ اور غیر اخلاقی ہے۔

منوہر یہ سب بول رہے تھے جبکہ ادھر پنکج اداس کے ذہن میں راجندر کمار سے ہونے والی گفتگو کے الفاظ گونج رہے تھے۔ انہیں یاد تھا کہ راجندر کمار کا انہیں فون آیا تھا اورجنہوں نے بتایا تھا کہ وہ اور ان کا بیٹا کمارگور ایک فلم ’نام‘ پروڈیوس کر رہے ہیں۔

’نام‘ میں سنجے دت اور کمار گور و کے ساتھ امرتا سنگھ، پاریش راویل اور نوتن بھی تھے۔ فلم کے ہدایتکار مہیش بھٹ تھے۔ کہانی سیلم خان کی لکھی ہوئی تھی جنہوں نے سلیم جاوید کی جوڑی سے الگ ہو کر اب اپنی صلاحیتوں کا امتحان اسی فلم سے لیا تھا۔

راجندر کمار کے مطابق آنند بخشی نے ایک گیت ’چٹھی آئی ہے‘ لکھا ہے اور سبھی کا خیال ہے کہ یہ گیت فلم کا ہیرو نہیں بلکہ سکرین پر بھی وہی گائے جس نے گلوکاری کی ہے اور یہ ایک بڑے سے ہال میں عکس بند کیا جائے گا۔ اسی لیے راجند ر کمار نے پنکج اداس کو خوشخبری سنائی کہ وہ ان کی فلم میں کام کرنے والے ہیں۔

پنکج اداس کے لیے یہ بالی وڈ میں پیش کش غیرمتوقع تھی اور ان کے کیریئر کی ابھی شروعات ہوئی تھی۔ پنکج اداس کا خیال تھا کہ وہ بطور اداکار نہیں بلکہ گلوکار زیادہ اپنے لیے سہولت محسوس کرتے ہیں کیونکہ گلوکاری ان کا جنون تھا۔

اس کی ایک وجہ بڑے بھائی منوہراداس بھی بنے تھے۔ راجندر کمار کی اس پیش کش کے جواب میں جان چھڑانے کی غرض سے پنکج اداس نے یہی کہا کہ وہ تھوڑی دیرمیں ’کال بیک‘ کرتے ہیں۔ پنکج نے جان بوجھ کر یہ کام نہیں کیا۔ اب انہیں کیا معلوم تھا کہ راجندر کمار کی بڑے بھائی سے گہری دوستی تھی اور کئی دنوں تک ’کال بیک‘ نہ کرنے پر انہوں نے اٹھا کر منوہرکو فون کیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

منوہر اداس نے جب پیشہ ورانہ رویے پر لیکچر دے دیا تو آخر کار پنکج اداس سے رہا نہ گیا اور انہوں نے بتا دیا کہ انہوں نے کیوں راجندر کمار کو جواب نہیں دیا۔ اس پر منوہر کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس فلم کے لیے گانا اور اداکاری نہیں کرنا چاہتے تو اصولی اوراخلاقی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ وہ پھر بھی راجندر کمار کو فون کر کے یہ وجہ ان کے گوش گزار ضرور کریں۔

بڑے بھائی کے حکم پر تمام تر ہمت جمع کر کے پنکج اداس نے راجندر کمار کو کال ملائی۔ پنکج اداس کا کہنا تھا کہ وہ معذرت خواہ ہیں بروقت جواب نہ دے سکے۔ ساتھ ہی وہ بولے کہ وہ اس فلم اور گانے کے لیے دستیاب نہیں۔

اس سے پہلے راجندر کمار وجہ دریافت کرتے، پنکج اداس نے کہنا شروع کیا کہ دراصل ان کا خواب ہے کہ وہ بطور گلوکار اپنے آپ کو تسلیم کرائیں اور راجندر کمار ان سے اداکاری کرانے جا رہے ہیں، اسی لیے وہ فلم ’نام‘ کا حصہ بننے سے قاصر ہیں۔

راجندر کمار نے تسلی کے ساتھ پنکج اداس کی بات سنی اور پھر ان کا سوال تھا کہ ’تم سے کس نے کہا کہ ہم اداکاری کرائیں گے؟‘

راجندر کمار کے مطابق فلم میں ایک ایسی صورت حال ہے کہ ہیرو سنجے دت بھارت سے باہر رہتے ہیں اورپھرایک روز کسی کنسرٹ میں جاتے ہیں جہاں ایک گلوکار نغمہ سرائی کر رہا ہے اور اس گیت کا محور بے وطنوں پر ہے کہ کیسے وہ اپنوں سے دور دولت کے حصول کے لیے وطن چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کی یادیں قریبی رشتے داروں کو بے چین کرتی رہتی ہیں۔

ایسے میں وطن سے آئی چٹھی میں گھرانہ اپنے رنج، دوری اور کرب کا اظہار کرتا ہے اور بول ایسے ہوتے ہیں کہ ہیرو سنجے دت ہی نہیں کنسرٹ میں موجود ہر شخص آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

راجندر کمار کا کہنا تھا کہ وہ پنکج اداس سے اداکاری نہیں کرائیں گے بلکہ انہیں بطور گلوکار ہی پیش کریں گے اور وہی اس گیت کو گائیں گے۔ راجندر کمار کے اس انکشاف کے بعد پنکج اداس کی غلط فہمی دور ہوئی اور انہوں نے اسی وقت اس گیت گانے کے لیے ہامی بھر لی۔

گیت کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تھے، جنہوں نے پنکج اداس کو مطلوبہ دن سٹوڈیو میں آنے کا سندیسہ دیا۔

اب ہوا کچھ یہ کہ جس روز گیت کی ریہرسل اور ریکارڈنگ تھی۔ پنکج اداس مختلف شہروں میں کنسرٹ کر کے واپس بمبئی لوٹے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ سے چور چور تھے لیکن پھر بھی شام میں سٹوڈیو پہنچے۔ نغمہ نگار آنند بخشی، ہدایت کار مہیش بھٹ اور راجندر کمار بھی موجود تھے۔ گانے کی دو تین دفعہ ریہرسل ہوئی اور پھر فیصلہ ہوا کہ اب ریکارڈنگ کی جانی ہے۔

پنکج اداس ’سنگر بوتھ‘ میں پہنچے اور پھر گلوکاری کا آغاز کیا۔ سٹوڈیوکے دوسری جانب لکشمی کانت پیار ے لال گیت ریکارڈ کرانے میں مگن تھے لیکن دوسری ٹیک کے بعد لکشمی کانت اٹھے اور اشارے سے پنکج اداس کو روکا اور پھر انہیں دوسرے کمرے تک لے کر گئے۔

لکشمی کانت نے پان کی پیک اگلدان میں منتقل کرتے ہوئے پنکج اداس سے کہا، ’پنکج جی، اس گانے کا جو موڈ ہے، جذبات اور احساسات ہیں، وہ آ پ صحیح ڈھنگ سے نبھا رہے ہیں لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے۔ آپ سُر میں بلاشبہ گا رہے ہیں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کچھ کمی ہورہی ہے۔ ‘

پنکج اداس نے کہا، ’میں تو دل کی گہرائیوں سے گا رہا ہوں، سمجھ نہیں آ رہا کہاں کوئی خامی رہ رہی ہے۔‘

موسیقار لکشمی کانت نے تھوڑے توقف سے کہا کہ ’آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن چلیں یہ بتائیں کہ آپ کنسرٹ میں کس طرح گلوکاری کرتے ہیں؟‘

پنکج اداس نے کہا، ’کنسرٹ میں تو میں ہارمونیم کے ساتھ فرشی نشست کے تحت گلوکاری کرتا ہوں۔‘

لکشمی کانت اس جواب کے بعد چونکے اور پھر گویا ہوئے کہ ’دو منٹ دیں میں کچھ سوچتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلے گئے۔

کوئی پندرہ بیس منٹ بعد پنکج اداس کو بلایا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ سٹوڈیو کا بڑا سا ہال اب ریکارڈنگ روم بن چکا تھا۔ ایک بڑی میز یا تخت درمیان میں تھا جہاں ہارمونیم رکھا تھا اور پھر پنکج اداس کو حکم ملا کہ وہ ہارمونیم کے ساتھ بیٹھ کر گلوکاری کا آغاز کریں۔

پنکج اداس کو اپنی مطلب کا ماحول مل چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں پنکج اداس نے ریہرسل کے دوران ایک مکھڑا اور انترا گایا جس کے بعد مکسنگ روم سے لکشمی کانت کی آواز آئی کہ اب فائنل ٹیک کرنے جا رہے ہیں۔

پنکج اداس نے کم و بیش سوا سات منٹ کے دورانیے کے اس گیت کو بغیر کسی ری ٹیک کے ریکارڈ کرانا شروع کیا۔ جب گیت ختم ہوا تو انہیں لگا کہ موسیقار ضرور کہیں گے کہ وہ ایک ٹیک اور کر لیں لیکن ان پر خوشگوارحیرت عیاں ہوئی جب موسیقار لکشمی کانت اپنے مکسنگ روم سے نکل کر آئے اور فخریہ انداز میں کہا، ’پنکج جی آپ نے کمال کر دیا!‘

صرف لکشمی کانت ہی نہیں وہاں موجود ہر شخص کے جذبات اور احساسات ایسے ہی تھے۔ پنکج اداس کو جب ریکارڈ شدہ گیت ’چھٹی آئی ہے‘ سنایا گیا تو ان کے دل میں یہی خیال آیا کہ یقینی طور پر یہ گانے سپر ہٹ ہو گا۔ ریکارڈنگ کے کچھ دنوں بعد پنکج اداس کو اس کی عکس بندی کے لیے بھی بلایا گیا جب تک پنکج اداس میں بلا کا اعتماد آ گیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے بڑی آسانی کے ساتھ اس گیت کو عکس بند بھی کرا دیا۔

فلم ’نام‘ کے ایڈیٹر ڈیوڈ دھوان تھے جو بعد میں خود ہدایت کار بنے۔ انہوں نے ہی پنکج اداس کو بتایا کہ جب وہ اس گیت کی ایڈٹنگ راجندر کمار کے گھر میں بنے سٹوڈیو میں کر رہے تھے تو خصوصی طور پر راج کمار کو دعوت دی گئی جنہوں نے اس گیت کو سننے اور دیکھنے کے بعد یہی کہا کہ پنکج اداس نے اس گیت کو امر کر دیا۔

فلم ’نام‘ کی نمائش سے پہلے اس کے گیت ریلیز کیے گئے تو ’چٹھی آئی ہے‘ کو غیر معمولی شہرت ملی۔ یہ وہ دور تھا جب دیارغیر میں رہنے والے افراد کے لیے اپنوں سے رابطے کی سب سے بڑی راحت چھٹی یا خط ہی ہوتا تھا۔

دورحاضر کی طرح اس وقت جدید ترین سہولیات تو نہیں تھیں۔ اسی لیے خط میں اپنوں کی ہی نہیں آس پاس کے احباب اور رشتے داروں کی بھی خبرمل جاتی۔ ’چٹھی آئی‘ میں مختلف کیفیات کچھ ایسی بیان کی گئیں کہ ہر بے وطن کو یہ اپنے دل اور حالات کی ترجمانی محسوس ہوا۔ گیت کی مقبولیت میں یہی بنیادی جز تھا جس نے اسے بے وطنوں کو ترانہ بنا دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’نام‘ کے دیگر گانوں جیسے’ اور اس دل میں کیا رکھا ہے‘ اور ’ تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں‘ بھی کامیابی کے ہر پائیدان میں نمایاں رہے لیکن پنکج اداس کے دکھ اور درد بھری آواز نے جیسے ’چٹھی آئی ہے‘ کو بے مثال کردیا جس کا سحر آج تک قائم ہے۔

12ستمبر 1986کو جب ’نام‘ سینیما گھروں کی زینت بنی تو اس نے کاروبار بھی بہترین کیا۔ وہ گیت جسے پنکج اداس گانا نہیں چاہتے تھے، اسی نے ان کے کیریئر کی نئی راہیں متعین کر دیں۔

آج بھی پنکج اداس کا ذکر اس گیت کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close