کسی کا اچانک غائب ہو جانا، یک دم کسی پریس کلب یا ٹی وی چینل پر نمودار ہو جانا، کمرہِ عدالت سے ضمانتی کاغذ لہراتے ہوئے باہر نکلتے ہی بنا نمبر پلیٹ کی کسی گاڑی میں ڈنڈہ ڈولی ہو کے اڑن چھو ہو جانا۔
ان میں سے کچھ بھی ہرگز ہرگز اب کوئی غیر معمولی واقعہ یا چیختی چلاتی خبر نہیں رہے۔ ہم سب نے انھیں روزمرہ زندگی کا لازمی سمجھ کے قبول کر لیا ہے۔ پہلے ایسی خبروں سے ڈر لگتا تھا، اب نہیں لگتا۔
جس طرح پانی ایک خاص درجہِ حرارت پر بھاپ بن جاتا ہے، اسی طرح ڈر ایک خاص مرحلے پر لطیفہ اور پھبتی بن جاتا ہے۔ ٹریجڈی کامیڈی میں ڈھل جاتی ہے۔ پہلے ہم لوگ ادھر ادھر کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے اپنے ہی دونوں کندھوں کی جانب تین انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے زیرِ لب کہتے تھے ’فلاں بندے کو فرشتے لے گئے، منکر نکیر لے گئے۔‘
اب ہم اندر کا خوف دبانا سیکھ گئے ہیں۔ بہت آسانی سے مسکراتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ فلانے کو ورکشاپ پہنچا دیا گیا ہے، زیرو میٹر بنا دیا گیا، شمالی علاقہ جات کی سیر کروا دی گئی ہے، سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گیا ہے۔
نو مئی سے پہلے تک کسی لاہوری یا اسلام آبادی یا لائل پوری سے کہا جاتا کہ دیکھو بلوچستان اور خیبر پختونخوا اور سندھ میں کیا ہو رہا ہے تو یا تو وہ یہ جملہ ہی نہ سنتا، سنتا تو بھی تو اکتائے ہوئے تاثرات کے ساتھ اور پھر اکثر یہ کہہ کے بات بدل دیتا کہ ’یار انھوں نے ایسا کچھ کیا ہوگا، تبھی تو ایجنسیاں ان کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں، ورنہ ایسے کون کسی کو غائب کرتا ہے۔‘
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عمران ریاض، عثمان ڈار، صداقت علی عباسی وغیرہ بھی یہی سمجھتے تھے۔ اور اب نونی کہہ رہے ہیں کہ ’یار انھوں نے ایسا کچھ ضرور کیا ہوگا ورنہ ایسے کون کسی کو غائب کرتا ہے۔‘
ولی خان مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ باقی تین صوبوں کے حالات تب ہی سدھریں گے، جب ایک دن پنجاب بھی انہی حالات سے گذرے گا۔
جب قومی اداروں کے خلاف پی ٹی آئی کے ’بے بنیاد پروپیگنڈے‘ کا جواب دینے کے لیے گذشتہ برس ہمارے حساس ترین ادارے کے سربراہ نے پہلی اور غالباً آخری پریس کانفرنس کی تو ان کے نرم لب و لہجے اور شعری ذوق سے دل کو بہت تسلی ہوئی۔
جب نو مئی کے بعد بڑے بڑے شہروں میں اچانک نمودار ہونے والے پینا فلیکس بینرز میں جنرل صاحب کی تصویر کے نیچے ’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘ لکھا دیکھا تو عسکری قیادت کی اقبال شناسی سے دل کو مزید اطمینان ہوا۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا،
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔۔
آج جس طرح پاکستان میں مندرجہ بالا شعر کی عملی تفہیم پکڑ پکڑ کے سمجھائی جا رہی ہے، اس کا تصور تو شاید اقبال کے پوتے ولید اقبال کو بھی نہیں تھا۔
اب سے چند برس پہلے تک ہمیں اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹر کا بنیادی فرق سمجھاتے ہوئے یہ پٹی پڑھائی جاتی تھی کہ نان اسٹیٹ ایکٹر کے برعکس ریاست اگر تشدد کا استعمال بھی کرتی ہے تو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتی ہے۔
نان اسٹیٹ ایکٹر کی کاروائیاں آئین و قانون کے تابع نہیں ہوتیں۔ نان اسٹیٹ ایکٹر کا آئین و قانون سے ماورا کوئی بھی ایکشن ریاست کے خلاف بغاوت ہے اور اس کی درستی و سرکوبی کے لیے عدالت کا ادارہ ایجاد کیا گیا ہے۔ عدالت کے ہر فیصلے اور حکم کا احترام اور عمل درآمد ریاست کے ہر ادارے پر لازم ہے جبکہ نان سٹیٹ ایکٹر ایسی کسی بھی پابندی سے آزاد ہے۔
نان اسٹیٹ ایکٹر کا ہتھیار اٹھانا ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جبکہ ریاستی ادارے کا ہتھیار اٹھانا قانونی اور جائز ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹر قتل کر سکتا ہے، ریاست قتل نہیں کر سکتی سزائے موت دے سکتی ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹر اغوا کر سکتا ہے، ریاست اغوا نہیں کر سکتی گرفتار کر سکتی ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹر کسی بھی طرح کا تشدد کر سکتا ہے، ریاست بے لگام تشدد نہیں کر سکتی۔
اور جب یہ نوبت آ جائے کہ اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹر کے افعال میں فرق مٹتا چلا جائے تو پھر ریاست اور گینگسٹر میں تمیز بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ یہ مرض نائن الیون کے بعد سے پوری شدت کے ساتھ نمودار ہوا اور آج اس کی لپیٹ میں ہر ادارہ اور ہر بااختیار ہے۔ طاقت قانون کے تابع نہیں رہی اور آئین طاقت کے تلوے تلے سسکیاں لے رہا ہے۔
ایسے ماحول میں ریاست سے وفاداری اور حب الوطنی کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟ ریاست کے دشمن اور دوست میں تمیز کیسے ممکن ہے؟ انصاف اور ناانصافی کی تعریف کیا ہوگی؟ احتساب اور انتقام کو الگ الگ کر کے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ قانون اور لاقانونیت کی سرحد کہاں ملتی اور کہاں الگ ہوتی ہے؟
ایسی ریاست کی ذہنی کیفیت کو کیا کہیے، جہاں قومی دھارے میں شامل جماعتوں کو انتہاپسندی کی جانب دھکیلا جا رہا ہو اور انتہاپسند گروہوں کو قومی دھارے میں لانے کی سرتوڑ کوشش ہو رہی ہو۔
کیا تم سے پہلے والوں نے ایسا نہیں کیا؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ایسا کرنے کے نتائج کیا کیا نکلے؟ کیا اس بار کوئی مختلف نتیجہ نکلنے کی امید ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم بس وہی سن رہے ہو جو سننا چاہتے ہو، وہی دیکھ رہے ہو جو دیکھنا چاہتے ہو، وہی سمجھ رہے ہو جو سمجھنا چاہتے ہو۔
ایسی کیفیت کو آسان انگریزی میں ٹنل ویژن کہتے ہیں اور ٹنل بھی اگر لامتناہی ہو تو پھر کیا کہنے۔۔۔
اک آدمی کی رہائی سے بھی تو ہو جاتا،
جو شہر بھر کی گرفتاریوں کے بعد ہوا۔۔
(جمال احسانی)
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)