کل خوبصورت تھا (برطانوی ادب سے منتخب افسانہ)

رول ڈہل (مترجم: افشاں نور)

اس نے جھک کر اپنے ٹخنے کو مسلا، جہاں چلتے ہوئے اسے موچ آگئی تھی تاکہ وہ اپنے ٹخنے کی ہڈی کو نہ دیکھ سکے۔ پھر اس نے سیدھے کھڑے ہو کر اپنے اردگرد دیکھا۔ اپنی جیب میں سگریٹ کی ڈبی کو ٹٹول کر اس نے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سلگا لیا۔ اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے گلی کے بیچوں بیچ کھڑا ہو گیا۔

”لعنت ہے، یہاں کسی نہ کسی کو تو ضرور ہونا چاہیے۔“ اس نے با آواز بلند کہا اور اپنی آواز سن کر بہتر محسوس کیا۔ وہ لنگڑاتے ہوئے اپنے زخمی پاؤں کی انگلیوں پر چلتا گیا اور جب وہ اگلے کونے سے مڑا تو اس نے سمندر اور راستہ دیکھا۔ سڑک، مڑ کر تباہ حال گھروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہاڑی سے نیچے پانی کے کنارے تک چلی گئی تھی۔ سمندر پرسکون اور سیاہ تھا۔ وہ ایک فاصلے سے خشکی پر واضح طور پر پہاڑیوں کی ایک قطار دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ یہ تقریباً آٹھ میل کی دوری پر تھی۔ وہ اپنے ٹخنے کو مسلنے کے لیے دوبارہ جھکا۔ ’لعنت ہو‘ اس نے کہا، ’ان میں سے کچھ ضرور ابھی زندہ ہوں گے‘ لیکن وہاں کوئی شور نہ تھا۔ وہ عمارتیں اور وہ پورا گاؤں یوں ساکت لگ رہے تھے، جیسے ہزار سال سے مردہ پڑے ہوں۔ اچانک اسے ایک مدھم سا شور سنائی دیا جیسے کسی نے سنگ ریزوں پر اپنے پیروں کو حرکت دی ہو۔ جیسے ہی اس نے اردگرد دیکھا، اسے وہ بوڑھا دکھائی دیا۔ وہ پانی کی ایک نالی کے قریب سائے میں ایک پتھر پر بیٹھا تھا اور یہ بڑی عجیب بات تھی کہ اس نے پہلے اسے نہیں دیکھا تھا۔

پائلٹ نے کہا، ”سلامتی ہو“ اور یونانی زبان میں اسے ’ہیلو‘ کہا۔ اس نے لیریسا اور ینینا کے لوگوں سے یونانی زبان سیکھ رکھی تھی۔

بوڑھے نے کندھوں کو حرکت دیے بغیر اپنا سر گھما کر آہستگی سے اوپر دیکھا۔ اس کی داڑھی سرمئی مائل سفید تھی۔ اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور اس نے بنا کالر کی قمیض پہن رکھی تھی۔ اس کی قمیض سرمئی رنگ کی تھی، جس پر سیاہ رنگ کی باریک دھاریاں تھیں۔ اس نے پائلٹ کو دیکھا، وہ اندھا لگتا تھا جو کسی چیز کو دیکھتا ضرور تھا مگر اسے وہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔

”بڑے میاں! آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ کیا گاؤں میں اور لوگ نہیں ہیں؟“

کوئی جواب نہ ملا۔ پائلٹ اپنے ٹخنے کو آرام دینے کے لیے نالے کے کنارے بیٹھ گیا، ”میں ایک انگلستانی ہوں“ اس نے بتایا، ”میں ایک پائلٹ ہوں۔ مجھ پر گولی چلائی گئی اور میں نے پیراشوٹ سے چھلانگ لگائی۔ میں انگلستانی ہوں۔“

بوڑھے نے آہستہ سے اپنا سر اوپر نیچے ہلایا اور کہنے لگا، ”انگلستانی، تم انگلستانی ہو“

”ہاں۔ میں کسی ایسے کی تلاش میں ہوں جس کے پاس کشتی ہو۔ میں اپنی سرزمین میں واپس جانا چاہتا ہوں“

ایک وقفے کے بعد جب بوڑھا دوبارہ بولا تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ نیند میں بول رہا ہو، ”وہ ہر وقت یہاں آتے رہتے ہیں“ اس نے کہا، ”جرمن یہاں آتے رہتے ہیں“ وہ آواز بے تاثر تھی۔ اس نے اوپر آسمان کو دیکھا۔ پھر وہ مڑا اور اپنے پیچھے آسمان کو دیکھا۔ ”وہ آج پھر آئیں گے انگلستانی، وہ جلد ہی دوبارہ آئیں گے۔“ اس کی آواز میں کوئی بے چینی نہ تھی۔ کسی قسم کا تاثر نہ تھا۔ ”مجھے سمجھ نہیں آتا وہ یہاں کیوں آتے ہیں“ اس نے مزید کہا.

پائلٹ نے کہا ”شاید آج نہیں۔ اب دیر ہوچکی ہیں میرا خیال ہے آج کے لئے وہ ختم کر چکے ہے۔ میرا خیال ہے وہ آج کے لیے ختم کر چکے ہیں۔“

”انگلستانی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ ہمارے پاس کیوں آتے ہیں۔ یہاں کوئی نہیں ہے۔“

”مجھے کسی کشتی والے کی تلاش ہے جو مجھے اُس بار خشکی پر لے جائے۔ کیا اس وقت گاؤں میں کوئی کشتی کا مالک ہے؟“ پائلٹ نے کہا

”کشتی۔۔ ؟ ہاں۔۔۔“ سوال پر غور کرنے کے دوران ایک وقفہ رہا، ”ایک ایسا آدمی ہے“

”کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟ وہ کہاں رہتا ہے؟“

”گاؤں میں ایک آدمی ہے جس کے پاس ایک کشتی ہے۔“

”برائے مہربانی مجھے اس کا نام بتائیں.“

بوڑھے نے دوبارہ آسمان کی طرف دیکھا، ”یہاں ’جانس‘ ہی ہے، جس کے پاس کشتی ہے۔“

”جانس کون؟“

”جانس سپیراکیز“ اور وہ مسکرایا۔ لگتا تھا وہ نام بوڑھے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ مسکرا رہا تھا تھا۔

”وہ کہاں رہتا ہے؟“ پائلٹ نے کہا، ”اس تکلیف کے لئے معذرت۔۔۔ وہ کہاں رہتا ہے؟“

”ہاں“ بوڑھے نے سوچا۔ پھر وہ مڑا اور سمندر کی جانب گلی کی طرف دیکھا۔ ”جانس پانی کے قریب ترین گھر میں رہتا تھا۔ لیکن اس کا گھر اب نہیں رہا۔ آج صبح جرمنوں نے اسے نشانہ بنایا۔ یہ تڑکے کا وقت تھا اور اندھیرا ابھی باقی تھا۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ گھر باقی نہیں رہا۔ یہ اب نہیں ہے۔“

”اب وہ کہاں ہے؟“

”وہ انٹونیا اینجلو کے گھر رہ رہا ہے۔ وہ گھر جس کی کھڑکی سرخ رنگ کی ہے۔“ اس نے گلی کی طرف اشارہ کیا۔

”بہت شکریہ۔۔ میں جاکر کشتی کے مالک سے بات کرتا ہوں“

”نوجوانی سے ہی جانس کے پاس ایک کشتی تھی۔ اس کی کشتی سفید رنگ کی ہے جس کے اوپری حصے کے گرد ایک نیلی لکیر ہے“ بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھی اور دوبارہ مسکرایا، ”لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ اس وقت گھر پر ہوگا۔ اس کی بیوی وہاں ہوگی۔ اینا وہاں ہوگی انٹونیا اینجلو کے ساتھ۔۔ وہ گھر پہ ہوں گی۔“

”ایک بار پھر شکریہ۔ میں جا کر اس کی بیوی سے بات کروں گا“ پائلٹ کھڑا ہوا اور گلی کی جانب بڑھنے لگا

مگر اچانک اس آدمی نے پیچھے سے اسے آواز دی، ”انگلستانی!“ پائلٹ مڑا "جب تم جانس کی بیوی سے بات کرو۔ جب تم اینا سے بات کرو، ایک بات یاد رکھنا۔۔“ وہ رکا گویا لفظ تلاش کر رہا ہو۔ اب کے اس کی آواز بے تاثر نہیں تھی اور وہ پائلٹ کی طرف دیکھ رہا تھا، ”اس کی بیٹی گھر پہ تھی جب جرمن آئے۔ یہی بات تم یاد رکھنا۔“ پائلٹ سڑک پر منتظر کھڑا رہا۔
”ماریہ۔ اس کا نام ماریہ تھا“

”میں یاد رکھوں گا“ پائلٹ نے جواب دیا ”مجھے افسوس ہے“ وہ مڑا اور پہاڑی کے نیچے سرخ کھڑکی والے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے دستک دی اور انتظار کیا۔ پھر اس نے دوبارہ زیادہ زور سے دستک دی اور انتظار کیا۔ قدموں کی چاپ سنائی دی اور دروازہ کھل گیا۔ گھر میں تاریکی تھی۔ وہ صرف یہی دیکھ سکا کہ اس عورت کے بال سیاہ تھے اور اس کے بالوں کی طرح اس کی آنکھیں بھی سیاہ تھیں۔ اس نے پائلٹ کو دیکھا جو باہر دھوپ میں کھڑا تھا۔

”سلامتی ہو“ اس نے کہا، ”میں انگلستانی ہوں“ وہ بے حس و حرکت رہی۔ ”میں جانس سپیراکیز کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ سنا ہے اس کے پاس ایک کشتی ہے۔“ عورت نے اس بار بھی حرکت نہ کی۔ ”کیا وہ گھر پر ہے؟“

”نہیں“

”غالباً اس کی بیوی یہاں ہے ہوسکتا ہے اسے پتہ ہو وہ کہاں ہے۔“

پہلے تو اسے کوئی جواب نہ ملا پھر وہ عورت پلٹی اور دروازہ کھلا چھوڑ دیا، ”اندر آجاؤ انگلستانی“ اس نے کہا۔

وہ اس کے پیچھے راہداری میں چلتا ہوا ایک پچھلے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ تاریک تھا کیونکہ کھڑکی میں کوئی شیشہ نہیں تھا۔ وہاں صرف گتے کے ٹکڑے تھے۔ لیکن وہ اس بوڑھی عورت کو دیکھ سکتا تھا جو میز پر کہنیاں ٹکائے ایک بینچ پر بیٹھی تھی۔ وہ پستہ تھی۔ وہ کسی بچے کی طرح چھوٹی تھی۔ اس کا چہرہ کسی خاکی کاغذ کی پیچیدہ گیند کی طرح تھا۔

”یہ کون ہے؟“ اس نے بلند آواز میں پوچھا۔

”یہ ایک انگلستانی ہے“ پہلی عورت نے بتایا، ”اسے تمہارے شوہر کی تلاش ہے کیونکہ اسے ایک کشتی چاہیے“

”سلامتی ہو انگلستانی“ بوڑھی خاتون نے کہا۔ پائلٹ دروازے کے ساتھ ہی کمرے کے اندر کھڑا تھا۔ پہلی عورت کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی اور اس کے بازو اس کے پہلو میں گرے ہوئے تھے۔ بوڑھی خاتون نے کہا ”جرمن کہاں ہیں؟“ اس کی آواز اس کے جسم سے بڑی لگ رہی تھی۔

”وہ لامیا کے اردگرد ہیں۔“

”لامیا“ اس نے سر ہلایا۔ ”جلد ہی وہ یہاں ہوں گے۔ شاید کل وہ یہاں ہوں۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں۔ تم نے سنا انگلستانی؟ مجھے کوئی پروا نہیں“ وہ اپنی کرسی پر تھوڑا آگے کی طرف جھک رہی تھی اور اس کی آواز بلند ہورہی تھی۔ ”ان کا آنا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ پہلے بھی یہاں آتے رہتے ہیں۔ وہ ہر روز یہاں آتے ہیں۔ وہ ہر روز یہاں آتے ہیں اور بمباری کرتے ہیں۔ پلک جھپک کر دوبارہ کھولو اور اٹھ کر باہر جاؤ تو گھر دھول ہوچکے ہوتے ہیں اور لوگ۔۔۔۔۔۔“ اس کی آواز میں اتار چڑھاؤ تھا۔ وہ تیزی سے سانس لیتے ہوئے رکی پھر وہ مزید آرام سے بولی ”انگلستانی! تم نے کتنوں کو مارا ہے؟“

پائلٹ نے ایک ہاتھ باہر نکالا اور اپنے ٹخنے کو آرام دینے کے لئے دروازے کی طرف جھکا۔
”میں نے کچھ کو مارا ہے“ اس نے آہستگی سے کہا۔

”کتنے؟“

”ہم آدمیوں کو گن نہیں سکتے“

”ان سب کو مار دو“ خاتون نے نرمی سے کہا۔ ”جاؤ اور جا کر ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچے کو مار دو۔ کیا تم میری بات سن رہے ہو انگلستانی؟ تمہیں ان سب کو مار دینا چاہیے۔“ خاکی کاغذ کی وہ چھوٹی سی گیند مزید چھوٹی اور جھریوں زدہ ہوگئی۔ ”میں نے جس پہلے کو دیکھا، اسے مار دوں گی۔۔ اور پھر۔۔۔ اور پھر اس کے گھر والے سنیں گے کہ وہ مر چکا ہے۔“ پائلٹ کچھ نہ بولا۔ خاتون نے اس کی طرف دیکھا۔ اب اس کی آواز مختلف تھی۔ ”تم کیا چاہتے ہو؟“

”جرمنوں کے لیے مجھے بہت افسوس ہے۔ لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔“

”نہیں۔ کچھ نہیں کر سکتے۔“ اس نے جواب دیا۔ ”اور تم؟“

”میں جانس کی تلاش میں ہوں۔ میں اس کی کشتی استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ “

”جانس۔۔۔“ اس نے تحمل سے کہا۔ ”وہ یہاں نہیں ہے۔ وہ باہر ہے۔“ اچانک اس نے بینچ پیچھے دھکیلا، اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔ ”آؤ“ اس نے کہا۔

وہ اس کے پیچھے راہداری سے ہوتے ہوئے داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔ خاتون کھڑی ہو کر بیٹھے ہونے کی نسبت چھوٹی لگ رہی تھی۔ وہ تیزی سے راہداری سے ہوتے ہوئے دروازے تک پہنچی اور اسے کھولا۔ وہ باہر دھوپ میں نکلی اور پہلی مرتبہ اس نے دیکھا کہ وہ کس قدر بوڑھی تھی۔ اس کے ہونٹ نہیں تھے۔ اس کا منہ اس کے باقی چہرے کی طرح محض جھریوں زدہ جلد تھی۔ اس نے دھوپ میں آنکھیں سکیڑیں اور سڑک کی طرف دیکھا۔ ”وہ وہاں ہے“ اس نے کہا۔ ”وہ، وہی ہے“ اس نے اس بوڑھے کی طرف اشارہ کیا، جو پینے والے پانی کے نالے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ پائلٹ نے اس آدمی کو دیکھا۔ پھر وہ اس بڑھیا سے کچھ کہنے کو مڑا لیکن وہ گھر کے اندر غائب ہو چکی تھی۔

Original Title: Yesterday was beautiful
Written by:
Roald Dahl

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close