مستقبل میں پاکستان سمیت برصغیر میں شدید گرمی سے کروڑوں افراد کی ہلاکت کا خطرہ!

ویب ڈیسک

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اس صدی میں پاکستان، انڈیا اور دنیا کے چند بڑے شہروں کے اندر دو ارب سے زائد افراد کو ناقابل برداشت حد تک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا

جریدے پی این اے ایس (PNAS) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نئی دہلی اور شنگھائی سے لے کر لاگوس اور شکاگو تک دنیا کے کچھ بڑے شہروں کو سب سے زیادہ سنگین اثرات کا سامنا ہوگا

موسمیاتی ماہرین نے نئی تحقیق میں پیشنگوئی کی ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک ماحولیاتی تبدیلی گلوبل وارمنگ کا باعث بن سکتی ہے، جو کہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کچھ سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں لوگوں کو دل کا دورہ پڑنے اور لُو کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہے

امریکہ کی پین یونیورسٹی کے پین اسٹیٹ کالج آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ اور پرڈیو انسٹیٹیوٹ فار سسٹین ایبل فیوچر نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر کرہ ارض کی گرمی، ماقبل صنعتی سطح، کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس زیادہ ہوجاتی ہے تو یہ انسانی صحت کے لیے ہلاکت خیز ہوگی

تحقیق کے مطابق جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا امریکہ کے مڈ ویسٹ جیسے خطوں میں اربوں افراد کو طویل دورانیے کی ہیٹ ویو میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی

جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے لیے صورت حال خصوصی طور پر سنگین ہو جائے گی، جو حالیہ برسوں میں موسمیاتی بحران کی وجہ سے پہلے ہی شدید گرمی کا سامنا کر رہے ہیں

اور اگر عالمی درجہ حرارت میں موجودہ سطح سے دو ڈگری سیلسیس یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے تو گرمی اتنی شدید ہو سکتی ہے کہ ایسے علاقے قدرتی طور پر خود کو ٹھنڈا نہیں کر سکیں گے

پرڈو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف میتھیو ہوبر کے مطابق: ”یہ بہت پریشان کن ہے۔ اس سے بہت سارے لوگوں کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت پڑے گی“

تحقیق کے نتیجے میں پتہ چلا کہ اگر درجہ حرارت صنعتی سطح سے دو ڈگری سیلسیس اوپر جاتا ہے تو تقریباً 75 کروڑ افراد کو ہر سال ایک ہفتے کے لیے مہلک مرطوب گرمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

عالمی درجہ حرارت، ماقبل صنعتی سطح سے، 2 ڈگری سیلسیس بڑھنے پر پاکستان اور بھارت اور وادیِ سندھ کے 2.2 ارب باشندے، مشرقی چین کے ایک ارب لوگ اور سب صحارا افریقہ کے 800 ملین افراد کو گھنٹوں تک سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو انسانی قوت برداشت سے باہر ہوگا

جو شہر اس سالانہ گرمی کا شکار ہوں گے ان میں دہلی، کولکتہ، ملتان، نان جنگ اور ووہان شامل ہیں

چونکہ یہ علاقے کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک پرمشتمل ہیں اس لیے لوگوں کے پاس ایئر کنڈیشنز یا اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے دیگر موثر طریقوں تک رسائی بہت مشکل ہوگی

تین ڈگری سیلسیس بڑھنے پر ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کو اس طرح کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا

یعنی اگر کرہ ارض کی گلوبل وارمنگ ماقبل صنعتی سطح سے 3 ڈگری سیلسئس سے اوپر جاتی ہے تو گرمی کی بڑھتی ہوئی سطح، فلوریڈا سے نیویارک تک اور ہیوسٹن سے شکاگو تک، مشرقی سمندری حدود اور امریکہ کے وسطی علاقوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ تحقیقات میں پایا گیا کہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کو بھی شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا

لیکن ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کم نقصان اٹھائیں گے۔ ترقی پذیر ملکوں میں سن رسیدہ اور بیمار افراد کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوگی

اقوام متحدہ کی 2022 کی ایمیشن گیپ رپورٹ کے مطابق موجودہ پالیسیوں کے تحت دنیا 2100 تک درجہ حرارت میں 2.8 سیلسیس اضافہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اگرچہ تقریباً 200 ممالک کی جانب سے دستخط کیے گئے تاریخی پیرس معاہدے میں درجہ حرارت کو 1.5 سیلسیس تک محدود کرنے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا تھا

اگرچہ پاکستان، انڈیا اور خلیجی ممالک حالیہ برسوں میں مرطوب گرمی کی خطرناک سطح کو چھو چکے ہیں، لیکن مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر زمین گرم ہوتی رہی تو دنیا کے دیگر بڑے شہر بھی متاثر ہوں گے

جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی بڑھتے ہوئے خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ویسیلیو نے کہا، ”یہ ان جگہوں پر ہو رہا ہے، جن کے بارے میں ہم نے پہلے نہیں سوچا تھا“

چار سیلسیس درجہ حرارت پر یمن کے شہر الحدیدہ میں ہر سال تقریباً 300 دن ممکنہ طور پر ناقابلِ برداشت مرطوب گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا

اس طرح کی نمی والی گرمی کو ٹریک کرنے کے لیے، سائنس دان ایک پیمائش کا استعمال کرتے ہیں، جسے ’ویٹ بلب‘ (Wet Bulb) ٹمپریچر کہتے ہیں۔ یہ تھرمامیٹر کو پانی سے بھیگے ہوئے کپڑے سے ڈھانپ کر لیا جاتا ہے

کپڑے سے پانی کے بخارات نکلنے کا عمل اس بات کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ انسانی جسم کس طرح پسینے سے ٹھنڈا ہوتا ہے

واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق انسانی جسم گرمی اور رطوبت کی ایک خاص سطح کو ہی برداشت کرسکتا ہے، جس کے بعد صحت کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً لو لگنا اور دل کا دورہ پڑنا

پیر کو شائع ہونے والا مطالعہ ڈاکٹر ہوبر، جارج میسن یونیورسٹی کے آب و ہوا کے ماہر ڈینیئل ویسیلیو اور دیگر سائنس دانوں کی ماضی کی تحقیق پر مبنی ہے، جس میں وہ نقطہ جاننے کی کوشش کی گئی، جہاں گرمی اور نمی مل کر انسانی جسم کی حدِ برداشت کو سائے یا ایئر کنڈیشننگ جیسی ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر بڑھاتے ہیں

اس سے قبل 2010 میں کی گئی ایک تحقیق میں ڈاکٹر ہوبر نے تجویز دی تھی کہ چھ یا اس سے زیادہ گھنٹوں تک ویٹ بلب کا درجہ حرارت 35 سیلسیس برقرار رہنا انسانی جسم کے لیے محتاط حد ہو سکتی ہے

اس کے بعد، اگر لوگوں کو خود کو ٹھنڈا رکھنے کا کوئی راستہ نہ مل سکا تو خدشہ ہے کہ وہ ہیٹ اسٹریس کا شکار ہو جائیں گے

ایک دہائی بعد، ڈاکٹر ویسیلیو کی سربراہی میں امریکی سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ڈاکٹر ہوبر کے نظریے کو آزمایا اور نوجوان، صحت مند بالغوں کو زیادہ ویٹ بلب درجہ حرارت والے ماحولیاتی چیمبروں میں رکھا

انہیں معلوم ہوا کہ یہ حد کم یعنی 30 اور 31 سیلسیس کے درمیان تھی

ڈاکٹر ہوبر اور ڈاکٹر ویسیلیو نے اس تحقیق میں مل کر مستقبل میں موسمیاتی درجہ حرارت میں اضافے کے مختلف منظرناموں کے تحت دنیا پر اس نچلی حد کا اطلاق کیا، جو 1.5 سے چار سیلسیس کے درمیان ہے

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروین سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی سائنس دان جین بالڈون، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، نے کہا: ’یہ مستقبل کے مطالعات کے لیے ایک اہم معیار ثابت ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’بدقسمتی سے یہ 35 سیلسیس کی حد سے کہیں زیادہ گھمبیر صورت حال ہے۔‘

پیر کو شائع ہونے والی تحقیق نے ویٹ بلب کے خطرناک درجہ حرارت کے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات میں اضافہ کیا ہے

گذشتہ ماہ سائنسز ایڈوانسز میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں اس قسم کے نتائج تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر ویسیلیو کی حد کے ساتھ موسمیاتی سٹیشن کے اعداد و شمار اور آب و ہوا کے ماڈلز کا استعمال کیا گیا کہ معتدل گلوبل وارمنگ کے تحت خطرناک مرطوب گرمی کی جغرافیائی حد اور تعدد میں تیزی سے اضافہ ہوگا

تحقیقاتی مقالے کے شریک مصنف میتھیو ہیوبر، جو پرڈیو یونیورسٹی میں ارتھ، ایٹماسفیئرک اینڈ پلانیٹری سائنس کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے ”گرمی کا بدترین دباؤ ان خطوں میں ہوگا، جو دولت مند نہیں ہیں اور جہاں آنے والی دہائیوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے“

انہوں نے مزید کہا، ”یہ ایک حقیقت ہے کہ غریب قومیں امیر ملکوں کے مقابلے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بہت کم کرتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اربوں غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے اور بہت سے لوگ مرسکتے ہیں۔ لیکن دولت مند قومیں بھی اس گرمی کا شکار ہوں گی کیونکہ آپس میں مربوط اس دنیا میں ہر ایک کو منفی اثرات کا کسی نہ کسی طرح صورت میں سامنا کرنا ہی پڑے گا“

محققین نے مشورہ دیا ہے کہ درجہِ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں، بالخصوص فوسل ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، کو کم کرنا چاہئے

انہوں نے کہا ”اگر تبدیلیاں نہیں کی گئیں تو درمیانی آمدنی والے اور کم آمدنی والے ممالک سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close