جو شخص بھی 1492ء میں کیتھولک دور سے پہلے کے مسلم ہسپانیہ کی تاریخ سے واقف ہے، وہ اس بات سے بھی ضرور واقف ہوگا کہ وہ فن، فلسفے اور ادب کے حوالے سے یہودی، عیسائی اور مسلم روایات کا گل دستہ تھا۔ اس موضوع پر طارق علی نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔
یہ تاریخ ہمیں اس وقت یاد آتی ہے، جب ہم افسوس ناک طور پر ان غیر ضروری مصائب اور مشکلات کو دیکھتے ہیں، جو کبھی انسانیت کے لیے خیر کا سبب سمجھے جانے والوں کے درمیان ہونے والے کشت و خون کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کی نتیجے میں 700 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت یہودیوں کی ہے۔ اس حملے کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو موسیقی کے ایک پروگرام میں موجود مبینہ طور پر 260 افراد کی ہلاکت تھا۔ ظاہر ہے کہ اس حملے پر اکسانے کی ذمہ دار صرف اور صرف اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت ہے۔ اس حکومت نے ہی یہودی انتہا پسندوں کو مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کرنے دی، اسی کی افواج غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو قتل کرتی رہی ہیں اور آبادکاروں کو زمینوں پر قبضہ کرنے دے رہی ہیں۔
ایک کھلی جیل کی حیثیت رکھنے والی غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے ساتھ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید قیدیوں سے بھی زیادہ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل میں عیسائیت کے پیروکاروں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور انتہا پسند نہ جانے کس روایت کے تحت ان پر تھوکتے ہیں۔ نیتن یاہو اس وقت کئی ایجنڈوں پر عمل پیرا ہیں، جن میں ان کے سر پر لٹکتی عدالتی تلوار سے بچنے جیسے ذاتی ایجنڈے بھی شامل ہیں۔ اس وقت اسرائیلی قوم پرستی انتقام لینے کے درپے ہے اور فلسطینیوں کے لیے اس کے نتائج ناقابلِ بیان حد تک ہولناک ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو علی الصبح ہونے والے حماس کے حملے نے اسرائیلی ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیل کے مشہور زمانہ خفیہ ادارے حماس کے حملے سے کیسے بے خبر رہے؟ اور آخر کیسے اسرائیل نے اتنی بڑی تعداد میں عورتوں اور مردوں کو، جو کہ شاید فوجی تھے، یرغمال بناکر غزہ لے جانے دیا؟
ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکا کا انٹیلیجنس نظام اسے کئی اہم مواقع پر دھوکا دے چکا ہے، جن میں عسکلان پر ہونے والا یہ حملہ بھی شامل ہے۔ امریکی انٹیلیجنس ناکامیوں کی جو مثالیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں، ان میں ’انقلابِ ایران‘ بھی شامل ہے، جس کے بعد امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ ان مثالوں میں بھارت کی جانب سے 1998ء میں کیا جانے والا ایٹمی تجربہ اور ظاہر ہے کہ اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
جس دوران میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو اس دوران خبروں کی شہ سرخیوں سے دور افغانستان کے صوبے ہرات میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں 2 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے، جہاں امریکا نے افغان خواتین کو آزادی دلوانے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے کھوکھلے وعدے کیے تھے، یہ بھی امریکی انٹیلیجنس کی ایک ناکامی تھی۔
آخر وہ لوگ کتنے مخلص ہیں جو آج اسرائیل سے محبت کر رہے ہیں لیکن خود ان کی تاریخ مارٹن لوتھر سے لے کر شیکسپیئر تک یہودیوں کے لیے حقارت سے بھری ہوئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کے نظریات رکھنے والے آج اسلامو فوبیا سے اپنی مشترکہ محبت کے پیشِ نظر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ وہ کھلے عام ہٹلر کو بھی سراہتے رہے ہیں۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی وہی سلوک تجویز کرتے ہیں، جو جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔
اسرائیل کی اس حمایت کا صلہ بھی ملتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کئی بھارتی صحافیوں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے موبائل فونز میں اسرائیلی ساختہ پیگاسس سافٹ ویئر پایا گیا۔ تو کیا بھارتی ریاست اسرائیل کی مدد سے اپنے ہی شہریوں پر نظر رکھ رہی تھی؟ ہفتے کو ہونے والے حملے سے یہ حقیقت تو سامنے آگئی کہ شاید اسرائیل بھارتی حکومت سے اختلاف رکھنے والے بھارتی شہریوں اور سیاست دانوں کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں تو بہت کچھ جانتا ہوگا لیکن اپنے اطراف کے حالات کے بارے میں کم ہی جانتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کیا چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے؟ اس طرح کے حالات میں متوقع اور غیر متوقع نتائج نکل سکتے ہیں۔ حماس کے اس قدم سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تعلقات کے قیام کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ اس حملے کے نتیجے میں امریکی صدر بائیڈن بھی اسرائیل کے لیے سفارتی اور عسکری امداد کا اعلان کرنے اور ایک امریکی بحری بیڑے کو اسرائیل کے قریب تعینات کرنے پر مجبور ہوئے وہ بھی ان حالات میں جب انہیں آگے انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ ایسا کرکے صدر بائیڈن نے ایک اہم سوال کو جنم دیا اور وہ یہ کہ آخر غزہ کس طرح یوکرین سے مختلف ہے؟ یہ دونوں ہی ایک غاضب قوت کے خلاف لڑرہے ہیں لیکن دونوں کو بہت مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
شاید جوبائیڈن کو یہ بات یاد ہو کہ جب برسوں پہلے ان کے ڈیموکریٹ دوست جمی کارٹر نے اپنی کتاب میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کو نسل پرستی سے تعبیر کیا تھا تو ان کا کس طرح مذاق اڑایا گیا تھا۔۔ لیکن اسی دوران ایران کی حکومت کو بھی ان سے نفرت تھی اور انہوں نے 1980ء میں رونلڈ ریگن کے ساتھ مل کر انہیں شکست دی۔
اس قسم کے واقعات کی وجہ سے ہی مسئلہ فلسطین اب تک حل طلب ہے۔ اس کی ایک وجہ عدم اعتماد بھی ہے جو فریقین کے اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
جمی کارٹر نے تو اپنی کتاب میں سے ایک گمراہ کن لفظ حذف کردیا تھا تاکہ انہیں تشدد کا حامی سمجھے جانے کا کوئی امکان باقی نہ رہے لیکن انہوں نے نسل پرستی کے حوالے سے کی گئی وضاحت کو تبدیل نہیں کیا۔
جمی کارٹر بھی ایک طاقتور دشمن کے خلاف کی گئی حماس کی اس کارروائی کی سختی سے مذمت کرتے۔ کسی اگر مگر کے بغیر یہ واقعی ایک المیہ ہے تاہم فلسطین کے حامی، چاہے وہ حماس کے حامی نہ بھی ہوں اس واقعے کو اس انداز سے نہیں دیکھیں گے۔
ان حامیان میں اسرائیل، امریکا اور کینیڈا کے جانے مانے یہودی دانشور بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں عوام کی بڑی تعداد مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے دہرے معیارات پر بات کر رہے ہیں، ان افراد میں اکثریت عالمی جنوب کے ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
دنیا کے دارالحکومتوں نے ہفتے کے روز جس چیز کے اثرات کو محسوس کیا، اسے یہودی مؤرخ ایان پاپے آباد کاروں کے استعمار یا سیٹلر کولونیل ازم سے قریب تر دیکھتے ہیں۔ نوم چومسکی کے ساتھ ان کے انٹرویوز اور ان کے اپنے مضامین پر مشتمل ان کی ایک کتاب ’آن پیلیسٹائین‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’علمی دنیا میں صیہونیت پر سیٹلر کولونیل ازم کی تعریف کا اطلاق کرنا اب بہت عام ہو چکا ہے۔ اس نے سیاسی طور پر لوگوں کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملے کی جنوبی افریقہ کے ساتھ مماثلت کو مزید واضح طور پر دیکھیں اور فلسطینیوں کے حالات کو مقامی امریکیوں کے حالات کی طرح دیکھ سکیں‘۔
صیہونیت اور یہودیت میں فرق جاننے سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس انتہا پسندی سے فریقین کو نقصان ہی ہوتا ہے اور مستقبل کا بھی کوئی واضح نقشہ نہیں بنتا۔
نوٹ: لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا یہ مضمون 10 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ جسے ادارے کے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔