حماس نے سمارٹ سکیورٹی وال میں کیسے دراندازی کی؟

خلیل موسیٰ

ایک پیراموٹر (موٹرائزڈ پیرا گلائیڈر) کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ نہیں ہے، لیکن سات اکتوبر بروز ہفتہ کی صبح اسرائیل کے خلاف حماس کی تحریک کے غیر معمولی اور اچانک حملے میں یہ سادہ ڈیوائس اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی۔

یہ فوجی آپریشن اسرائیل کی انٹیلی جنس، فوجی اور سیاسی ناکامی کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا موازنہ چھ اکتوبر 1973 کی جنگ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے دو سال قبل غزہ کی پٹی کے ساتھ اپنی سرحد کے ساتھ ایک ارب ڈالر کی ’سمارٹ سکیورٹی‘ دیوار کی تعمیر مکمل کی تھی، لیکن حماس کے جنگجوؤں نے اسے یوں عبور کیا جیسے یہ کوئی حفاظتی دیوار نہ ہو، محض ایک وہم ہو۔

کنکریٹ کی یہ دیوار، جو جزوی طور پر زیر زمین ہے، سینسرز، سٹیل کی باڑ، ریڈار ڈیوائسز اور ریموٹ کنٹرول والے خودکار ہتھیاروں سے لیس ہے۔ اس دیوار کی لمبائی 65 کلومیٹر اور اس کی اونچائی چھ میٹر ہے اور یہ جنوب میں رفح کے علاقے سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی ہے۔

دیوار کی تعمیر کے بعد، اسرائیلی حکام کو توقع تھی کہ یہ ’سمارٹ‘ دیوار غزہ کی پٹی اور اسرائیلی فوج کے کیمپوں اور غزہ کی پٹی کے ارد گرد بستیوں میں رہنے والے اسرائیلی شہریوں کے درمیان لوہے اور سینسر کی رکاوٹ بنائے گی۔

اس وقت، غزہ کی پٹی کے ساتھ سرحدی دیوار کے مانیٹرنگ یونٹ میں خدمات انجام دینے والے اسرائیلی فوج کے ایک سپاہی نے کہا تھا: ’یہاں تک کہ اگر کوئی پرندہ دیوار کے اوپر آتا ہے یا ایک جھینگر بھی اس کے نیچے سے گزرتا ہے تو بھی اسرائیلی فوج کو اطلاع ہو جائے گی، اس لیے اس دیوار کو عبور کرنا ناممکن ہے۔‘

حیرت کا عنصر

حماس کی فوجی کارروائیوں کی کامیابی میں سٹریٹیجک فریب دہی کے منصوبے نے بہت اہم کردار ادا کیا، جس میں گلائیڈرز، بلڈوزر اور موٹرسائیکلوں کا استعمال کیا گیا۔

اس بارے میں حماس تحریک کے ایک اہلکار نے کہا: ’اسرائیل سوچتا تھا کہ وہ غزہ کے کارکنوں کو معاشی مراعات دے کر جنگ سے تنگ حماس کو لگام دے دے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’حماس تحریک نے غزہ کی پٹی میں ایک مصنوعی اسرائیلی بستی بنا رکھی تھی تاکہ اسے فوجی حملوں اور لینڈنگ کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘

دوسری طرف، ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے نشاندہی کی کہ حماس تحریک نے ’اسرائیلی سکیورٹی سروسز کو دھوکہ دیا‘ اور کہا: ’فلسطینیوں نے ہمیں یہ باور کروایا کہ وہ صرف پیسہ چاہتے ہیں، جب کہ وہ فوج کو مسلسل تربیت دے رہے تھے یہاں تک کہ آخر کار حملہ کر دیا۔‘

حماس کے غیر معمولی آپریشن کے چار مراحل تھے: پہلا مرحلہ غزہ سے اسرائیل کی طرف تین ہزار راکٹ فائر کرنے سے شروع ہوا اور حماس کے جنگجوؤں نے گلائیڈرز کے ساتھ سرحدی باڑ کو عبور کیا۔ حماس کے متذکرہ اہلکار نے کہا: ’جیسے ہی فلسطینی جنگجو سرحد کی دوسری جانب اترے، انہوں نے اس جگہ کی سکیورٹی کا کنٹرول سنبھال لیا تاکہ ایلیٹ کمانڈو یونٹ حفاظتی دیوار پر حملہ کر سکے۔‘

دیوار کے کچھ حصے ہٹانے کے بعد موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر سینکڑوں افراد دھماکہ خیز مواد اور بلڈوزر کے ساتھ دیوار عبور کر گئے۔ اس کے بعد جنوبی غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا گیا، جس سے اس کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہو گیا اور اسرائیلی افواج ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کر سکیں۔ اس آپریشن کا آخری مرحلہ یرغمالیوں کی، جن کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے، کو غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے طور پر منتقل کرنا تھا۔

 گلائیڈرز کا استعمال کرتے ہوئے حفاظتی دیوار کو عبور کرنا

پیراشوٹ آپریشنز کا انحصار گلائیڈرز کی ایک مخصوص قسم پر ہوتا ہے، جو فوجی زمین پر چھلانگ لگانے اور مخصوص اور محفوظ مقامات پر اترنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس قسم کا گلائیڈر ایک چھوٹی گاڑی کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس میں بندوق بردار سوار ہوتے ہیں۔

روایتی پیراشوٹ کا استعمال اور انجن کی طرف سے فراہم کردہ پروپلشن اس قسم کے گلائیڈر کو زمین سے لانچ کرنے اور مخصوص راستوں پر سفر کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے، اور پیرا شوٹسٹ اسے کنٹرول کر سکتا ہے۔

تقریباً چند ماہ قبل اسرائیلی فوج کے غزہ ڈویژن کے کمانڈر نمرود الونی نے انکشاف کیا تھا کہ حماس تحریک نے ایک چھاتہ بردار یونٹ تشکیل دیا ہے، جو سرحد پار کر کے غزہ کے اطراف کی بستیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اس اسرائیلی کمانڈر نے، جو حماس تحریک کے حالیہ حملے میں پکڑا گیا تھا، اس وقت کہا تھا کہ ’حماس کے جنگجوؤں نے اس قسم کے گلائیڈر بنا کر یہ ظاہر کیا کہ انہوں نے کافی تجربہ اور مہارت حاصل کی ہے۔‘

دریں اثنا ملٹری ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ریاض قہوجی نے حماس کی حالیہ کارروائیوں کو ’ایک باقاعدہ فوج کی سطح پر، نہ کہ مسلح تحریک کی سطح پر‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ تحریک فضائی، زمینی اور سمندری ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہے۔

یہ بتاتے ہوئے کہ یہ آپریشن روایتی انداز میں اسرائیلی فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو مفلوج کر کے اور کمیونیکیشن ٹاورز پر بمباری کر کے کیا گیا، قاہوچی نے مزید کہا: ’اس سے حماس کے جنگجوؤں کو اسرائیلی فوج کو تقسیم کرکے نشانہ بنانے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ حماس کی کارروائی نے اسرائیلی افواج کو الجھا دیا، جس کی وجہ سے یہ تنازع کئی دنوں تک طول کھنچ گیا۔

 حزب اللہ کا کردار

قاہوچی نے مزید کہا: ’حیرت کا عنصر اسرائیلی فوج کے لیے عملی طور پر مہلک تھا، کیونکہ جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فوجی کیمپ پر حملہ کیا، تو اسرائیلی افواج نے انڈرویئر پہن رکھے تھے اور یہاں تک کہ ٹینکوں کے توپوں کے بیرل بھی ڈھانپے ہوئے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سو فی صد حیران کن عنصر نے اس آپریشن کی کامیابی میں اس حد تک حصہ ڈالا کہ حماس بھی اس کے نفاذ میں آسانی سے حیران ہے۔‘

قاہوچی نے مزید کہا: ’اسرائیل، جو اپنی فوجی طاقت پر فخر کرتا ہے، اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دشمن جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکتا ہے، اسی لیے اسے حماس کی طاقت کا بہت دیر سے اندازہ ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ حماس تحریک نے لبنانی حزب اللہ کے ساتھ براہ راست اور مسلسل ہم آہنگی کی وجہ سے عسکری میدان میں اہم پیش رفت حاصل کی ہے۔

قاہوچی کا خیال ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان مستقبل کی کسی بھی جنگ کی ایک چھوٹی سی مثال ہے اور اس حیران کن جنگ کو حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ عربیہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close